• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • برما ۔مسلسل داستان ظلم کا تحقیقی وتاریخی تجزیہ۔۔۔ ظفرالاسلام سیفی

برما ۔مسلسل داستان ظلم کا تحقیقی وتاریخی تجزیہ۔۔۔ ظفرالاسلام سیفی

کٹتے وجود ،بکھرے اعضاء ،لٹتے آنچل ،بہتے لہو ،جھلستے لاشے اور بے جان وجود انسانیت وشخصیت، شرافت وعظمت اور تہذیب ومتانت کے ماتھے پر بے حسی کا کلنک ہیں ۔۔۔۔۔ جانتے ہو کس کا وجود شکار ستم ہے ؟اسکا جسکی تاریخ بدکرداروں کے وجود کے درپے رہی ، جسکی سلطنت میں سورج کبھی غروب ہوتا تھا نہ عدل وانصاف کا ماہتاب ، جس نے بلاامتیاز رنگ ونسل ،مذھب ومسلک انسانیت کو احترام انسانیت سکھلایا،دنیا کو تہذیب وشرافت سے روشناس کروایا،اخلاق وکردار سے شناسائی دلائی اور لڑائی وقتال تک کے اصول وضع فرمائے وہی آج کردار کے الزام ،مذھب کے طعنے اور اخلاق پردشنام طرازی کے زیر اثر ہے ،ابھی نہیں برسوں بلکہ صدیوں سے، سالہا سال ظلم وبربریت کے زیر اثر ،روز وشب خون آشام لمحات اور ہنگامہائے رستاخیز سے مکیف ساعات کاسامنا کرتے کائنات کے اس مظلوم ترین قوم کا حال آئیے تاریخ کو صفحہ بہ صفحہ پلٹ کر جانتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برما ایک خود مختار ریاست ہے جو بنگلہ دیش ،چین ،بھارت اور تھائی لینڈ کے جلو میں خلیج بنگال اور بحیرہ انڈمان کے ساحل پر واقع ہے،676578مربع کلومیٹر کے حجم میں 51ملین آبادی کو سموئے اس ریاست کا دارالحکومت نیپیداد اور سب سے بڑا شہر رنگون ہے ،شان ،کایا ،کچھین ،ارکان ،کرین ،مون اور چھین کے سات صوبوں پر مشتمل اس ریاست کی جغرافیائی وسیاسی تاریخ کا صفحہ صفحہ لہو سے رنگین ہے ،ساتویں صدی میں اسلامی تعلیمات وافکار سے شناسائی پانے والی اس قوم کو مصائب وآلام سے بھرپور آزمائش کی پر کھٹن ساعات پر مشتمل مقدر ملا ۔
انوراٹھا وہ پہلا فرد تھا جس نے تبت چین سے ہجرت کرکے آئے ہوئے خالص برمی قبیلے کو متحد کیا ،انسانیت تب گیارھویں صدی سے گذر رہی تھی ،برمیوں نے راٹھا کی قیادت میں اپنے ریاستی تشخص کی بنیاد رکھتے ہوئے ’’ پگان ‘‘ کو دارالحکومت قرار دیا ،یہی وہ وقت تھا جب بودھ مذھب نے سرزمین برما پر جنم لیا،جسکی پرورش بعد ازاں بے بنیاد بلکہ مضحکہ خیز وخود ساختہ تصورات پر کی گئی ،بتلایا گیا کہ ’’ مہاتما بودھ دنیا میں امن کا سب سے بڑا پیامبر اور عدم تشدد کے فلسفے کا داعی ہے ‘‘ باور کروایا گیا کہ یہ مذہب مہاتما بودھ کی اس بنیادی فکر پر کھڑا ہے کہ ’’ جس نے کسی جانور کو بھی قتل کیا تو وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے کسی انسان کو قتل کیا ‘‘ سماج کی نظروں میں دھول جھونکتے اور انسانیت کی تذلیل وتضحیک کرتے اس مذہب نے اپنے ان من گھڑت غیرواقعی تصورات کی بنیاد پر پیروکاروں کی ایک بڑی عمارت تعمیر کر لی جسکی سطح مرتفع برما کی سیاہ پہاڑیوں سے اٹھ کر جاپان ،جنوبی کوریا ،لائوس ،منگولیا ،سنگارپور ،تائیوان ،تھائی لینڈ ،کمبوڈیا اور بھوٹان کی بلندیوں کو چھونے لگی اورآج پینتیس کروڑ سے زائد پیروکاروں کے ساتھ انسانیت کا منہ چڑا رہا ہے ۔
تیرھویں صدی میں قبلائی خان ،سولہویں صدی میں ٹنگو خان اور اٹھارویں صدی میں الونگ پھیہ نے اپنی اپنی سلطنتوں کے وجود وبقا کے لیے اس دھرتی میں خون کی ندیاں بہائیں مگر ان تمام رستاخیز ہنگاموں اور قیامت خیز ہولناکیوں کے باوصف ’’ اراکان ‘‘ کے مسلم اکثریتی خطے نے مسلم امہ کے لاکھوں فرزندان کو اپنے سینے سے لگائے رکھا ،خلیفہ ہارون الرشید کے عہد میں طلوع ہونے والے آفتاب اسلام نے دلوں کے مقفل سانچوں کو وا کیا ، اندھیرا جس سے چھٹا اور اراکان کے بلند وبالا پہاڑ ’’ صدائے الا اللہ ‘‘ سے گونجنے لگے ۔
’’ اردو انسائیکلو پیڈیا ‘‘ رپورٹ بتلاتی ہے کہ
’’ اراکان مسلمانوں کی ایک خود مختار ریاست تھی ،1430ء میں یہاں مسلمانوں نے سلطان شاہ کی قیادت میں اپنی حکومت قائم کی ،تقریبا ًساڑھے تین سوسال تک یہاں مسلمانوں کی حکمرانی رہی ، اس دوران حکمرانوں نے جو سکے جاری کیے ان پر کلمہ طیبہ لکھا ہوتا تھا ،1784ء میں راجہ بودھاپیا نے اسپر قبضہ کرلیا ،اسکا تعلق بودھ مت سے تھا ،وہ مسلمانوں کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا تھا ،اس نے مسلمانوں پر ظلم وتشدد کے پہاڑ توڑ دیئے ،اسکے باوجود وہ انہیں زیر کرنے میں ناکام رہا تاہم مقامی بودھوں نے مسلمانوں کو دبانے اور ان پر ظلم وستم ڈھانے کی مہم جاری رکھی جو آج بھی جاری ہے ‘‘
(اردو انسائیکلوپیڈیا شائع کردہ فیروز سنز لاہور )
راجہ بودھاپیہ جیسے کردار تاریخ انسانیت کے خوبصورت چہرے پر بدنمائی کا کلنک ہیں ،یہی وہ بدکردار راجہ تھا جس نے مسلمان علماء کو سورکا گوشت کھانے پر مجبور کیا اور انکے انکار پر سب کو قتل کردیا، تاریخ بتلاتی ہے کہ اس واقعے کے بعد سات دن تک سرزمین برما پر سورج طلوع نہ ہوا ۔
1826ء میں ارکان اور تناسرم برٹش انڈیا کے ماتحت آگئے،برما ان علاقوں سے دست بردار ہوگیا ،دوسری اینگلو برمن وار 1852ء میں وسطی برما ،تیسری اینگلو برمن وار 1885ء میں بالائی برما اور 1890ء میںشان اسٹیٹ پر برطانوی استعمار نے قبضہ کرلیا ۔1937ء تک برما برصغیر کا حصہ رہا ،پھر اسی سال برطانیہ نے اسے علیحدہ کالونی قرار دیا ،1948 ء تک برطانوی تسلط یہاں مضبوط پنجے گاڑھے رہا ،تاریخ بتلاتی ہے کہ مہاتما بودھ کی تعلیمات اور امن کے یہ نام نہاد علمبردار انگریزوں سے لڑائی کے وقت انکے حملوں سے بچنے کے لیے مسلمانوں کو بطور ڈھال آگے رکھتے ،تاہم سخت مزاحمت کے باوجود انگریزی تسلط برما پر برقرار رہا ۔


آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو انگریزوں نے سرزمین برما میں ہی قید تنہائی کے لیے ڈالا تھا ۔رنگون شہر میں بہادر شاہ ظفر کے مزار کے درودیوارسے اسکے یہ اشعار آج بھی گویا گونج رہے ہوں جو اس نے اس سرزمین پر ،عالم حسرت ویاس میں کہے تھے ، غم واندوہ کے باوصف شائستگی ذوق کو ذرا دیکھیے ۔۔۔۔ لکھا اور کیا خوب لکھا کہ
لگتا نہیں ہے دل مرا اجڑے دیار میں

کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں
عمردراز مانگ کر لائے تھے چار دن

دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
ان حسرتوں سے کہہ دو کہیں اور جا بسیں

اتنی جگہ کہاں ہے دل داغ دار میں
کتنا بد نصیب ہے ظفر دفن کے لیے

دوگز زمیں نہ ملی کوئے یار میں
4جنوری 1948ء میں برما جب برطانوی تسلط سے آزاد ہوا تو ارکان کو برما کے حوالے کردیا گیا جسکے خلاف مسلمانوں نے آواز بلند کی ،مسلمان ارکان کی اپنی سابقہ حالت ’’ آزاد خود مختار ریاست ‘‘ کی صورت میں بحالی چاہتے تھے مگر اس آواز کو پوری قوت سے دبانے کے لیے 1962ء میں فوجی آپریشن کیا گیا ،یہ وہ دن تھے جب فوجی حکومت نے برما کے اقتدار کی لگام اپنے ہاتھوں میں لی اور اقتدار سنبھالتے ہی مسلمانوں کو باغی قرار دے دیا ، 1962 سے 1982ء تک یہ بھیانک خونی کھیل جاری رہا ،اس دورانیہ میں 1978ء میں کیا جانیوالا فوجی آپریشن ’’ کنگ ڈریگون ‘‘ انتہائی ہولناک تھاجسکے نتیجے میں تقریباً ایک لاکھ مسلمان شہید اور بیس لاکھ کے قریب بنگلہ دیش ،بھارت وپاکستان ہجرت کر گئے ۔
1982ء میں مسلمانوں نے ایک تنظیم ’’ روہنگیا سالیڈیرٹی آرگنائزیشن ‘‘ قائم کی جسکا مقصد برما سے آزادی حاصل کرنا تھا ،مگر اسکے جواب میں بدنام زمانہ جنرل ون نے خوفناک خونی آپریشن شروع کردیا،جنرل ون کی فوجی حکومت نے ’’ سٹیزن شپ قانون ‘‘ کے تحت آٹھ لاکھ روہنگیائی اور دس لاکھ چینی وبنگالی مسلمانوں کو نہ صرف شہری ماننے سے انکار کردیا بلکہ ملک سے نکلنے پر بھی پابندی لگا دی ،1990ء میں مانگڈو ٹاون میں مسلمانوں کی سینکڑوں دکانیں چھین لی گئی اور مساجد وتبلیغی مراکز بند کرادیئے گئے ،مسلمان اس تمام عرصہ میں ظلم وستم کی چکی میں پس ہی رہے تھے کہ اچانک16مارچ1997ء کودن دیہاڑے بے لگام شدت پسندبودھ صوبہ راکھین کے مسلم اکثریتی علاقے ’’ مندالے ‘‘ میں داخل ہوگئے اور قتل و غارت گری شروع کردی جسکے نتیجے میں متعدد مسلمان شہید ،سینکڑوں گھر ومساجد مسمار اور ہزاروں کتب کو نذر آتش کردیا گیا ،12جولائی 2001ء ایک مرتبہ پھرسفاکیت دندنانے لگی،شدت پسند بودھوں نے ایک مسجد کے معصوم نمازیوں پر حملہ کرکے فسادات کو ایک مرتبہ پھر آکسیجن دی ،ان فسادات کے نتیجے میں گیارہ مساجد شہید،چار سو گھر نذر آتش اور سات سو مسلمان شہید کردیئے گئے ،2010ء میں الیکشن ہوئے جسکے نتیجے میں آمریت کا سورج غروب ہوا اور ملک نام نہاد جمہوری قوتوں کے ہاتھ آیا،جمہوریت جمہوریت کے خوش کن نعروں کو سنتے ہی روہینگیا مسلمانوں نے اپنے بنیادی حقوق وشہریت کا مطالبہ کیا ،اس مطالبے کے ساتھ ہی جمہوریت غرانے لگی اور مسلمانوں پر ایک مرتبہ پھر مظالم میں شدت آگئی۔

مئی2012ء میں ایک بودھ لڑکی نے اسلام قبول کرلیا جسے بودھوں کی جانب سے ستایا جانے لگا اس نے بودھوں کے ناشائستہ رویوں کی بنیاد پر اپنا گھر بار چھوڑدیا اور مسلم اکثریتی علاقے میں پناہ لے لی ،کچھ عرصہ بعد اسکی لاش ملی جسےزیادتی کے بعد قتل کردیا گیا تھا ،تعجب خیز امر یہ ہے کہ بودھوں نے اسکا الزام بھی مسلمانوں پر لگادیا اور مسلمانوں کے خلاف قتل وغارت گری کا ایک مرتبہ پھر بازار گرم کردیا ،3جون 2012ء کو زائرین کی ایک بس روک کر مسلمان علماء کی ایک بڑی تعداد جو سفر عمرہ سے واپس تشریف لائے تھے کو نہایت بے دردی سے شہید کردیا گیا ۔
پاکستان میں برمی مسلمانوں کی رفاہی تنظیم ’’ جمعیۃ خالد بن ولید الخیریہ ‘‘ کی رپورٹ بتلاتی ہے کہ برمی حکومت مظالم وفسادات کی میڈیائی تشہیر روکنے پر کڑی نظر رکھتی ہے ،پورے خطے میں میڈیا ومقامی صحافیوں کے داخلے پر پابندی عائد ہے اور مذکورہ بالا مظالم کی ہوش ربا تفصیلات فقط مشتے از خروارے ہیں جس تک میڈیائی پابندی کے باوجود کسی نہ کسی طور رسائی ہوگئی ،اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں کیا کس سطح کا ہورہا ہے ،داخلی منظرنامے کی حقیقی منظرکشی کے تصور سے ہی روح کانپ اٹھتی ہے ۔
حالیہ فسادات صرف برمین بودھووں کی سفاکیت ہی کی نہیں اقوام عالم کی بے حسی کی بھی بدترین مثال ہے ،مسلمانوں پر ظلم وستم کے جو پہاڑ ڈھائے جا رہے ہیں تاریخ انسانیت ان سے ناآشنا ہے ،بچوں ،بوڑھوں ،خواتین اور نوجوانوں کو تڑپاتڑپا کر مارا جا رہا ہے ،انکے اعضاء کو کاٹ کاٹ کر علیحدہ کرکے انہیں زندہ جلایا جا رہا ہے ،عورتوں اور بوڑھوں کو برہنہ کرکے انکی کھالیں زندہ حالت میں جانور کی طرح اتاری جا رہی ہیں ،بچوں کے گلے کاٹے جارہے ہیں ،برما کی گلیاں لہومسلم سے رنگین ہیں اور دریاوں سمندروں میں انکے وجود خس وخاشاک کی طرح بہہ رہے ہیں ،حشرات الارض جنکے بے جان لاشوں کو غذا بنائے ہوئے ہیں اور بے بسی ولاچارگی جن کے ہربن مو سے ٹپک رہی ہے ،وہ جو بے کسی میں شرق وغرب دیکھے جارہے ہیں کہ کوئی محمدبن قاسم شائد دیبل کی بندرگاہ فتح کرنے کے بعد ہماری سمت آرہا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آہ ۔۔۔۔ امت محمد ۔۔۔۔۔ کہاں ہے تیرا مسیحا ؟اور یہ تمام طوفان بدتمیزی اس آنگ سان سوچی کی زیر قیادت ہورہا ہے جسے دنیا نے امن کا نوبل ایوارڈ دیا ،اور جو ان سارے مظالم پر اپنے لبوں کو جنبش تک نہیں دے رہی ،طرفہ تماشا یہ کہ سوچی مسلمانوں کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے یہ راگ الاپ رہی ہے کہ ’’ رہنما کو مسائل کی بنیا دیکھے بغیر کسی خاص مقصد کے لیے کھڑے نہ ہونا چاہیے ‘‘واضح رہے کہ اسوقت برما میں انسانیت کا قتل اسی آنگ سان سوچی کی برسراقتدار جماعت ’’ نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی ‘‘ کی سرپرستی میں ہورہا ہے اور سوچی سٹیٹ کونسلر کی حیثیت سے اس سارے خونی کھیل کا حصہ ہے ۔


پڑوسی ممالک بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ بے حسی کی معراج پر کھڑے ہیں ،برمی مسلمانوں کو ہجرت کی اجازت نہ دینے اور مہاجرین کو بے دخل کرنے جیسے واقعات افسوسناک تھے ہی اسپر مستزاد یہ کہ بنگلہ دیش وبرما کے درمیان مہاجرین کی آمد ورفت کنٹرول کرنے کے لیے ’’ بحری ٹریفک معاھدہ ‘‘ کیا جا رہا ہے دوسری طرف 2008 ء میں تھائی وزیر اعظم سماک سندارواج نے کہا کہ ’’ تھائی بحریہ کوئی ویران جزیرہ ڈھونڈ رہی ہے تاکہ روہنگیا مسلمانوں کو وہاں ٹھہرایا جا سکے ‘‘ گویا ویران جزیرہ کے علاوہ مظلومین کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں ۔
اقوام متحدہ اور عالمی ادارے ظلم وستم کے بیان کی حد تک تو چابکدست ہیں مگر برما کی ہٹ دھرمی کا کوئی حل انکے پاس ہے نہ اسکے لیے وہ سنجیدہ ہیں ۔
چنانچہ اقوام متحدہ نے اپنی ایک رپورٹ میں راکھین کے روہنگیا مسلمانوں کو ’’ روئے عالم کی مظلوم ترین اقلیت ‘‘ قرار دیتے ہوئے انکی بے کسی کا نقشہ دنیا کے سامنے پیش کیا ،اگست 2012ء میں برطانوی ٹی وی چینل ’’ چینل فور ‘‘ نے ایک دستاویزی رپورٹ نشر کی جسمیں دکھایا گیا کہ مسلمان برما میں جانوروں کی طرح زندگی گذارنے پر مجبور ہیں ، اقوام متحدہ کے اعلی عہدیدار ’’ نوی پلے ‘‘ نے انتظامیہ کے سلوک ورویے سے متعلق رپورٹ دیتے ہوئے کہا کہ ’’ حکومت وانتظامیہ بدامنی پر قابو پانے کے لیے بے گناہ مسلمانوں کو ہی نشانہ بنا رہی ہے ‘‘ جولائی 2012 ء میں برطانوی نشریاتی ادارے نے بنگلہ دیش میں کیمپوں میں موجود مہاجر مسلمانوں کے متعلق رپورٹ دی کہ ’’ اکثر کیمپ کے رہائشیوں کا دعوی ہے کہ انکے اعزہ واقارب کو برمی فوجیوں نے بے دردی سے شہید کردیا ہے ‘‘ ہیومن رائٹس واچ نے باربار عالمی برادری کے سامنے ٹھوس ثبوت وتصاویری دستاویزات سے برما کے مظالم کو طشت ازبام کرتے ہوئے سابق جنرل سیکرٹری اقوام متحدہ بان کی مون سے درخواست کی کہ وہ اسکے لیے قابل عمل حل تجویز کریں ،ایمنسٹی انٹرنیشنل ،ہیومن رائٹس واچ اور اقوام متحدہ سمیت کئی عالمی اداروں نے ایک مرتبہ غیر جانبدارانہ تحقیقات کا اس شدت سے مطالبہ کیا کہ مسلمانوں ،بودھووں ،عالمی رہنمائوں اور مقامی لوگوں پر مشتمل ایک کمیشن بھی تشکیل پاگیا مگر برما کی حکومت نے اقوام متحدہ کی سربراہی کو مسترد کرتے ہوئے اس کمیشن کو کام سے روک دیا ،اقوام متحدہ ہی کی ایک رپورٹ بتلاتی ہے کہ مسلمانوں کو اجتماعی طور پر زندہ درگور کیا جا رہا ہے ،انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں نے یہ انکشاف کیا کہ بہت سی اجتماعی قبریں ایسی دریافت ہوئیں جن میں لاشوں کے ہاتھ پاوں بندھے ہوئے پائے گئے جسکا مطلب انہیں زندہ درگور کرنا تھا ،سویڈش وزیر اعظم ’’سٹیفن لوفوین ‘‘ نے مظالم پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے برما سے اسکے تدارک کا مطالبہ کیا ،ترکی کے وزیر اعظم ’’ رجب طیب اردگان ‘‘ نے قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے برما کی حکومت سے ان مظالم کے فوری انسداد کا مطالبہ کرتے ہوئے خبردار کیا کہ ترکی کسی حد تک بھی جا سکتا ہے ،پاکستان کے دفتر خارجہ نے برمی مسلمانوں سے اظہاریکجہتی کرتے ہوئے برمی سفیر کو طلب کیا اور اسکے فوری ازالے کا مطالبہ کیا ،مالدیپ نے برما سے احتجاجا سفارتی تعلقات ختم کرتے ہوئے پوری دنیا کو اس ظلم وبربریت کی طرف متوجہ کیا ،مراکش کے شہر ’’ رباط ‘‘ میں پیدا ہونے والی اسلامی ممالک کی تنظیم ’’ او آئی سی ‘‘ چونکہ ابھی عہد طفولیت میں ہے اسلیے اپنے معمول کے اجلاس میں سائیڈلائن میٹنگ کر کے برمی حکومت سے دھیمے انداز میں مظالم کے سد باب کا مطالبہ کیا ،یاد رہے کہ ’’ او آئی سی ‘‘ کی سیاسی قوت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ چند برس پہلے جب اس نے برما میں اپنا دفتر کھولنے کا اعلان کیا تو برمی حکومت نے نہ صرف اجازت دینے سے انکار کیا بلکہ بڑی ڈھٹائی سے اسے عوامی خواہشات کے برعکس بھی قرار دیا ،عالمی ادارے مسلسل رپورٹ کر رہے ہیں کہ دو سو سے زائد ایسے واقعات برما میں ہوچکے ہیں جن میں لاکھوں انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں ،اجتماعی قبریں سامنے آرہی ہیں ،رپورٹس کو سامنے رکھتے ہوئے بلاشبہ کہا جا سکتا ہے کہ برما انسانیت کا عفریت بن چکا ہے ،AFPکے مطابق بنگلہ دیش کے علاقے ’’ بلاکھلی ‘‘ میں قائم کیمپ کے رہائشی ظلم وستم کی ہوش ربا تفصیلات سنا رہے ہیں ،بی بی سی کو اقوام متحدہ کے ایک سینیر اہلکار نے بتلایا کہ برما اپنی سرزمین سے مسلمانوں کی نسل ختم کرنا چاہتا ہے جسکی تائید برمی صدر کے اس قابل نفرت بیان سے ہوتی ہے کہ ’’ اس سارے مسئلے کا حل صرف یہی ہے کہ مسلمانوں کو ملک بدر کر دیا جائے یا انہیں مہاجر کیمپوں میں منتقل کردیا جائے ‘‘ ٹائمز آف ٹلس آفور ورلڈ ہسٹری ‘‘ کے مطابق برما کی فوجی حکومت کے دور میں بنائے جانے والے امتیازی قوانین نے مسلمانوں کی زندگی کو اجیرن بنا کر رکھ دیا ہے ۔
سوال یہ نہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے سوال بلکہ یہ ہے ارکان اور بنگلہ دیشی علاقے چاٹگام کے درمیان بسنے والے روہنگیا ئی نسل کے مسلمانوں کا مستقبل کیا ہے ؟بدھ مت کے فرقہ ’’ تھیروڈا ‘‘کا جرائم پیشہ لیڈر ’’ شتروتا ،آشن راتھو اور آنگ سان سوچی پوری دنیا کے سامنے پوری ڈھٹائی کے ساتھ سینہ تان کے کھڑے ہیں ،دنیا بے بس نظر آرہی ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ جو نظر آرہا ہے وہ ہونہیں رہا اور جو ہورہا ہے وہ نظر نہیں آرہا ،عالم اسلام کی فوجی قوت مخصوص طبقات کی محافظت کا پتہ دے رہی ہے ، او آئی سی کے پلیٹ فارم سے بے حمیتی کی جو داستانیں رقم کی جارہی ہیں تاریخ اسکی مثال پیش کرنے سے قاصر رہے گی ،
ان حالات کے تناظر میں پاکستان میں بلاشبہ جمعیت علمائے اسلام اور قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن کا کردار صحراوں میں بھٹکتی قوم کو رہنما مل جانے کے مثل ہے ،جمعیت نے پاکستان کے چوکوں ،چوراہوں ، گلی ،کوچوں شہروں ،دیہاتوں ،قصبوں ،محلوں میں اور قائد جمعیت نے پارلیمنٹ کے ایوانوں اور عالمی اداروں کے سامنے برمی مسلمانوں کا مقدمہ پوری قوت کے ساتھ پیش کیا ،ہر خوف واندیشے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جمعیت کے قابل قدر سپوت سنیٹر طلحہ محمود نے بنگلہ دیش میں موجود برما کی سرحد کے پاس لگے عارضی کیمپوں میں موجود برمی مسلمانوں کی داد رسی کی ،اپنے پیغامات کے ذریعے انہوں نے دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑا ،جوانوں کی ہمت بڑھائی ،بوڑھوں کو حوصلہ دیا ،بہنوں ،بیٹیوں کی ڈھارس بندھائی اور بچوں کے سر پر دست شفقت رکھا ،انہوں نے ویڈیوز کے ذریعے کیمپوں میں کسمپرسی کے حالات دنیا کو دکھلائے ،بنگلہ دیش کا دوغلا کردار طشت ازبام کیا اور اپنی طرف سے مدد کرتے ہوئے قائد جمعیت کی نیک تمنائیں ان تک پہنچائیں ،انہوں نے وزیر اعظم پاکستان سے بڑے پیمانہ پر مدد کرنے کے لیے ایک کارگو جہاز کی فراہمی کا مطالبہ کرتے ہوئے ترکی وزیر اعظم سے بھی خصوصی تعاون کی بھی درخواست کی ۔


جماعت اسلامی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کا کردار بھی قابل ستائش رہا ،مختلف سیاسی وسماجی تنظیموں نے حکومت سے برما کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے ،اور مظلوم مسلمانوں کی فوجی مدد کا مطالبہ کیا ،میری نظر میں عالم اسلام کے سلگتے مسائل کے حل کے لیے ہمیں اردگان جیسا قائدانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ،ہمارا مسئلہ مگر صرف سطحیت ہے ،قومی تھنک ٹینک ہر عالمی مسئلہ کو امریکی پالیسیوں کے تناظر میں ہی دیکھ رہے ہیں ،ملت کے مسائل پر جغرافیائی ومفاداتی اغراض کو مقدم سمجھ کر فخر کیا جارہا ہے کہ ہم نے ملک کو بچا لیا مگر کون بتائے عقل کے ان اندھوں کو ۔ ملت اسلامیہ اپنے اجزائے ترکیبی میں جس مذہب کا وجود رکھتی ہے وہ اسکے ملک کو جغرافیائی سرحدات میں مقید نہیں ہو نے دیتا ،اقبال نے اسی واہمہ ہی کا ازالہ کیا تھا کہ
چین و عرب ہمارا ،ہندوستاں ہمارا

Advertisements
julia rana solicitors london

مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا
اور فرمایا تھا کہ ’’ قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں ‘‘ ہماری مقتدر قوتیں کیا اقبال وقائد اعظم کو پڑھنا گواراکریں گی ؟ ظلم صرف کسی کو ناحق مارنے کا ہی نام نہیں بلکہ ظلم ہر اس جگہ ہوتا ہے جہاں آپ کسی چیز کو اسکی بنیاد پر نہ رہنے دیں ،پاکستان کی بنیاد ’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ ہے تو کیا اس دھرتی کو کلمے کی اس بنیاد سے محروم کر کے ہمارا طبقہ اقتدار بجائے خود ظالم نہیں ؟خدارا ملت کے حالات کا تحقیقی وتاریخی جائزہ لیں اور ظلم کی اس واردات کا جتنا جلد ممکن ہو سکے خاتمہ فرمادیں ۔

Facebook Comments

ظفر الاسلام
ظفرالاسلام سیفی ادبی دنیا کے صاحب طرز ادیب ہیں ، آپ اردو ادب کا منفرد مگر ستھرا ذوق رکھتے ہیں ،شاعر مصنف ومحقق ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply