• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • مرزا غالب کے ایک شعرکی منظوم عقدہ کشائی اور کچھ اعتراضات )۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

مرزا غالب کے ایک شعرکی منظوم عقدہ کشائی اور کچھ اعتراضات )۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

اسدؔ کو بت پرستی سے غرض درد آشنائی ہے

نہاں ہیں نالۂ ناقوس میں، در پردہ ’یا رب‘ ہا (۱۸۱۶
۰۰۰۰۰۰۰

قوافی ’رّب‘ و ’تب‘، ’مطلب‘، ردیف اک صوت، یعنی ہا
ؑعجب حلیہ ہے اس حلقوم مقطع کا
کہ ’یا رب‘ اِسم ِواحد ۔۔۔اور ’ہا‘ اس پر
(برائے ’جمع‘ کردن ریزہ ہائے عنفی و عطفی۰)۱

​ تعجب ہے کہ غالب سے بھی ایسا سہو ممکن ہے

چلیں ، اک عام قاری سا سمجھ کر خود سے ہی پوچھیں
کہ کیا ’’ربّ ہا ‘‘ غلط العام ہو گا یا کہ ’’یا ربّ ہا‘‘؟
کہ دونوں ہی غلط ہوں گے؟
اگر غالب نے اس کو بھی نہیں سمجھا تو حیرت ہے
بھلا اک عام قاری کیسےاس عقدے کو کھولے گا؟

چلیں چھوڑیں کہ ہم سب جانتے ہیں، اس زمانے میں ۔۔
روایت ہی نہیں تھیدونوں جانب ’واٗو‘ کے دو حرف یا ’’واوَین ‘‘لکھنا
لفظ یا ترکیب یا جملے کو قلعہ بند کرنے کی
چلیں چھوڑیں کہ ’’رب ہاـ‘‘ کو
فقط ’یک صوت ‘ ہی سمجھا گیا ہے ،یعنی ایک نعرہ
تو ’’یا ربّ ہا‘‘ کو بالّسان ہی سمجھیں

چلیں پیچھے؟

’اسدؔ کوبت پرستی سے غرض درد آشنائی ہے
یقیناًہے
مگر اک ’آشنائی‘ تک ہی رہتا یہ تعلق تو ۔۔۔
یقینا مان جاتے ہم
مگر اس پر اضافہ۔۔۔ ’درد‘ کا؟
درد آشنائی‘ ؟ اور بتوں سے؟
کون بہتر جانتا ہے ایک قاری سے
کہ سچ کیا ہے، دروغ ِ نا روا کیا ہے

غرض کو بھی ذرا دیکھیں
غرض ۔۔تخفیف ۔۔ ’’غرضیکہ‘‘ کی خاطر ہے یہاں ، شاید؟
چلیں، تسلیم۔۔۔
پر یہ لفظ در آیا ہے گویا بے سبب،بے معنی و مطلب
کہ اس سے پیشتر اک شائبہ تک بھی نہیں ملتا
کہ کوئی بحث جاری تھی اسدؔ کے بت پرستی سے تعلق کی
کہ ’غرضیکہ‘ کے لیے شاعر کو تکیے کی ضرورت ہو
غرضکی کیا غرض تھی یاں؟
کہو، ’بھرتی‘ کہیں اس کو؟
کہ یہ فاضل تو لگتا ہے کسی آگاہ قاری کو

غلط ہے ’’نالہ ٔ ناقوس‘‘ غالب، ٓآپ کو یہ کیسے سمجھاؤں
کہ اک ناقوس(یا اک ’شنکھ) کی آواز ہوتی ہے
بلانے کے لیے بھگتوں کو مندر میں
خوشی ہےاس میں۔۔
کوئی رونا دھونا نالہ کش ہونا نہیں مطلوب اس
ناقوس کی آواز سے ۔۔۔ یعنی
لڑائی میں سپاہی اک اسی آواز کو سن کر
ہی دھاوا بولتے تھے اپنے دشمن پر
پجاری بت کدے کا بھی وہی پیغام دیتا ہے
(پرستش کرنے والوں کو)
کہ آوٗ، وقت ہے اب آرتی کا اِس شوالے میں
یہی مُلّا کا فرض ِ اوّلیں ہے اُس کی مسجد میں ۔۔۔۔
نماز ِ با جماعت کا بلاوا ، یااذاں آہنگ ِ شیریں میں
تو گویا ’نالۂ ناقوس‘ میں’ نالہ‘
فقط اک غیر طلبیدہ اضافہ ہے

نہاں ہیں نالہ ٔ ناقوس میں در پردہ ’ یا ربّ ہا‘
چلیں، ’یا ربّ‘ سے ’ہا‘ کو تسمہ پا کرنے پہ لے دے ہو چکی۔۔۔۔
اب مدعا اس شعر کا دیکھیں!

بہت ہیں بت پرستی کے حوالے غالب دیندار میں، لیکن
بلاغت اور طلاقت کا یہ اک نادر نمونہ ،بے بدل مصرع
یقیناً سب پہ حاوی ہے

نہاں ہیں نالہ ٔ ناقوس میں در پردہ ۔۔۔۔‘‘ کیا؟ دیکھیں
ذرا سمجھیں
وہی آواز، لا اللہ ال اللہ ۔۔
یقیناً  جو اذانوں کی صدا بھی ہے
ہزاروں پردہ ٔ ہائے صوت میں مخفی، مگر ظاہر
وہی آواز ’’اللہ ایک ہے‘‘، دُوجا نہیں کوئی

Advertisements
julia rana solicitors london

تو یہ ناقوس ہو ۔۔۔ آواز بھگتوں کو بلانے کی
نماز ِ با جماعت کے لیے میٹھی اذاں ہو ۔۔۔
ایک ہی آہنگ ہے
اللہ کی توحید کا ، لوگو
فقط ناقوس کو رونے کی آوازوں کا متبادل سمجھنا نا روا ہے،
سوچ لیں، قبلہ ۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply