معلوماتی انقلاب نے جہاں انسان کو بہت کچھ دیا وہاں بہت کچھ چھین بھی لیا۔ آج کی دنیا میں ہم بہت کچھ جان سکتے ہیں مگر ہم سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رخصت ہوتی جا رہی ہے۔ ایک طرح کی انفارمیشن دوسری طرح کی انفارمیشن کی نفی کے طور پر ہی سامنے آ رہی ہے تو ایسے میں انسان کس بات پر غور کرے گا اور کس پر نہیں۔
جس زمانے میں دنیا میں علم و آگہی کا دور تھا اس وقت معلوماتی انقلاب کی یہ اکھاڑ پچھاڑ موجود ہی نہیں تھی۔ آج ہم ماضی کے اس آگہی کے دور کے کیے کاموں پر محض تجزیہ نگاری ہی کر سکتے ہیں اس کے علاوہ ہمارے بس میں نہ تو کوئی تخلیقی کام رہا ہے نہ کوئی ایسی سوچ کی نمود جو انسان کو کسی جانب جب دیکھنے پر اکسائے۔ ہم سب بے سمت ہو چکے ہیں۔
علمی دنیا میں جب کام ہوا، وہ کام نظریات کی تشکیل تھی۔ جس کے بعد آج ہم ڈینیل پرل کی کتاب کے چرچے سنتے ہیں جس کا نام اینڈ آف آئیڈیالوجی ہے یا پھر فوکویاما کی مشہور کتاب اینڈ آف ہسٹری۔ اور اس طرح کے سلوگنز کو سیاسی رہنماؤں نے بھی اپنی تقاریر میں اپنا لیا ہے۔ گویا ہم ایسے دور میں داخل ہو چکے ہیں جس میں نظریات کے پرچار کی جگہ نظریات کے اختتام کا پرچار ہونے لگا ہے۔ اسی لیے اب دنیا کو اب کچھ سمجھ نہیں آتی کہ آخر ہم کس جانب جا رہے ہیں۔ ہر کوئی حتمی نتائج نہ پاکر یہ سمجھنے لگتا ہے کہ علمی کاوشیں ناکارہ ہیں۔ کوئی شارٹ کٹ بتاؤ۔
نظریات نے ہی تو سوسائٹی کو کسی ڈائریکشن میں ڈالا تھا تھا جسے بے لگام انفارمیشن نے مٹا ڈالا۔ مگر اب لوگوں کی توقعات ایک اور جانب بھی مبذول ہوچکی ہیں کہ سائنس کوئی ایسے معجزے دکھائے گی جو دنیا کو ہی ٹرانسفارم کردیں گے۔ اور ہم مصنوعی ذہانت سے شیک ہینڈ کرنے لگیں گے یا اپنے جیسے کلون کو دیکھ کر خوش ہوں گے کہ یہ ہم ایک نہیں دو ہوگئے۔
اب تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ انسان چاہتا کیا ہے ؟ جبکہ پہلے یہ سوال اٹھتا رہا کہ انسان سوچتا کیا ہے۔ اور ایسا لگتا ہے کہ اب عملی دنیا کے مسائل اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ علمی دنیا کے مسائل پیچھے رہ گئے۔ تاریخ میں کئی بار یہ بات دہرائی جانے لگی کہ علم بغیر عمل کے بیکار ہے اور دوسری جانب ہمارے نوجوان ایسی سوچ کو بہت اہمیت دینے لگے گے کہ دنیا کو سمجھنے کا دور ختم ہوچکا ہے اب دنیا کو بدلنے کا دور آگیا ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ سوچ ان عملیت پسند فلسفیوں کا شاخسانہ ہے جنہوں نے اپنے ہی نظریات سے دیگر نظریات کو رد کر ڈالا۔ نتیجہ کیا نکلا سوائے اس کے کہ دنیا ستر سال تک اشتراکی اور سرمایہ کاری کے ٹکراؤ میں تقسیم رہی اور اس کے بعد یہ تقسیم اپنے انجام کو پہنچ گئی اور دنیا پھر وہیں واپس چلی گئی جہاں سے اسے تقسیم کیا گیا تھا۔
آج کا انسان سوائے بیچین رہنے کے اور کچھ نہیں رہا ۔ اندر سے ایسے لگتا ہے جیسے اس سے کچھ چھین لیا گیا ہے مگر اس کا شعور اس بات کا ادراک نہیں کر پا رہا کہ وہ کیا ہے جو اس سے چھین لیا گیا اور کس نے چھینا۔ دراصل تو انسان سے اس کے انسان ہونے کا تصور ہی چھین لیا گیا ہے۔
جب تک معلوماتی انقلاب یا انفارمیشن ریولوشن کا یہ سیلاب جاری رہے گا انسان اپنے بارے میں سوچنے سے قاصر رہے گا۔ اور یہ سیلاب رکتا دکھائی نہیں دیتا۔ یہ اپنے ساتھ سب کچھ بہا کے لے جائے گا۔ یہاں تک کہ صرف انفارمیشن رہ جائے گی اور انسان بیچ سے غائب ہو چکا ہوگا۔ پہلے تو بیشتر دنیا رنگ ونسل کے ٹکراؤ میں تقسیم رہی تھی مگر آج کی دنیا اب انفارمیشن مینیپولیشن میں تقسیم کردی گئی ہے۔ جسے ففتھ جنریشن وار بھی کہا جاتا ہے۔ مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ اس دور میں کسی کو نہیں پتا چل سکتا کہ وہ کس کے خلاف لڑا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں