افغانستان ۔ جنگ کے بعد۔۔۔۔۔(حصہ اوّل)وہارا امباکر

امریکہ کی 2001 میں شروع ہونے والی افغان جنگ ختم کرنے کی تقریب 28 دسمبر 2014 کو ہوئی۔ جنرل جان کیمبل آئیساف کے آخری کمانڈر تھے۔ کابل میں اس تقریب میں افغان حکومت کے اہلکار، سفارتکار اور صحافی موجود تھے۔ ایک ملٹری بینڈ کی دھنوں پر آئیساف کا جھنڈا لپیٹ دیا گیا۔ اس کی جگہ پر ایک نیا سبز جھنڈا بلند کیا گیا جس پر Resolute Support لکھا ہوا تھا۔ یہ ایڈوائزری مشن کا نام تھا۔ 2001 کو افغانستان میں شروع ہونے والا آپریشن انڈیورنگ فریڈم اس روز رسمی طور پر اختتام پذیر ہوا۔

اس روز کسی نے یاد کروایا کہ سوویت آرمی نے آمو دریا 15 فروری 1989 کو پار کیا تھا۔ بورس گرومووف آخری کمانڈر تھے جو اپنی سواری سے اترے۔ آخری چند گز پیدل چل کر دوسرے طرف اپنے بیٹے سے جا کر گلے ملے۔ پُل پار کر کے واپس افغانستان کی طرف نہیں دیکھا۔ روسی جنگی ہیرو بورس گروموف نے بعد میں کامیاب اور طویل سیاسی کیرئیر بنایا۔ لیکن جب انہوں نے افغانستان چھوڑا، اس وقت بھی افغانستان میں ہزاروں سوویت ایڈوائزر پیچھے موجود تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس جنگ میں امریکہ نے اپنی 2300 جانیں گنوائیں۔ ایک اندازے کے مطابق پانچ کھرب ڈالر خرچ کئے۔ یہ اکثر لحاظ سے ایک ناکام جنگ تھی۔ امریکہ کے افغانستان پر حملہ کرنے کا بڑا مقصد القاعدہ کو ختم کرنا تھا۔ ایک دہائی سے زیادہ میں اسامہ بن لادن اور کئی سنئیر لیڈر مارے گئے۔ اس کی یورپ اور امریکہ میں حملے کرنے کی صلاحیت بہت کم ہو گئی ہے۔ یہ امریکہ کے لئے پھر کبھی خطرہ نہیں بنی۔ لیکن ایمان الظواہری کی قیادت میں یہ تنظیم زندہ اور مہلک ہے۔ بنگلہ دیش میں لوگوں پر حملوں میں قتل کرنے سے لے کر اس کی صلاحیت ایشیا میں زیادہ ہے۔ جارج بش نے 2001 میں حملے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ القاعدہ کی آئیڈیولوجی کو شکست دینی ہے۔ اس میں بری طرح ناکامی ہوئی۔ القاعدہ عراق پہنچی، شکل بدلتے ہوئے داعش میں بدلی۔ شام اور عراق کے لئے دسیوں ہزار رضاکار بھرتی ہوئے۔ علاقہ حاصل کیا، لیبیا اور عراق میں آئی۔ اس سے وابستہ لوگوں نے فرانس، بلجیم اور جرمنی میں بھی کارروائیاں کیں۔ 2014 میں دنیا میں 32,000 لوگ دہشتگرد حملوں میں مارے گئے۔ ان میں اسی فیصد حملے پانچ ممالک میں ہوئے۔ افغانستان، پاکستان، عراق، شام اور نائیجیریا اس کی لپیٹ میں رہے۔

افغانستان کو مستحکم کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔ اربوں ڈالر خرچ کئے گئے جن سے بہت سے افغانیوں کی زندگیاں بہتر ہوئی۔ امریکہ، یورپ جاپان، خلیجی ممالک اور دوسرے ڈونرز سے بھاری امداد پہنچی۔ اس امداد کو اچھے طریقے سے مینج نہیں کیا گیا۔ کرپٹ ایلیٹ اور جرائم پیشہ نیٹورکس نے اس سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا لیکن عام لوگوں تک بھی کچھ حصہ گیا۔ افغانستان میں صحت کی سہولیات کا معیار بہتر ہوا اوسط عمر 55 برس سے بڑھ کر اب 60 سال کے قریب ہو چکی ہے۔ معیشت اڑھائی ارب ڈالر سے بڑھ کر بیس ارب ڈالر تک پہنچی۔ بچوں کے سکول جانے کے تناسب میں کئی گنا اضافہ ہوا، خاص طور پر لڑکیوں میں۔ سمارٹ فون ملک میں آئے۔ آبادی میں پچاس فیصد اضافہ ہوا اور یہ تین کروڑ تک پہنچ گئی۔ ایک وجہ کئی ملین مہاجرین کی واپسی تھی۔ کرکٹ کا جنون آیا، جو افغان قوم کو جوڑتا ہے۔ لیکن افغانستان دنیا کے غریب ترین ممالک میں ہے۔ ایک تہائی لوگ غربت کی لکیر سے نیچے ہیں۔ اس کی حکومت اور سیکورٹی فورس مکمل طور پر بیرونی امداد پر منحصر ہے۔

افغانستان میں 2001 سے 2014 تک جاری رہنے والی جنگ میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ تھی۔ اس سے پہلے یہاں سوویت جنگ میں ہلاکتوں کی تعداد دس سے بیس لاکھ کے درمیان تھی۔ اس میں مرنے والے افغان شہری بھی تھے اور کچھ پاکستانی شہری بھی۔ سوویت جنگ پاکستان میں غیرقانونی ہتھیاروں، فرقہ پرستانہ نفرت اور ہیروئن کے نشے کی صورت میں پہنچی تھی۔ یہ والی جنگ دہشتگردی اور پھر ریاست کو چیلنج کئے جانے والے عناصر کی شکل میں۔

امریکہ کا اس جنگ میں کوئی واضح جیوپولیٹیکل وژن نہیں تھا۔ لیکن عالمی سیاست پر اس کا اثر ہوا۔ پاکستان سے اس جنگ کے درمیان جاری رہنے والے سردگردم تعلقات کے باعث پہلی بار امریکہ کا انڈیا سے تعلق مضبوط ہوا۔ اگرچہ انڈیا اور امریکہ زیادہ قریبی تعلق بنانے میں کچھ محتاط رہے ہیں۔ پاکستان نے افغان جنگ کے نتیجے میں امریکی اثر کا مقابلہ کرنے کے لئے چین سے روابط بڑھائے۔ اپنے ملک کو چینی کمپنیوں اور چین کی ملٹری پلاننگ کے لئے کھول دیا۔ چین کے اس خطے میں ٹرانزٹ کوریڈور اور مشرقِ وسطیٰ سے بہتر رابطہ اورتعلقات اس جنگ کی سبب ہوئے۔ وسطی ایشیا میں چین کا اثر بہت زیادہ بڑھا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس جنگ میں ایک بڑی جیت چین کی ہوئی۔ اور اس جیت کے لئے اسے کچھ خاص کرنا بھی نہیں پڑا۔

امریکہ کو افغانستان میں 11 ستمبر کے بعد کی روایتی جنگ میں جتنی تیزی سے فتح ہوئی تھی، وہ اس کے لئے بھی غیرمتوقع تھی۔ اتنی آسان جنگ نے اس کے پلاننرز کو اپنی حدود سے بے خبر کر دیا تھا۔ عراق جانے کا فیصلہ کرنے کا ایک فیکٹر یہ آسان کامیابی بھی تھی۔ جنگ کے بعد کے معاملات کا سوچا نہیں گیا تھا۔ افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعد بھی ان کو اہمیت نہیں دی گئی تھی۔ مسلم دنیا میں عراق اور افغانستان جنگوں کی وجہ سے امریکہ کے خلاف مزاحمت بڑھتی رہی۔ امریکی انتظامیہ نے حکمتِ عملی میں بھی پے در پے غلطیاں کیں۔ گوانتاناموبے کی جیل اور القاعدہ کے شبہہ میں پکڑے جانے والوں پر کئے جانے والا تشدد، رات کے ریڈ اس کی مثالیں ہیں۔

افغانستان ہر لحاظ سے 11 ستمبر کے وقت دنیا کے سب سے غریب ترین ممالک میں سے تھا۔ 1979 سے جاری جنگوں نے معاشرہ تباہ کر کے رکھ دیا تھا۔ 1990 کی دہائی میں افریقہ کی ساحلی اقوام نے معاشی ترقی، بین الاقوامی تجارت اور مڈل کلاس کی فارمیشن کا راستہ لیا تھا۔ لیکن افغانستان کی سیاسی معیشت ایسی نہیں تھی۔ یہ دنیا کی ناکام ریاستوں، صومالیہ، کانگو یا ہیٹی کی طرز کی تھی۔ امریکہ نے جو جنگ لڑی، اس میں خود اس کی اپنی ایک پالیسی نہیں تھی۔ الگ الگ ایجنسیاں اپنے طور پر اس کو لڑ رہی تھیں۔ سی آئی اے، پینٹاگون، ڈی ای اے، سنٹرل کمانڈ، ڈی آئی اے۔ اپنے طریقے، آپس میں تنازعے۔ جنگ کی مشینری، پالیسی، انٹیلیجنس دوسری ریاستوں سے روایتی جنگ کے لئے بنی تھی۔ ایک غریب ملک میں گورننس، بغیر آئیڈولوجی سمجھے گوریلا جنگ کرنا اس کے لئے خفت کا باعث رہا۔ عراق کی جنگ، ناٹو کے معاہدوں میں ہونے والی بھاری کرپشن۔ مقامی وار لارڈز سے کئے جانے والے معاملات، سبھی افغان جنگ میں ناکامی کا سبب رہے۔

امریکہ نے افغانستان میں 715 بیس قائم کئے تھے۔ 2014 میں جنگ ختم ہونے تک 12 امریکہ نے اپنے پاس رکھے۔ افغان نیشنل آرمی کو 225 اور پولیس کو 118 دے دئے گئے۔ باقی کو بند کر دیا۔

امریکہ کے جنگ سے الگ ہو جانے کے بعد وہی صورتحال ہوئی جو سوویت یونین کے الگ ہو جانے کے بعد ہوئی تھی۔ افغان آپس میں لڑتے رہے۔ افغان شہریوں کی ہلاکتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا۔ 2014 میں مرنے والے افغان شہریوں کی تعداد دس ہزار تھی۔ سڑک پر نصب بم، حملے۔ اور پھر افغان فورس اور طالبان کی جنگیں۔ متحارب گروپس کی آپس کی جنگیں۔ افغان نیشنل آرمی اور پولیس کی ہلاکتوں کی تعداد ساڑھے چار ہزار تھی۔

طالبان اس دوران کئی جگہ پر دیہی علاقے کنٹرول کرتے رہے، شاہراہوں پر خطرہ رہے لیکن کوئی بھی بڑا شہر قابو نہیں کر سکے۔ خود افغان حکومت کے اندر، اشرف غنی اور عبداللہ کے درمیان شدید لڑائی رہی۔ طویل مدت تک کابینہ تک نہیں بنائی جا سکی۔ طالبان میں گروہ بندی رہی۔ جنگ کے بعد کس کا قبضہ کہاں اور کیسے ہو گا؟ لیڈر کون؟ ننگرہار، ہلمند، فراہ اور لوگر میں داعش کے سیاہ جھنڈوں کی آمد کی یہ وجہ بنی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگلی افغان جنگ ہلکی شدت کی تھی۔ یہ اس سے بارہ مہینے کے بعد شروع ہوئی۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply