طنزومزاح۔۔ مرزا یاسین بیگ

آج کل کالم لکھنے کا مرض انتہائی عام ہوتا جارہا ہے ۔ خادم رضوی جو زبان اپنی تقریروں میں استعمال کرتے ہیں اس سے ملتے جلتے جملے اب کالم نگاروں کی شفقت کا حصہ بننے لگے ہیں ۔

کالم کو گالم کے مترادف کردیاگیا ہے ۔ اکثر کالم پڑھنے کے بعد گالم ہی زبان پر آجاتی ہے ۔ اخبارات میں اشتہارات کے بعد جتنی جگہ بچتی ہے وہ آدھی بیانات اور آدھی کالموں میں بانٹی جارہی ہے
اصلی خبریں منہ چھپائے روتی رہتی ہیں ۔ ایسے ایسے کالم نگار سامنے آتے جارہےہیں کہ خدشہ بڑھ گیا کہ ان کی زبان و بیان دیکھ کر کسی دن اُردو خودکشی نہ کرلے ۔

جو شاعر تھا , جو افسانہ نگار تھا , جو ٹی وی پلے رائٹر تھا وہ اب کالم نگاری کو بھی کاندھا دےرہا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ ایک بڑے اخبار کے علاقے کا جو ٹیلی فون ڈپارٹمنٹ کا جہاندیدہ کلرک تھا وہ بھی ادارتی صفحے میں ہفتہ وار کالم نگاری کررہا ہے ۔ اس کا کالم پڑھو تو لگتا ہے ٹیلی فون کی تاریں بکھری پڑی ہیں ۔ ایک ہی کالم میں پچیس ٹیلی فونک ہائے ہیلو کا مزہ آتا ہے ۔ اکثر لگتا ہے جیسے اور لائن کٹ گئی۔مولانا کوثر نیازی زندہ ہوتے تو زیادہ لطف لیتے ۔

ایک کالم نگار ہر کالم میں کسی شاعر کی پوری غزل ٹھوک کر اوپر نیچے اپنی چند بدتمیزیاں پرودیتے ہیں ۔ لگتا ہے اخبار کالم لکھنے کے پیسے نہیں دیتا اور اس کی کمی وہ شاعر کی غزل چھاپ کر ان سے پیسے لےکر پوری کرلیتے ہیں ۔ غزل کبھی کسی مرحوم کی نہیں ہوتی، صرف ان شعراء کی غزل ان کے کالموں میں جگہ بناتی ہے جن کی غزل تو اعلیٰ نہیں مگر وہ خود کہیں نہ کہیں اعلیٰ افسر لگے ہوئے ہیں۔

پہلے کالم نگار پڑھے لکھے ہوتے تھے اب صرف لکھے لکھے آرہے ہیں ۔ ان میں سے اکثر نہیں بلکہ اکثریت کسی نہ کسی سیاسی پارٹی کے ترجمان ہوتے ہیں اور پارٹی لیڈر کو خدا کا درجہ دینے میں صرف ایک آنچ اور ایک آنکھ کی کسر چھوڑتے ہیں ۔ مخالفین کیلۓ گورکن کے فرائض انجام دیتے ہیں اور قلمی دہشتگردی میں بازی لے جانا چاہتے ہیں۔

ایک زمانے میں مجید لاہوری ، ابراہیم جلیس ، ابن انشا جیسے کالم نگار ہوتے تھے ۔ صبح نہار منہ ادارتی صفحہ کھولو تو ان کے کالم پڑھ کر دن بھر مسکراتے رہنے کو دل چاہتا تھا ۔ اب کالم پڑھو تو بیگم سے لڑنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔ دل اس قدر اچاٹ ہوجاتا ہے کہ ہر ایک کو چاٹ جانے کو  کرتا ہے ۔ ان کالم نگاروں کے جملوں میں قواعد کم اور القاعدہ کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے۔

آج کل اخبار سے بےزاری کی ایک وجہ ان کالم نگاروں کی بھرمار ہے ۔ پڑھنے سے پہلے ان کی پاسپورٹ سائز تصویر بھی دیکھنی پڑتی ہے ۔ بیشتر سے ملو تو پتہ چلتا ہے موصوف اپنی تصویر سے 25 سال بڑے ہیں ۔ پہچانے صرف اس لیے  جاتے ہیں کہ دو تعارفی جملوں کے بعد اپنا کالم سنانا شروع کردیتے ہیں ۔ کالم کی فوٹو  سٹیٹ تھمانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جو بھی کالم نگار 25 کالم لکھ لے وہ ان کالموں پر مبنی کتاب چھاپ لیتا ہے ۔ رہی سہی کسر یو ٹیوب کے ذریعے نکال لی جاتی ہے جہاں وہی کالم ویڈیو کی شکل میں ڈال دیے جاتے  ہیں ۔ آج کے دور میں شیطان سے بچنا آسان ہے مگر کالم نگار سے نہیں ۔ ملٹی میڈیا سب سے زیادہ کالم نگاروں کی تحریروں سے برباد ہورہا ہے ۔ میں تو دوستی کرتے ہوۓ سب سے پہلے یہ پوچھ لیتا ہوں کہ آپ کالم نگار تو نہیں؟ کئی  سے دوستی اس لیے  چھوڑدیے  کہ وہ کالم نگار بن چکے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply