گھروندا ریت کا(قسط6)۔۔۔سلمیٰ اعوان

ماں جی کہا کرتی تھیں قیامت کے روز سُورج سوا نیز ے پر آ جائے گا۔ پر مجھے تو یہ آج ہی سوا نیز ے پر آیا ہوا لگتا ہے۔
جُون کی چلچلاتی دوپہر میں جب زمین بھٹی میں دانوں کی طرح بھُن رہی تھی وہ گھر کی چھت کی دیوار کے چھوٹے سے سائے میں بیٹھی کِسی بھارتی مصنّف کا ایک فضول ساناول پڑھنے میں لگی ہوئی تھی۔ یہ ناول اُسے اپنی کلاس فیلو سے ملا تھا جس نے اُسے دیتے ہوئے اُس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دئیے تھے۔
اُس نے تو جتنے صفحے پڑھے تھے۔سر پیر کاہی پتہ نہیں چلتا تھا۔شاید اِس کی ایک وجہ اُس کاوہ خوف بھی ہو جو اُس کے اعصاب پر سوار تھا کہ گھر کا کوئی فرد اگر اُوپر آگیا اوراُس کے ہاتھ میں ایسی فضول کتاب دیکھ لی تو سمجھ لو اُس کی خیر نہیں۔
یقینا ً یہی وجہ تھی کہ اُس کی توجہ بٹی ہوئی تھی۔تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ اٹھتی۔چھت پر آنے والی سیڑھیوں کو دیکھتی کہ کہیں کوئی کسی خاص ضرورت سے بالائی منزل پر تو نہیں آ گیا، یقیناً یہی وجہ تھی کہ اُس کی توجہ بٹی ہوئی تھی۔تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ اٹھتی۔چھت پر آنے والی سیڑھیوں کو دیکھتی کہ کہیں کوئی کسی خاص ضرورت سے بالائی منزل پر تو نہیں آ رہا۔جونہی اطمینان ہوتا واپس جاکر کتاب سے اُلجھنے لگتی۔

لُوکا ایک جھونکا آتا تو اُس کے پسینے میں ڈوبے جسم کو ٹھنڈک کا احساس دینے کے ساتھ ساتھ اُس کے نتھنوں میں اُس بُوکو بھی گھُسیڑ جاتا جو اُس کے گریبان سے اُٹھ اُٹھ کر اُس کے چہرے کی طرف آتی تھی۔ کھٹی ڈکاروں جیسی یہ بُو اُسے ہر بار یہ یاد دلاتی کہ اُس نے دو دن سے غسل نہیں کیاہے۔

کہانی پھر گُڈمُڈ ہونے لگی تھی۔ جب سے اُس میں آشا اور پران کُود پڑے تھے یا یہ محض اُس کا خیال تھا۔ ویسے ناول اُسے اپنی ذ ہنی سطح سے اُونچا محسوس ہورہا تھا۔
لیکن اِن سب کے علاوہ بھی ایک بات تھی جو بار بار اُس کا دھیان کتاب کے صفحات سے اُکھڑوا رہی تھی۔ کبھی خُوشی اور اندرونی سکون کا دلکش رنگ اُس کے چہرے پر پھیل کر اُسے لال گُلا ل کر ڈالتا۔ کبھی ندامت اور پریشانی کے عکس وہاں ویرانیاں بکھیر دیتے۔ کبھی دل اور دماغ میں زور دار جنگ شروع ہو جاتی۔ دونوں ہی ”اچھا کیا“ اور ”نہیں اچھا کیا“ کی زد میں تھے۔
جب دماغ اتنے بکھیڑوں میں اُلجھا ہُوا ہو،اُلٹی پُلٹی سوچوں میں پھنسا ہوا ہو۔تب کہانی نے خاک پلّے پڑنا تھا۔اب ورقوں کوپیچھے کی جانب بار بار پلٹاؤ اور وہاں کیا لکھا تھا؟جیسے سوالوں کی تکرار ہی ہونی تھی۔

وہ جُھنجھلا اُٹھی۔ اپنے آپ سے باتیں کرنے لگی یوں جیسے اپنا کیس دل کی عدالت میں پیش کیا ہواور ضمیر کے جج کے سامنے صفائی میں دلائل پر دلائل دیئے جا رہی ہو۔
”ٹھیک ہی تو کیا ہے میں نے۔ ایک اُٹھتا ہے تو کُند ذہن کا خطاب دیتا ہے۔ دوسرا کہتا ہے دماغ میں بھُس بھرا ہوا ہے۔ تیسرے کو اعتراض ہے کہ نالائق برتن مانجھنے جوگی رہ جائے گی۔“
ارے میں کوئی کُند ذہن ہوں؟ پتہ نہیں کیوں سارے میرے ہی پیچھے پنجے جھاڑ کر پڑ گئے ہیں۔ اب اگر میرا دل پڑھائی میں نہیں لگتا تو بھلا اِس میں میرا کیا قُصور؟
میں بھی دیکھوں گی دونوں کو اب۔بھلا کتابوں کے بغیر کیسے سبق سنائیں گی ماموں حمید کو۔ کتابیں تو میں نے وہاں پہنچا دی ہیں کہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے مر بھی جائیں تب بھی نہ ملیں۔
اُس وقت وہ گرم پانی کی طرح کھول رہی تھی۔ غم وغصے کے اُبال اُٹھ رہے تھے۔ جلن سے بُرا حال تھا۔ پر تھوڑی دیر بعد جیسے کسی نے چٹکی کاٹ لی۔
”اچھا نہیں کیا تم نے۔ مار پڑے گی اُنہیں جب کتابیں نہیں ملیں گی۔ اماں الگ فضیحتا کریں گی۔“بس تو چھوٹا سا دل ڈوبنے لگا تھا۔

قصّہ یوں تھا کہ اُس بڑے سے گھر میں جس کے بے شمار کمروں میں ڈھیر سارے لوگ رہتے تھے۔ اُس گیارہ بارہ سالہ لڑکی کی رائی برابر بھی اہمیت نہیں تھی۔ یہ دو منزلہ گھر جو اردگرد کے علاقے میں بڑی حویلی کے نام سے جانا جاتاتھا۔ تقریباً سارا اُس کی ننہال کے قبضے میں تھا۔ اُوپر کی منزل کا ایک کمرہ اور اُس کے ساتھ ایک چھوٹا سا باورچی خانہ اُس کی ماں کے پاس تھا جہاں وہ اپنے چھ بچو ں کے ساتھ رہتی تھی۔
اُس کا باپ فوج میں لانس نائیک تھا۔ وہ لوگ کبھی اُس کے ساتھ اُس کی ملازمت پر نہ گئے۔ تنخواہ جو تھوڑی تھی۔ اُسے یاد تھا۔ بچپن میں جب اُس کا باپ سالانہ چھٹی کاٹ کر واپس جانے لگتا تو وہ اُس کی ٹانگوں سے لپٹ جاتی اور اُس کے ساتھ جانے کی ضد کرتی جس پر اُس کی ماں ڈانٹ ڈپٹ کرتی، تب باپ کہتا۔
”مت ڈانٹو بچے ہیں نا۔ بڑ ے ہو کر سب سمجھ جائیں گے۔“

اُس کے والدین جہاں غُربت کی دلدل میں گھُٹنوں گھُٹنوں تک پھنسے ہوئے تھے۔ وہیں اُس کے ننہال والوں پر دولت ہُن کی طرح برستی تھی۔ اُس کے چاروں ماموں اعلیٰ ملازمتوں پر فائز تھے۔ سب سے بڑے گلگت کے ملٹری اسپتال کے ایڈمنسٹریٹو تھے اور گلگت میں پیدا ہونے والی اور پائی جانے والی ہر چیز اُس گھر میں تھوک کے حساب سے دیکھی جا سکتی تھی۔ خشک میووں کے کنستر سٹورروم میں قطار در قطار پڑے رہتے۔ اُس کی چھوٹی خالہ دن میں جب کبھی سٹور میں جاتی تو باہر نکلتے ہوئے اکثر اُس کی دونوں مُٹھیاں میوے سے بھری ہوتیں جنہیں وہ انگنائی میں کھیلتے بچوں کی ہتھیلیوں پر تھوڑا تھوڑا یوں رکھتیں جیسے دروازے پر کھڑے فقیر کے پھیلے کشکول میں نخرے والی گھر گھرہستن مُٹھی بھر آٹا ڈال دے۔
”اتنا تھوڑا سا۔“ وہ خود سے کہتی۔
ٍ ایک پھکّا لگتا اور ہتھیلی خالی ہو جاتی۔ اُ س کی گرسنہ نگاہیں سٹور کے بند دروازے کو گھُورتیں۔ حسرت کے عکس وہاں نظر آتے۔ تب اُسے وہ سلیمانی ٹوپی یاد آتی جس کے متعلق اُس نے بے شمار کہانیوں میں پڑھا تھا۔
”اے کاش وہ ٹوپی کہیں میرے ہاتھ لگ جائے تو بس وارے نیارے ہو جائیں۔ سر پر رکھوں اور سٹور میں گھُس جاؤں۔ پہلی ڈبکی تو کالے شہتوتوں کے کنستر میں لگاؤں اور سارے ہڑپ کر جاؤں۔ گری والی خوبانیاں تو ایک نہ چھوڑوں۔“
وہ ذائقوں کے تصّور میں چٹخارے لے لے کر خود سے باتیں کئے چلی جاتی۔
اُس کا چھوٹا سا ذہن بُہت سی باتیں سوچتا رہتا۔ و ہ چاہتی تھی کہ اپنے بھائیوں اور بڑی بہن سے پُوچھے کہ اُ س کے ماموؤں کے پاس ڈھیر سارے پیسے کیوں ہیں؟اور اُ س کے ابّا کے پاس کیوں نہیں؟
لیکن وہ اُن سے بُہت ڈرتی تھی۔جب بھی ایسا کوئی سوال اُس نے پُوچھنا چاہااُسے دھتکار دیا گیا۔ اُس کا مذاق اُڑایا گیا۔ ایک بار اُس کے ایسے ہی کسی سوال پر اُس کے تیسرے نمبر کے بھائی نے کہا۔
”ارے یہ کارل مارکس کی رُوح اس گھر میں کہاں سے آگئی؟“

پر بڑے بھائی اور بڑی بہن نے دونوں کو ڈانٹا اور اُسے اپنے پاس بٹھا کر نرمی سے بتانا شروع کیا۔
”ہمارے ماموں اُونچے عہدوں پر بیٹھے ہیں۔ اُن کی موٹی موٹی تنخواہیں ہیں۔ وہ امیر ہیں کیونکہ اُنہوں نے محنت کی۔ ہمارے نانا چھوٹے سے کاشتکار تھے۔ ہمارے ماموں سات کوس کا راستہ پیدل چل کر سکول جاتے۔ تپتی دوپہروں اور خون جمانے والی سہ پہروں میں سکول سے واپس آکرباپ کے ساتھ کھیتی باڑی میں اُن کا ہاتھ بٹاتے۔ پانی کی باری پر آدھی آدھی رات تک جاگتے۔ لالٹین کی روشنی میں گھنٹوں پڑھتے۔ مشقّت اُن کی گھُٹی میں پڑی۔ ایسے میں اللہ کی مدد بھی شاملِ حال ہوئی۔ کل جن کٹھنائیوں میں سے اُنہوں نے خودکو گذارا۔ آج وہ اُن کا پھل کھا رہے ہیں۔
اُس کا بڑا بھائی چند لمحوں کیلئے بات کرتے کرتے رُکا۔ہنسا اور پھر بولا۔

اب رہے ہمارے ابّا۔ ایک تو وہ اپنی ماں بہنوں کے لاڈلے، اُوپر سے کام چور۔پڑھنے جاتے تو لڑکوں سے لڑ جھگڑ کر گھر آجاتے۔ ماں بہنیں لعن طعن کرنے کی بجائے اُلٹا اُنہیں شہہ دیتیں۔ ایسے بگڑے ہوئے بچے جب نہیں پڑھتے تو پھر زندگی میں دھکّے کھانا اُن کا نصیب بنتا ہے۔ اپنے مقدر کے دھکّوں میں اُنہوں نے ہمیں بھی شامل کر لیا ہے۔ ہم بھی کولہو کے بیل کی طرح اچھے دنوں کی اُمید میں اپنے مدار پر چکر کاٹے جا رہے ہیں۔“
ماں بھی وہیں پاس ہی بیٹھی یہ سب سُن رہی تھی۔ بیٹا جونہی خاموش ہوا۔ وہ اپنے اندر کی بِس گھولتی تلخیاں ہونٹوں پر لائے بغیر نہ رہ سکی۔
”میں تو شاید حرام کی تھی۔ کوڑے کے ڈھیر پر سے اُٹھائی گئی تھی۔ آنکھیں بند کر کے جہنم میں جھونک دیا۔ میرے لئے شاید لوگوں کا قحط پڑ گیا تھا۔کھاتے پیتے لوگوں کو موت آگئی تھی۔“
وہ اپنی ماں اور بڑی بہنوں کے خلاف زہر اُگل رہی تھی۔
”ماں۔“
بڑا بیٹاکِھلکھلا کر ہنس پڑا تھا۔
”خوش رہا کرو۔ تمہارا خالہ زاد، چچاز اد ہے۔ ہر بندے کا اپنااپنا نصیب ہوتا ہے۔آپ اگر ابّا کے مقّدر میں نہ لکھی جاتیں تو ہم جیسے بچے آپ کو کہاں سے ملتے۔“
”بس تو بچے اِسی نصیب کے لکھے کو تو بھوگ رہی ہوں۔“
اُس کے اندر کا کَرب جیسے بِلبلاتا ہوا چَھلک چَھلک کر باہر نکل رہا تھا۔
حالات کے اِس جبر نے ماں کے اندر بُہت سی تلخیوں کو جنم دے رکھا تھا۔ روزمرّہ معمولات میں اکثر وبیشتر اُ س کا رویہ جارحانہ سا ہوتا۔ماں بہنوں سے بول چال بھی بندرکھتی۔ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی اچھے ہمسایوں جیسے تعلقات نہ ہوتے۔ چھوٹی موٹی اشیاء جیسے چینی، پتی، آٹا اور دال وغیرہ کا لین دین بھی بُہت کم ہوتا۔

سال بعد جب اُ سکے ماموں اپنے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ پھلوں کے ٹوکروں اور دیگر سوغاتوں سے لَدے پَھندے چھٹیاں گزارنے گھر آتے،تب ایک تھال میں مختلف چیزیں سجا کر اُس کی ماں کو بھیجی جاتیں۔ دینے اور لینے کا یہ مرحلہ کس قدر جانگسل ہوتا۔ اِس کی سنگینی کا اندازہ اُس سے بڑھ کر کسی کو نہیں تھا۔ دعائیں مانگتے مانگتے اُس کی زبان خشک ہونے لگتی۔
”اللہ ماں پھل واپس نہ کرے۔“
پریہ دعائیں بہت کم قبول ہوتیں۔ ما ں کا طنزیہ ہنکارہ کمرے میں گونجتا۔
”بھوکی نہیں ہوں اِن چیزوں کی۔“
تھال ویسے ہی لوٹا دیا جاتا جیسے آتا۔ وہ بس ٹکر ٹکر صورتِ حال کو دیکھتی۔ آنگن میں کھڑی ناخنوں کو دانتوں سے کاٹتے ہوئے اُس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے۔
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ اُس کے بڑے ماموں جو لڑائی جھگڑوں کی تفصیل سے کم ہی دلچسپی لیتے تھے اُس کی ماں کو خود چیزیں دینے آجاتے۔تب ماں انکار نہ کر پاتی اور چُپ چُپاتے تھال یا سینی رکھ لیتی۔
وہ ماں سے دَھپ دَھپ مار کھاتی۔ بہن بھائیوں سے پٹتی۔ کز نز کی اُلٹی سیدھی باتیں سُنتی۔ دل ہی دل میں کڑُھتی پر کچھ نہ کر پاتی۔

ایک مصیبت یہ بھی تو تھی کہ وہ پڑھنے لکھنے میں بھی بڑی نکّمی تھی۔ دماغ جانے کیسا تھا کہ اُس میں نصابی چیز تو کوئی گھُستی نہ تھی۔ ہاں اِدھر اُدھر کی فضول باتوں کے لئے بہتیری گنجائش تھی وہاں۔
خالو حمید اُس کی چوتھے نمبر والی خالہ کے شوہر بڑے صُلح کُل قسم کی شخصیت تھے۔ اُن کا معمول تھا کہ وہ گھر کے سب بچوں کو ہر روز شام کو دو تین گھنٹے پڑھاتے۔اُسے بھی مجبوراً سب کے ساتھ بیٹھنا پڑتا۔ جب وہ اِس سارے وقت میں دو سوال بھی صحیح حل نہ کر پاتی تو وہ جھلاّ کر کہتے۔
”کتنی کوڑھ مغز لڑکی ہے یہ۔“
اُس وقت اُ س کی آنکھو ں میں پانی اُتر آتا۔
جب وہ اُسے سمجھانے کی کوشش کرتے۔ اُسے یوں محسوس ہوتا جیسے دماغ تک پہنچنے کے سبھی راستے بلا ک ہوگئے ہیں۔ کوئی چھوٹی موٹی درزیادراڑ بھی نہیں ہے جن میں سے سمجھایا ہوا اندر جا سکے۔
تب پھوپھا حمید کی کُرسی کے پاس کھڑی کاپی پر نظریں جمائے صرف یہ سوچتی کہ وہ دھڑام سے فرش پر گر پڑے۔اُس کا سر پھٹ جائے،خون بہنے لگے، بیہوش ہوجائے۔ تب سارا گھر اُس کے گرداکٹھا ہو جائے۔ پھر کتنے دن وہ بستر پر پڑی رہے۔ اُس کی خوب خاطر مدارت ہو۔
پر وہ یہ سب سوچتی اور کچھ نہ کر پاتی۔

اُس کی بہن اور کزن کو اچھا کام کرنے پر ہر روز شاباش ملتی۔ وہ اِس روز روز کی کِل کِل سے تنگ آگئی تھی۔ اُنہیں زِچ کرنے کی کئی ترکیبیں اُس کے ذہن میں آتیں۔ پر عمل کی کسوٹی پر پرکھتی توپھسپُھسی نظر آتیں۔ وہ اُن دونوں کو سزا دینا چاہتی تھی۔ پریشان کرنے کی خواہش مند تھی۔ جَلانے اور تڑپانے کی آرزومند تھی۔
اور پھر اُس نے ایک دن اُن کی کتابیں غائب کر دینے کاسوچا۔ یہ تجویز اُسے سہل لگنے کے ساتھ ساتھ معقول بھی لگی۔
اور اُس دوپہر جب گھر کے سب افراد گرمی سے بچنے کے لئے نچلی منزل میں جمع تھے۔ اُ س نے احتیاط سے اپنی بڑی بہن اور کزن کے بستے اُٹھائے اور اپنے کمرے کی بڑی پیٹی کے پیچھے پھینک دئیے۔ سُکھ کا لمبا سانس بھرا اور اپنے آپ سے کہا۔
”اب دیکھوں گی میں اُنہیں۔ نہ ہوگا بانس اور نہ بجے گی بانسریا۔“

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply