کٹ پیس اور سنت کا قتل؟۔۔ذیشان نور خلجی

وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے کہا ہے ” ایم ایل ون کا منصوبہ مکمل ہونے کے بعد سیاست کو خیر آباد کہہ دوں گا۔” اور عقل مندوں کے لئے اشارہ ہی کافی ہے۔ جیسا کہ میرے بیان سے بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ نہ اب یہ منصوبہ مکمل ہونا ہے نہ ہی میں نے آپ کا اور سیاست کا ‘کھتا’چھوڑنا ہے۔ اس لئے اب چپ کر کے، اچھے بچوں کی طرح مجھے برداشت کریں۔

قارئین ! گزشتہ کالم میں بھی کٹ پیس سے خاطر خواہ انصاف نہ ہو سکا اور اب کی بار بھی طوالت کے باعث صرف ایک کٹ پیس پہ ہی اکتفا کیا ہے۔ امید ہے آئندہ کالم، کٹ پیس سے بھرپور ہو گا۔ اصل مدعا کی طرف آنے سے پہلے، آپ کو بتاتا چلوں کہ مذہب میری بیٹل فیلڈ نہیں۔ اور کٹ پیس کے سلسلہ سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ایک غیر سنجیدہ شخص ہوں۔ اس لئے اگر حالیہ موضوع سے انصاف نہ کر سکا تو معافی کا خواستگار ہوں گا۔

کل نمازِ جمعہ ادا کرنے کے لئے مسجد جانا ہوا۔ جماعت سے پہلے سنت مؤکدہ ادا کرنے لگا تو خیال آیا کہ کتنی رکعت پڑھوں؟ کیوں کہ کچھ علماء کے نزدیک چار رکعات ثابت ہیں۔ جب کہ کچھ علماء کے نزدیک صرف دو رکعتیں ہی درست ہیں۔ اور اپنی سہل طبع کے باعث، یہ خیال بھی ذہن کے دریچے پہ وا ہوا، کہ سنت ہی ہے کون سا فرض ہے کہ لازم و ملزوم ہے۔ سو اگر نہ پڑھوں تب بھی کام چل جائے گا۔ اور پہلے اکثر سنت کو نظر انداز بھی کر دیا کرتا تھا شاید اب بھی ایسا ہی ہوتا۔اگر آنکھوں کے سامنے ایک پرانے شناسا حذیفہ احمر کا چہرہ نہ گھوم جاتا۔ ایک ایسا شخص، جس کی سنگت میں سینکڑوں سگریٹ راکھ ہوئے۔ ایک عرصہ ہم نے اکٹھے نمازیں ادا کیں۔ اور سچ کہوں تو ہم اکٹھے نمازیوں کو ستاتے بھی رہے۔ پھر کوئی دس سال قبل، میں پڑھائی میں اتنا مصروف ہوا کہ آخری منزل مری سے اوپر، مظفر آباد جا ٹھہری اور وہ لاہور کے باغوں کے مکین ہوئے۔

چند دن قبل ان سے ملاقات ہوئی۔ کہنے لگے تمھیں یاد ہے ہم اکٹھے نماز پڑھا کرتے تھے۔ ایک بات تو بتاؤ  یہ جمعہ سے پہلے سنت کی کتنی رکعات پڑھی جاتی ہیں؟

میں نے جھٹ سے چار کہہ دیا۔

کہنے لگے کہ کچھ علماء دو رکعات کی سفارش کرتے ہیں۔

میں نے اپنی تن آسان طبیعت کے باعث کہا کہ ٹھیک ہے آپ دو پڑھ لیا کریں اگر آپ کو یہ ٹھیک لگتا ہے۔ اور مجھے کہیں تو میں بھی آئندہ سے دو ہی پڑھ لیا کروں گا۔

کہنے لگے نہیں، کچھ ایسا بتاؤ کہ میں مطمئن ہو جاؤں۔

تب میرے من میں خیال آیا کہہ دوں کہ اطمینان تو صرف قبر میں ہے۔ لیکن پھر وزیراعظم کی درگت بننے کے ڈر سے چپ ہو گیا۔ میں نے کہا کہ سنت ہی ہے آپ چاہیں تو نہ بھی ادا کریں۔ حرج نہیں۔ کہنے لگے تمھیں اندازہ ہے کہ سنت کو چھوڑنا سنت کے قتل کے مترادف ہے؟

مجھے لگا گزرے دس سال بجائے شعور حاصل کرنے کے، ہم صرف کتابی علم ہی حاصل کرتے رہے تھے۔

انہی خیالوں میں گم میں نے چار رکعات کی نیت باندھ لی کہ اہل مذہب کے نزدیک سخت کوشی کو بھی باعث ثواب مانا جاتا ہے۔ جمعہ کی ادائیگی کے بعد مسجد سے نکلا۔ راستے میں شہر کے ایک معروف عالم دین موٹرسائیکل پہ لفٹ لئے آ رہے تھے۔

میں نے انہیں دور سے ہی سلام کرنا مناسب سمجھا اور گاڑی بغلی سڑک پہ ڈال دی، کہ اب میں ان سے ملاقات کا متحمل نہیں ہو سکتا گو زمانۂ جاہلیت میں، میری ان جیسوں سے خوب بنتی تھی۔
میں سوچنے لگا کہ گدھے کی سواری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ اور یہ دو پہیوں والی موٹر سائیکل ویسے بھی اہل مذہب کے نزدیک شیطانی چرخہ ہے۔ تو کتنا اچھا ہو یہ حضرت بجائے موٹر سائیکل پہ لفٹ لینے کے ‘کھوتی’ پہ سوار ہوئے آ رہے ہوتے۔ کم از کم میں تو بہت خوش ہوتا بلکہ ہنس ہنس کے دوہرا ہو جاتا۔ اور پھر بجائے رستہ بدلنے کے، آگے بڑھ کے ایک گرما گرم جپھی بھی ڈال لیتا۔ ویسے ان حضرت کی گدھے پہ سواری دینی اور دنیاوی ہر دو جہتوں میں مفید ترین ثابت ہوتی۔ صرف مذہبی اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو اول، گدھے پہ سواری کے باعث وہ سنت کے قاتلین میں شمار ہونے سے بچ جاتے۔دوم: نبی کی متروک سنت کو زندہ کر کے، وہ سو شہداء جتنا ثواب بھی کما لیتے۔

اسی اثناء میں نے حذیفہ احمر سے رابطہ کیا اور ساری روداد ان کے گوش گزار کر دی۔ کہنے لگے یہ سنت کے قتل کی اصطلاح صرف ہم جیسے عامیوں کے لئے ہے ورنہ مذہب تو ان علماء کے گھر کی باندی ہے۔ میں نے بھی وار خالی نہ جانے دیا اور کھل کر اہل مذہب سے بغض کا اظہار کر دیا۔ کہ ہاں، مندر کے چوہے بھلا بھگوان سے کہاں ڈرتے ہیں۔

کہنے لگے، مندر بھی ان کا ہے اور بھگوان بھی ان کا۔ اب سمجھ میں آتا ہے کہ یہ بس مجھ جیسے لوگ ہی ہیں جو ان کے بنائے ہوئے خود ساختہ راستوں کے مسافر ہیں۔

ایک کم ظرف انسان کی مانند، مجھے اپنی تائید بہت بھلی معلوم ہوئی۔ سو میں نے برساتی مینڈک کی طرح ہوا بھر کے کہا کہ میں تو بہت خوش ہوں۔ اس لئے نہیں کہ میں اہل مذہب سے جیت گیا۔ بلکہ اس لئے کہ مجھے سرخ رو ہونے کے لئے ان جیسوں کی ضرورت نہیں رہی۔ کہنے لگے کہ تمھاری خوشی تو بنتی ہے کہ تمھارے راستے جدا ہیں اور تم ان لوگوں کی پیدا کردہ بھول بھلیوں میں گم ہونے سے صاف صاف بچ گئے۔

مجھے پہلی دفعہ احساس ہوا کہ بظاہر بے ذوق سا نظر آنے والا میرا یہ دوست، اندر سے کتنا حساس انسان ہے۔

قارئین ! میں بھی ایویں سنجیدہ ہو گیا۔باقی کی باتیں آپ خود اخذ کر لیجئے گا ابھی آپ کو بتاتا چلوں۔ میرے گزشتہ شرارتی کالم پہ یار لوگوں نے ایسے ایسے اعتراضات اٹھائے ہیں کہ حیرانی ہوئی جس قوم کا نعرہ ہے کہ بھارت سے جنگ ہمارے لئے ایک بڑی تفریح سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ وہ قوم ایک ٹی وی سیریل کو لے کے سنجیدہ ہوگئی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خیر ! اگر آئندہ کالم کے لئے کچھ خاص نہ ہوا لکھنے کو تو سنجیدہ حضرات کی ضرور تشفی کروں گا۔
باقی رہے نام اللہ کا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply