وہ وعدہ نہیں رہا ۔۔۔سیّد مہدی بخاری

آنکھ کھولنے سے ہی سلسلہ گفت و شنید کا شوقین رہا ہوں۔ ہمارا گھر محلے بھر میں وہ واحد گھر ہوتا تھا جہاں پی ٹی سی ایل کا فون لگا ہوا تھا۔ اس زمانے میں فون لگوانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ فون یا تو وزیروں مشیروں کے ہاں لگا کرتے یا سرکاری بابوں کے ہاں۔ ابا جی اوّل تو سیالکوٹ میں بڑے بزنس مین تھے، دوئم ان کی سلام دعا و حلقہ احباب بہت وسیع ہوا کرتا تھا۔ اپنے ذاتی تعلقات کے بل پر وہ فون لگوانے میں کامیاب رہے۔

فون دن رات بجتا رہتا۔ محلے بھر کی خوشی و غمی کے پیغامات اس پر موصول ہوتے اور اماں فون سن کر مطلوبہ گھر والی خاتون کو میرے ہاتھ پیغام بھیج دیتیں۔ محلے بھر کی خواتین کا فون کرنے یا سننے آنا جانا لگا رہتا۔ کئی بار یوں ہوتا کہ فون کرنے کے بعد فون سٹینڈ پر جاتے جاتے کوئی از رہ مروت کال کے پیسے چھوڑ جاتا۔ ابا جی کو اس سے کوفت ہونے لگی۔ اماں بھی کبھی کبھی بیزار ہو جاتیں تو کہتیں کہ یہ گھر سے زیادہ پی سی او لگنے لگا ہے۔ مگر اگلے ہی لمحے پھر کوئی کال آ جاتی تو ماں جی کا دل موم ہو جاتا۔

غم یا موت کی خبر آتی تو فون سنتے ہی سب سے پہلا کہرام ہمارے گھر پڑتا۔ ماں رونے والیوں کو تسلیاں دیتی رہتی۔ اس فون کی بدولت جہاں ہر وقت گھر میں محلے کی عورتوں کا آنا جانا لگا رہتا ،وہیں گھر کا کچن بھی مسلسل چائے پانی کی خاطر چلتا رہتا۔ میرا کام گلیوں میں بھاگتے دوڑتے کسی نہ کسی گھر پہنچ کر پیغام پہنچانا ہوتا تھا کہ آنٹی آپ کا فون آیا ہے ۔۔۔ اکثر آنٹیوں کے ساتھ کسی نہ کسی آنٹی کی ہم عمر بیٹی بھی انگلی تھامے ساتھ چل پڑتی تو واپسی کا راستہ اٹکھیلیاں کرتے گزر جاتا۔

خوشی یا بیاہ کی خبر آتی تو ہمارے گھر ہی فون بند ہونے کے بعد سب سے پہلے مٹھائی کا ڈبہ کھلا کرتا۔ سب سے پہلی ہنسی اور مبارک کی صدا ہمارے گھر گونجتی اور پھر سارے محلے میں افواہ کی صورت تیزی سے پھیل جایا کرتی۔ فون کا بل موصول ہوتا تو اس دن ابا جی کا مزاج بل دیکھ کر برہم رہتا۔ گو کہ وہ اچھے خاصے مالدار شخص تھے مگر بل پر درج ہندسے پڑھ کر ان کی خوش مزاج طبیعت پر بھی بل پڑنے لگتے تو اماں کہتی ” کوئی بات نہیں شاہ صاحب، اللہ نے آپ کو دیا ہے تو یہ سلسلہ ہے ورنہ کون آتا ؟ آپ کے وسیلے سے ہی لوگ اپنوں کی خوشیوں و غموں سے مطلع رہتے ہیں” ۔۔ ابا جی یہ سن کر ٹھنڈے پڑ جاتے۔

مجھے یاد ہے جس دن فون پر نانی اماں کے انتقال کی خبر آئی میری اماں جو سب کو ایسی خبروں پر دلاسے دیا کرتی تھی وہ خود نہ سنبھل سکی۔ فجر کا وقت تھا۔ ابھی رات کا پردہ چاک نہیں ہوا تھا۔ اماں کی دھاڑیں سن کر اوّل اوّل ہمسائے جمع ہونا شروع ہوئے اور پھر یہ خبر محلے میں پھیل گئی۔ خواتین کا ایک ہجوم تھا جو ماں کو دلاسے دیتا رہا مگر اماں نہ سنبھل سکی اور بیہوش ہو گئی۔ یہ 1992 کی ایک سرد صبح تھی۔

اماں نے اپنی ماں کی موت کا اتنا صدمہ لیا کہ تین دن نیم غنودگی کی حالت میں رہی۔ ڈاکٹر آتا، چیک کرتا اور ڈرپ چڑھا جاتا۔ اس کے بعد انکشاف ہوا کہ اماں کو شوگر ہو چکی ہے۔ کچھ سالوں بعد والد صاحب جگر کے سرطان میں مبتلا ہو کر چل بسے تو اماں تنہا رہ گئی اور پھر ایک دن انکشاف ہوا کہ ان کے دونوں گردے شوگر کی وجہ سے ناکارہ ہو چکے ہیں۔ یہ خبر بھی مجھے فون پر موصول ہوئی تھی۔ ڈاکٹر نے ٹیسٹ رپورٹ ملتے ہی مطلع کر دیا تھا۔

اماں کو ٹینڈے پسند ہوا کرتے تھے۔ وہ اکثر پکایا کرتیں مگر مجھے ٹینڈے قطعی پسند نہ تھے۔ فون بج بج کر جب چند گھڑی کو بند رہتا ،اماں کچن میں ہنڈیا چڑھا دیتی۔ پکانے کے دوران بھی محلے والیوں کا آنا جانا لگا رہتا۔ ایک دن میں نے امی سے پوچھا “یہ ٹینڈے کس نے پکائے ہیں؟ ۔۔۔ ماں کا جواب آیا ” یہ نخرے اپنی بیوی کو دکھانا”

جب شادی ہو چکی ان دنوں اماں کی طبیعت ناساز رہا کرتی۔ شادی کے بعد ایک دن بیوی سے پوچھا ” اب یہ ٹینڈے کس نے پکائے ہیں؟ ۔ جواب آیا “یہ نخرے اپنی اماں کو دکھاؤ”۔۔ایک دن دونوں کو ساتھ بٹھا کر پوچھا کہ یہ ٹینڈے کس نے پکائے ہیں ؟ ۔ دونوں کا یک زباں ہو کر جواب آیا “کھانے ہیں تو کھاؤ  نہیں تو نہ کھاؤ، یہ نخرے کسی اور کو دکھاؤ”۔ اماں کو اپنی بہو کی سائیڈ لینا ہمیشہ سے پسند رہا تھا، اس کہ وجہ شاید یہ تھی کہ یہ ہماری دو طرفہ پسند کی شادی تھی۔

اماں چل بسی،ان کے گزرنے کے پانچ سال بعد پہلی بیگم بھی چل بسی یعنی گھر ٹوٹ گیا۔ راہیں جدا ہوئیں تو ڈپریشن نے یوں جکڑا کہ اس سال انکشاف ہوا کہ مجھے بھی شوگر ہو چکی ہے۔ اب شوگر کو “ہنڈاتے” چار سال ہونے کو آئے۔دوسری شادی کو ابھی کچھ دن ہی ہوئے تھے کہ ایک دن شمال کے سفر سے واپس آتے بیگم سے پوچھا کہ آج کیا پکایا ہے ؟ جواب آیا “ٹینڈے” ۔۔۔ اس دن کے بعد میں نے کھلا اعلان کر دیا کہ آئندہ ٹینڈے بین ہیں۔ اب گھر میں نہ پی ٹی سی ایل کا فون لگا ہے نہ ہی ٹینڈے پکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ تصویر میرے بچپن کی ہے۔ فون بوجوہ سلسلہ روزگار و کاروبار حیات میرے ہاتھ سے اب بھی نہیں چھوٹتا۔ بس چھوٹے ہیں تو ماں باپ یا پھر وہ جس نے بارہا کہا تھا ” تم ہی میری زندگی ہو” ۔۔۔ ہم دونوں ہی جھوٹے تھے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply