جوائنٹ فیملی سسٹم۔۔شاہد محمود ایڈووکیٹ

کلچرل بودوباش ہر علاقے کی اپنی ہوتی ہے۔ ہمارے علاقے کے رہنے والے جوائنٹ فیملی سسٹم میں بڑے کھلے دل کے ساتھ خوش و خرم رہتے تھے اور ایک دوسرے کا سہارا بنتے تھے۔ اور اب بھی جہاں جوائنٹ فیملی سسٹم ہے وہاں لوگ بہتر و خوش و خوشحال زندگی گزارتے ہیں۔ مغربی  کلچر ہمارے خطے سے لگاؤ نہیں  کھاتا۔  عرب کلچر میں بھی جوائنٹ فیملی سسٹم کی روایت موجود رہی ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے والدین کو کندھوں پر اٹھا کر سفر و حج تک کرواتے تھے۔ قبائل و خاندان اپنے مجموعی وسائل ایک دوسرے کی بہتری و سکون کے لئے استعمال کرتے تھے۔ ہر خاندان اپنے وسائل کے مطابق سہولیات مل بانٹ کر استعمال کرتے تھے۔ قبائل کا تذکرہ قرآن مجید تک میں آیا ہے۔

قصہ مختصر اقبال رح بھی کہتے تھے:

دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِ کم عیار ہو گا

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کُشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہو گا

سفینۂ برگِ گُل بنا لے گا قافلہ مُورِ ناتواں کا
ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہو گا

میڈیا و مغرب کا پروپیگنڈا ایک طرف، لیکن اپنے خطے، خاندان اور بودوباش کا مشاہدہ اور اس پر غور و فکر جاری رکھیں۔

ایک ماں باپ پانچ دس بچے ایک چھت تلے پالتے ہیں، جو کمزور ہو، معذور ہو، نالائق ہو وہ بھی والدین کو باقی بچوں کی طرح بلکہ کچھ زیادہ عزیز ہوتا ہے ۔۔۔۔ تو باقی لائق فائق بچے جب کچھ بن جائیں تو یاد رکھیں کہ “اول خویش بعد درویش”۔ پہلے مشترکہ گھر بڑا کریں یا بتدریج نیا بنائیں اور جیسے ماں باپ بچوں کا پیشاب پاخانہ تک صاف کرتے آئے ،کم از کم اس احساس کو برقرار رکھتے ہوئے ان کے جگر کے “نالائق ٹوٹوں” کو بھی برداشت کر لیں۔۔ فرق سوچ کا ہے ۔۔۔۔ صدقہ زکوۃ خیرات وغیرہ سب تب باہر دیں جب اپنی اس بنیادی گھریلو ذمہ داری سے عہدہ برآ  ہو چکے ہوں ۔۔۔۔۔ لیکن ہم اسلام کے بھائی چارے و مواخات کے تصور کو پس پشت ڈال کر “شریکے” کے concept تلے پرورش پائیں گے تو نتیجہ منفی ہی نکلے گا ۔

یہ خیالات صفحہ قرطاس پر تب منتقل ہوئے جب فیس بک پر بہت ہی پیارے فرشتہ صفت دوست محترم جناب محبوب الرحمن صاحب کی درج ذیل مفہوم کی پوسٹ پڑھی:

“چار بیٹے بیرون ممالک بہت اچھے سیٹل ہیں، باپ ماں خود بھی ساری زندگی دیارِ غیر میں رہے لیکن اب پچھلی عمر میں کئی سال سے وطنِ عزیز میں ہیں ماشاءاللہ لمبی چوڑی زمین جائیداد گاڑی بینک بیلنس ہے، لیکن چاروں بیٹے دیارِ غیر میں اپنی  فیملیز کے ساتھ خوش و خرم ہیں۔ دوسری طرف پاکستان میں ماں باپ اکیلے ۔۔۔۔ بچے ماں باپ کو نہ تو اپنے پاس بُلاتے ہیں، نہ  پاکستان آنا چاہتے ہیں۔ بوڑھے والدین کی صحت عمر کے ساتھ ساتھ گوناگوں مسائل کا شکار ہے اور سب سہولیات کے باوجود غمِ تنہائی کا شکار ۔ پچھلی عمر میں گھر کی رونق بچوں اور پوتوں پوتیوں سے ہوتی ہے، لیکن دادا دادی بس فون پر بات کر لیتے ہیں اور زندگی کے ایام گُزرتے جا رہے ہیں ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں بندہ پیسے اسٹیٹس لگثرری سہولیات حاصل کرنے میں ساری زندگی کھپا دیتا ہے، لیکن اِن سہولیات کے بعد بھی اگر ایسی صورتحال کا سامنا ہوجائے، پھر ایسا بندہ سوچتا تو ہوگا کیا ملا اتنا کھپ کھپا کر زندگی میں؟ سکون ،خوشی ،راحت تو اپنوں کے پاس ہونے سے ملتی ہے۔

Facebook Comments

شاہد محمود
میرج اینڈ لیگل کنسلٹنٹ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply