اِس سوال کا جواب شاید کبھی نہ مل سکے کہ کون سے لفظ اردو کے اپنے ہیں اور کون سے اردو میں دخیل (borrowed)۔ کوئی کسوٹی ایسی ہے جس پر گھس کر کسی لفظ پر چڑھی جھلیاں (Toppings) اتار کر کوئی حکم لگایا جا سکتا ہے اور نہ کوئی کٹھالی ایسی ہے جس میں لفظ کو چندے رکھ کر اُس کی گاد اتار لی جائے۔ ایسی ساری ریسرچیں جذبات ہی کی بنیاد پر تعمیر کی جاتی ہیں۔
اردو والوں کی سادگی کی انتہا یہ ہے کہ یہ عام طور سے یہی سمجھتے ہیں کہ انگریز کے آنے سے پہلے پہلے (مراد ہندوستان کی زبانوں میں انگریزیت کے اثرات داخل ہونے سے پہلے) کے الفاظ “ہمارے” یعنی اردو کے ہیں۔ اِسی اردو کو آج سرحد کے دوسری طرف کے لوگ ہندی کہتے ہیں۔ اگر یہ بتایا جائے کہ انگریزیت مآبی سے پہلے والی مقامی زبان پر عربی و فارسی حملہ آوروں کی زبانوں کی یلغار ہوچکی ہے تو اِسے ماننے سے انکاری ہوتے ہیں۔ ایسے موقع پر یہ لوگ فرماتے ہیں کہ عربی فارسی تو ہماری اپنی زبانیں ہیں۔ کمال ہوگئی۔ یعنی جو حملہ آور جتنا پرانا ہوتا جائے اُتنا ہی “اپنا” ہوتا چلا جاتا ہے۔ سبحان اللہ۔
حق بات یہ ہے کہ مقامی زبانوں کی لکھاوٹیں محفوظ رہیں نہ لکھتیں، اگرچہ زبانیں محفوظ رہیں۔ عرب حملہ آوروں نے سندھ کی زبان و ثقافت کی ایسی مٹی پلید کی کہ آج تک اُس کی کان ہی نہیں نکل پاتی۔ ملتان کا کلچر پھر کچھ جاندار تھا اِس لیے بچ گیا۔ سچ یہ ہے کہ ملتان کا کلچر اِس قدر مضبوط تھا کہ ہزاروں سال پرانے قلعہ کا نام قاسم باغ رکھ دینے کے باوجود بچ گیا۔ اور جو زبان یہاں کے لوگ بولتے تھے وہ بھی اپنی ٹائپولوجی بچا گئی۔ البتہ بے چارے سندھ کی زبان میں آنے والی ٹیڑھ آج بھی دیکھی جاسکتی ہے۔
سندھ و ملتان سے دور نکل کر دہلی کی طرف جائیں تو واضح محسوس ہوتا ہے کہ لاہور اور پرلی طرف دکن وغیرہ کی زبان اور کلچر عرب کے حملہ آوروں سے محفوظ رہے چنانچہ امیر خسرو کی زبان میں عرب الفاظ نہ ہونے کے برابر ہیں جب کہ مقامی لفظیات اور اُس کی تصریفی شکلیں بڑی تعداد میں ہیں۔ القصہ امیر خسرو کی زبان یہاں کی خالص زبان ہے جس پر جتنا بھی فخر کیا جاسکے کم ہے۔
دہلی و لاہور اور آزو بازو کی زبانوں میں ملاوٹ اُس وقت ہونا شروع ہوئی جب ترکوں کا راج براجا۔ ہماری لسانی تاریخ کی گراوٹ کی انتہا دیکھنی ہو تو اُس دور کا مطالعہ کیجیے جب مرہٹہ دربار کی زبان فارسی ہوگئی تھی۔ ہنٹر کمیشن کی پاداش میں پنجاب کو پنجابی چھوڑنے اور اردو اختیار کرنے کی گالی ضرور دیجیے لیکن یہ ضرور ذہن میں رکھیے کہ انگریز جیسے خونخوار سفاک حاکم کے دور میں بھی لاہور سرکار کی زبان فارسی نہ ہوئی تھی بلکہ اردو ہوئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ میں ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا اور فتح محمد ملک صاحب وغیرہ کی اِس رائے کا حامی ہوں کہ اردو پنجابی کا تحریری روپ ہے۔
دراصل اِس سب گنجلائی اور خلطِ مبحث کی وجہ یہ ہے کہ لوگ لفظ خزانے (Repository/ Lexis) کو “زبان” سمجھ لیتے ہیں۔ واضح رہنا چاہیے کہ زبان گرامر اور ٹائپولوجی ہوتی ہے نہ کہ الفاظ۔ الفاظ تو موقع موقع پر بدلتے رہتے ہیں۔ مثال لیجیے کہ اچھی بھلی پنجابی یا پشتو بولنے والا انسان چار دن کسی وجہ سے ہسپتال میں رہے تو بیسیوں ولایتی لفظ بولنے لگے گا۔
کل ایک صاحب نے اردو کا مرثیہ پڑھا کہ لوگوں نے “کاپی” جیسا لفظ بھلا دیا ہے اور اِسے “نوٹ بک” کہنے لگے ہیں۔ عرض کیا کہ کاپی کب سے اردو کا لفظ ہوگیا؟ محترم پھٹی پھٹی آنکھوں سے مجھے دیکھنے لگے اور خفت مٹانے کے لیے کہنے لگے کہ یہ کافی پرانا لفظ ہے اِس لیے اب یہ اردو ہوگیا ہے۔ میں نے تسلیم کرلیا۔ تاہم اُن کو چین نہ آیا اور کہنے لگے کہ تالیاں کی جگہ چیرز کہنا کہاں کی شرافت ہے۔ میں نے ایک کتاب دکھاکر عرض کیا کہ یہ لفظ اردو کی تحریروں میں کم سے کم 1864ء سے استعمال ہو رہا ہے، یعنی اِس کی عمر اردو میں کم سے کم ڈیڑھ سو سال ہے۔ فرمانے لگے کہ لیکن یہ عام نہیں ہوا۔ عرض کیا کہ آپ اگر بولنا کم کرکے پڑھنا شروع کر دیتے تو یہ آپ کے مطالعے میں آچکا ہوتا اور عام ہوچکا ہوتا۔ اِس مسکت دلیل کے بعد محترم کالسینگ علیٰ راس الحمار ہوچکے ہیں۔
بس یہی بات ہے۔ ہمیں اردو میں مختلف زبانوں کے لفظ برے نہیں لگتے لیکن اگر کوئی لفظ انگریزی کا سن یا پڑھ لیں تو ہماری پختو جاگ جاتی ہے۔
واضح رہے کہ میں اردو کے کلاس روم ڈسکورس یا افسانے ناول و شاعری کو یا ٹاک شوز یا عدالتی زبان وغیرہ وغیرہ کو اردو کا نمائندہ ڈسکورس تسلیم نہیں کرتا۔ میرے نزدیک وہ زبان زیادہ فطری ہے جو کلاس روم کے باہر طلبہ طالبات ایک دوسرے کو لیکچر کے نکات سمجھاتے ہوئے استعمال کرتے ہیں یا وکیل عدالت میں پیش ہونے سے پہلے یا بعد میں کیس کی تیاری کے وقت بولتے ہیں۔ یہ زبان کا خالص ترین استعمالی روپ ہوتا ہے، جو میرے نزدیک اصل مقصدی زبان ہے۔ اِس زبان میں مقامی اور دخیل زبان کے لفظ بے محابا استعمال ہوتے ہیں اور یہ حقیقی Action words ہوتے ہیں۔ کلاس روم یا عدالت یا ٹاک شوز وغیرہ وغیرہ کی زبان تو انتہائی بناوٹی ہوتی ہے، اور ناول افسانے وغیرہ کی زبان تو اِس ڈسکورس سے ویسے ہی بارہ پتھر دور ہوتی ہے۔

یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اپنی زبان میں آنے والے نئے لفظوں کو دھتکار رہے ہیں اور جو اِن لفظوں کو بولتا لکھتا ہے اُسے برا بھلا کہتے ہیں۔ نیا لفظ خزانہ ملنے پر ہمیں خوش ہونا چاہیے نہ کہ مرثیے پڑھنا۔ اردو بولنے والا جو بھی لفظ بول رہا ہے وہ اردو ہے۔ بات ختم۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں