کامیابی۔۔وسیم احمد

امریکی صدر باراک اوبامہ جب امریکہ کے صدر منتخب ہوئے تو ان سے ٹی وی سکرین پر پہلی مرتبہ یہ سوال پوچھا گیا کہ “آپ ایک مڈل کلاس سیاہ فام گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور آپ صدر کیسے منتخب ہوگئے”؟
امریکی صدر کا جواب حیران کر دینے والا اور متاثرکن تھا۔
کہا کہ”منزل کو پہچاننے کے بعد اس سیاہ فام لڑکے نے محنت اور جدوجہد سے دوستی کرلی تھی”۔
کامیابی ہر شخص کا خواب ہے مگر یہ ہر شخص کے حصے میں کیوں نہیں آتی؟
کیا وجہ ہے کہ صرف چند لوگ ہی اس کی لذت سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ مالکم ایس فوربنر کے بقول”صلاحیت کارتوس ہے اور محنت بندوق” کامیابی کے حصول کیلئے ہمیں جدوجہد اور محنت کی بندوق چاہیے،ورنہ صلاحیت اور طاقت جیب میں پڑے کھوٹے سکوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔کامیاب شخص کے مقاصد اس کا استقبال کرتے ہیں۔
منزل اس کے پاؤں چومتی ہے۔عزت،شہرت،دولت،اس کی میراث بنتی ہے۔تاریخ اسے اپنے حافظے میں جگہ دیتی ہے۔چاہنے والے لوگ اس سے آٹوگراف لینے کو بےتاب ہوتے ہیں۔نسلیں اس سے جیت کا جذبہ حاصل کرتی ہیں۔
ان لوگوں میں اور ہم میں کیا فرق ہوتا ہے ؟یہ بھی ہم جیسے لوگ ہوتے ہیں اور ہماری نسلوں سے ہی ہیں۔ایک جیسا کھاتے ہیں،ایک جیسا پیتے ہیں،ایک جیسا پہنتے ہیں۔پھر آخر کامیابی ہی ان کا مقدر کیوں بنتی ہے؟
یہ کامیاب لوگ ایک طالبعلم،بزنس مین،والدین،ادارے کے سربراہان،ہو سکتے ہیں۔ان کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ مسلسل محنت اور جدوجہد ہوتی ہے۔
میکڈونلڈز (مشہور فاسٹ فوڈ چین)کے بانی نے زندگی میں کئی مرتبہ ناکامیوں کا سامنے کرنے کے بعد جب اپنا تمام سرمایہ اپنے برگر کے کاروبار پر لگایا تو وہ اس پر ڈٹ گئے۔ان کے اس عزم کا نتیجہ آج دیکھیں کہ دنیا کے ہر کونے میں میکڈونلڈ کی شاخ ہے۔جب آپ ایک مرتبہ کسی بات کا ارادہ کر لیں تو اس پر ڈٹ جائیں،مسلسل جدوجہد کریں،کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔
دنیا کے کسی بھی کونے،کسی بھی ادارے میں،کسی بھی کام میں جب تک محنت اور جدوجہد شامل نہیں ہوگی تو کامیابی کا تصور بھی محال ہے۔
ہم میں سے بہت سے لوگ نتائج اور حصول کو کامیابی سے تعبیر کرتے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ کامیابی اس نشے کا حتمی حصول ہے جس کی خواہش کی جائے۔یہ کامیابی کا ادھورا نظریہ ہے جس کا تعلق کامیابی سے زیادہ لالچ سے ہوتا ہے۔
ہمارا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ہم کامیابی پر تو یقین رکھتے ہیں مگر اس کٹھن راستے پر چلنے کو تیار بلکل نہیں ہوتے۔دوسرے الفاظ میں یوں کہوں تو بہتر ہوگا کہ ہم جنت میں بھی جانا چاہتے ہیں اور مرنا بھی پسند نہیں کرتے۔محنت اور جدوجہد کو ہی کامیابی سمجھنے والے نہ صرف منزل تک پہنچتے ہیں بلکہ ہار جانے کی صورت میں بھی اس سفر کو جاری رکھتے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں منزل کسی اور شکل میں ان کیلئے چشم براہ ہے۔اور ان کا کام تو چلتے رہنا ہے،نتائج اور انجام کی پرواہ کیے بغیر۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply