ایمنسٹی یا رسہ گیری ۔۔۔۔اعظم معراج

وہ جدوجہد اور قربانیوں سے حاصل کی گئی ایک فلاحی ریاست تھی بانیان ریاست کے جلدی فوت ہو جانے سے ہوس زرو اقتدار کے پجاری اس کے مالک بن بیٹھے حکمرانوں کے ساتھ مل کر اشرافیہ لوٹ کھسوٹ اور معاشی دہشت کرتی جس سے عام شہری کی زندگی جہنم ھوتی،عام شہری اس معاشی دہشتگردوں کے وسیلے اپنی بنیادی ضروریات اشیاء کے لیئے جانوروں سے بدتر زندگیاں گزارنے پر مجبور ہو جاتا جب معاشی دہشتگردانہ کاروائیوں کے نتیجے میں فکری،شعوری،تعلیمی معاشرتی،غرض ہر طرح کی انارکی معاشرے میں پھیل جاتی پھر ہر ایک آدھ دھائی بعد جب حکمران اور اشرافیہ خوب کھاپی کر رج لیتے تو احتساب کا نعرہ لگتا مقامی مفاد پرست اپنے معمولی مفادات کے پیش نظر کبھی جانے کبھی انجانے میں بین الاقوامی استعمار  کے آلہ کار بن جاتے اور پھر اپنے پیٹ اور عالمی دہشت گردوں کے یہ گماشتے کہتے ریاست مالی طور پر دیوالیہ ہو گئی ہے لہٰذا اگر لوٹ کھسوٹ اور چوری چکاری کرنے والوں کو عام معافی معمولی جرمانے پر نہ دی گئی تو گزارہ مشکل ہے لوگ بھوکے مر جائیں گے ،اس طرح پہلی معافی دے کر اسے ایمنسٹی کا نام دیا گیا ،لیکن لوگوں کے حالات نہ بدلے،بلکہ اس کا اثر یہ ہوا کہ غریب اور غریب اور امیر اور امیر تر ہونے لگے لہٰذا پہلی معافی دینے والے جب مر گئے تو لوگوں نے کہنا شروع کیا آمر تھا مر گیا اس طرح دوسری پھر تیسری چوتھی غرض آٹھ بار واردیتوں نے رسہ گیروں کے ساتھ مل کر یہ واردات دوھرائی۔اسں عمل کے تواتر سے دوھرانے سے ریاست کی جڑے کھوکھلی ہو گئیں قومی سلامتی بھی خطرے میں پڑھ گئی دہشتگرد پھانسیاں اور ان دہشت گردوں کی معاشی اور معاشرتی ناہمواریوں و نا انصافیوں کی بدولت جنم دینے والے عزتیں پاتے رہے۔ لوگوں کو بھی جب کچھ کچھ اس کھیل کی سمجھ آنےلگی۔

Advertisements
julia rana solicitors

تو معافیاں دینے والوں کو غلام لوگ انکے اقتدارِ میں جانے کے بعد اقتدار میں آنے کے امیدواروں کی توجہ دلانے کی بدولت برے القابات سے نوازتے رہے۔اقتدار سے باہر بیٹھی اشرفیہ اس عمل کو برا بھلا کہتی لیکن اقتدار میں آتے ھی عالمی استعمار کے اشاروں مقامی معاشی دہشتگردوں کی ایما اور اپنی ہوس اقتدار و مالی ذاتی مفادات کی بدولت امید سحر کا جھانسہ دے کر یہ عمل دوہراتے ۔ غرض یہ قصہ یونہی چلتا رہا عام شہری جس کے حالات بدلنے کی آڑ میں یہ کاروائی ڈالی جاتی وہ زمانہ قدیم کے غلاموں کی طرح اپنی زندگی غیر انسانی ماحول میں گذارنے پر مجبور رہا ۔ لیکن یہ وطن (پرست) اور انسانیت کے( دوست ) ہر بار یہ عمل دوہراتے پھر جب 70سال میں نویں دفعہ یہ کھیل کھیلا جانے لگا تو لوگ ان حکمرانوں اور اشرافیہ کے منہ پر کہنے لگے یہ رسہ گیری بند کرو رحم کرو رحم کرو یاپھرشرم کرو حیاء کرو ورنہ ڈوب مرو ڈوب مرو۔
وضاحت (اس کہانی کا اپریل 2018 کی ایمنسٹی اسکیم و اس کے بعد والی شاید کسی خفیہ دسویں منی ایمنسٹی اسکیم یا مستقبل قریب میں متوقع ایمنسٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے یہ ایک چڑیا کوے طرز کی تصوراتی کہانی ہے )

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply