پولیس ریفارمز اور تھانہ کلچر تبدیلی کی باتیں شہباز شریف نے شروع کیں پھر عمران خان نے مُلک میں پولیس ریفارمز کا وعدہ کیا مگر ہماری بد قسمتی ہے کہ دونوں حکومتیں اس محکمہ کاکچھ بھی نہ کر سکیں ۔مارشل لا کے ادوار میں کبھی بھی پولیس ریفارمز کی باتیں نہیں ہوئیں .کچھ دن قبل پولیس ریفارمز کا بہت شور اُٹھا، پولیس میں تبدیلی کی باتیں ہوئیں، اسلام آباد میں ASPS کو تھانوں پر SHO لگایا گیا ۔اب وہ ASPS ترقی یافتہ ہو گئے ہیں، کسی نے نہیں بتایا وہ تجربہ کیسا رہا .
مجھے یاد ہے 2017 میں پولیس ریفارمز کی باتیں ہوئیں ایک تجویز یہ بھی تھی کہ ڈسٹرکٹ مینجمنٹ کے افسران کو ضلع میں DPO کی نگرانی پر لگایا جائے، PSP افسران نے اپنی ایک میٹنگ بلوائی CPO لاہور میں میٹنگ تھی، میرے DPO سرگودھا کیپٹن سہیل تھے جو آجکل CPO فیصل آباد ہیں، DPO کی طرف سے مجھے میسج موصول ہوا کہ صبح اُس میٹنگ میں میں نے شرکت کرنی ہے مجھے یہ نہیں بتایا گیا کہ میٹنگ کا ایجنڈا کیا ہے میٹنگ کا آغاز دس بجے ہونا تھا ،میں کیونکہ نو بجے سنٹرل پولیس آفس پُہنچ گیا تھا میٹنگ روم میں جا کر بیٹھ گیا مجھے معلوم ہوا کہ آج کی میٹنگ DMG کو ملنے والے اختیارات کے خلاف PSP افسران کا احتجاج ہے، حکومت کے اس اقدام کے خلاف پنجاب کے تمام PSP افسران نے اکٹھے ہونا تھا.آئی جی مشاق سکھیرا وزیر اعلی کے دفتر گئے ہوئےتھے ا ن کے آنے پہ میٹنگ شروع ہونی تھی ۔
اس دوران میٹنگ ہال میں آہستہ آہستہ PSPافسران آنا شروع ہوگئے ۔میں نے اپنی پوری ملازمت میں اتنے چاند ستارے پہلی دفعہ دیکھے ۔ ہر طرف کندھوں پے لگے ہوئے رینکس جن میں ایڈیشنل آئی جی، ڈی آئی جی ، ایس ایس پی ، ایس پی اور اے ایس پیز شامل تھے ۔ میں اکیلا رینکر ایک کونے میں شرمندہ ہوکر کھڑا تھا ۔ سوائے سہیل سکھیرا ایس ایس پی اورمبشر میکن ایس ایس پی صاحب کے کسی نے میری طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا ۔ قبل ازیں میں مبشرمیکن صاحب سے کبھی نہیں ملا لیکن کوٹ مومن کی تعیناتی کے دوران کبھی کبھی ان کا ٹیلی فون آجایا کرتا اور سُہیل سکھیرا کے والد صاحب عاشق سکھیرا رحیم یار خان کی تعیناتی میں میرے ڈی ایس پی رہے تھے ۔تھوڑی دیر بعد آئی جی مشتاق سکھیرا آگئے اور انھوں نے یہ خوشخبری سنائی کے وزیراعلی نے ہمارے مطالبات مان لیے ہیں اب ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ ہم پہ حکمرانی نہیں کرئے گا۔ اس دن میں نے محسوس کیا کہ یہ پی ایس پی افسران کس طرح اکٹھے ہیں اور اپنے حقوق کے لیے کس طرح یک جاں ہوجاتے ہیں ۔ ان کی پروموشن ، ان کی سہولتیں باقی پولیس ملازمین سے بالکل الگ تھلگ ہیں
پھر میں نے موجودہ حکومت میں سانحہ ساہیوال اور سانحہ قصور کے بعد وزیر اعظم عمران خان کی پولیس ریفارمز پر باتیں سنیں۔ پھر مسودہ بنا کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کو ڈپٹی کمشنر کے ماتحت کردیا جائے لیکن پھر پی ایس پی کلاس اکٹھی ہوگئی ۔حکومت کو ہڑتال اور استعفوں کی دھمکیاں دی گئیں اور پھر حکومت نے اس مافیا کے سامنے گٹھنے ٹیک دیئے۔اگر ماتحتِ ادنیٰ اور ماتحتِ اعلیٰ کے پروموشن کے نظام کو دیکھا جائے تو ایک ایک رینک پر پندرہ سے بیس سال لگ جاتے ہیں ۔ ملازمین کی پرموشن نہیں ہوتی ، کانسٹیبل بھرتی ہونے والا ملازم بڑی مشکل سے اے ایس آئی یا سب انسپکٹر ریٹائرڈ ہوتاہے اے ایس آئی بھرتی ہونے والا ماتحت اعلیٰ بڑی مشکل سے ڈی ایس پی کے رینک تک پہنچتا ہے جبکہ بطور اے ایس پی پولیس میں آنے والا افسر ایڈیشنل آئی جی یا آئی جی تک بڑے آرام سے پہنچ جاتا ہے ۔
نچلے ملازمین کی پرموشن ،بھرتی اور ٹریننگ کا نظام بہت فرسودہ ہے ۔ پولیس میں پروموشن تو مشکل ہے ہی مگر ہر رینک پر بھرتی نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے اور محکمہ پولیس کی بربادی میں اپنا پورا پورا حصہ ڈالا ہے ۔جسکی مثال وہ ٹی ایس آئز ہیں جو پہلےمحکمہ میں اے ایس آئی بھرتی ہوئے اور بعدمیں پی کیڈٹ سکیم کے تحت امتحان دے کر سب انسپکٹر ہوگئے ۔قبل ازیں وہ اپنی ملازمت میں ایک سال کے بیسک کورس کے علاوہ ڈسٹرکٹس میں اے ، بی ، سی ، ڈی کورس بھی کرچکے تھے مگر ان کو دوبارہ ایک سال کاکورس کروایا جارہاہے ۔اسی طرح وہ اپنے ڈسٹرکٹس میں جاکر دوبارہ اے ، بی ، سی ، ڈی کورس کریں گے ۔ سات سے دس سال تک محکمہ میں بطور اسسٹنٹ سب انسپکٹر نوکری کرنے کے بعد ان سے دوبارہ یہ کورسزکروانا کہاں کی عقلمندی ہے ۔اس پر آج تک کسی نے نہیں سوچا ؟ایک بھیڑ چال ہے جس پر 72 سال سے یہ محکمہ چل رہا ہے ۔نہ تو اس کی ٹرینگ بہتر ہوئی ، نہ کسی نے ملازمین کی ترقی (پرموشن ) کے سسٹم میں تبدیلی کی ۔اب یہ عالم ہے کہ ایک عہدہ پر بھرتی ہونے والا پولیس ملازم اسی عہدہ پرریٹائر ہو گا۔ پولیس میں نئے آنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اب دلبرداشتہ ہوکر اپنے مستقبل کے بارے میں کچھ اور سوچ رہے ہیں
تھانہ کلچر کی تبدیلی کی باتیں حکمرانوں نے بہت کیں ۔ہر آنے والا حکمران اپنے مفاد کی خاطر اس محکمہ کو استعمال کرتارہااور پولیس کے افسران بالا اپنے مفاد کی خاطر پولیس ملازمین کی قربانیاں دیتے رہے ۔اپنے لیے تمام سہولتیں اور بروقت پرموشن لینے والے پی ایس پی افسران بھی تھانہ کلچر کی تبدیلی کی باتیں کرتے ہیں مگر آج تک انھوں نے محکمہ پولیس کا کیس ایمانداری سے حکمرانوں کے سامنے پیش نہیں کیا۔ایف آئی آر درج ہونے کے بعد تفتیشی افسر کے پاس ناتو سرکاری گاڑی ہوتی ہے کے وہ ملاحظہ موقع کرسکے نہ ہی ملزمان کوپکڑنے کے لئے اس کے پاس وسائل تو پھر وہ کرپشن کیوں نہ کرے؟؟
پولیس تھانہ محکمہ پولیس کا بنیادی یونٹ ہے جہاں سے کرپشن شروع ہوتی ہے اگر ان ملازمین کو و ہ ساری سہولتیں دی جائیں جو کسی بھی تفتیش کےلیے ضروری ہوتی ہیں ۔ اسی طرح انسانی بنیادی ضروریات ملازمین کو بھی میسر ہوں جس میں 8 گھنٹے ڈیوٹی ، تھانہ پر کھانے اور رہائش کا انتظام ، ملازمین کے بچوں کی تعلیم ، صحت کی سہولیات شامل ہے تو کوئی وجہ نہیں کے یہی ملازمین موٹروے پولیس کی طرح ایمانداری اپنی ڈیوٹی سرانجام دیں ۔مگر پتہ نہیں کیا وجہ ہے کہ سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود نہ تو حکمران اور نہ ہی محکمہ پولیس کے اعلیٰ افسران اس طرف کوئی توجہ دیتے ہیں ۔درجہ چہارم کے تمام ملازمین مثلاً اردلی باورچی وغیرہ ان پی ایس پی افسران کی خدمت میں ہروقت حاظر ہیں ۔جبکہ کسی رینکر ایس پی یا ڈی ایس پی کے پاس درجہ چہارم کا کوئی ملازم نہیں
ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف لاہور میں 29 ہزارپولیس ملازمین تعینات ہیں ۔لاہور کے 86 تھانہ جات کے دونون ونگز کی نفری کل ملاکر دس ہزار بنتی ہے ۔جبکہ بقیہ 19 ہزار پولیس ملازمین ریٹائرڈ اور حاضر سروس ججز ، بیروکریٹس اور سیاستدانوں کے پروٹوکول اور حفاظت پر استعمال ہوتے ہیں ۔ اگر یہی 19 ہزار پولیس ملازمین ان فضول ڈیوٹیوں سے ہٹاکر تھانوں پر تعینات کئے جائیں تو بڑےآرام سے تین شفٹیں بن سکتی ہیں ۔ پچھلے دنوں انسپکٹر جنر ل آف پولیس کا بیان بڑا خوش آئند تھا کے محکمہ پولیس میں شفٹیں بناکر ڈیوٹی لی جائے گی ۔ لیکن مجھے لگتا ہے یہ احکامات بھی اسی طرح کے ہوں گے جس طرح انویسٹی گیشن اور گشتی پولیس کی تقسیم میں ہواتھا۔
میری آئی جی صاحب سے صرف یہ درخواست ہے کہ آپ اگر درجہ چہارم کے ملازمین کی مکمل فہرست اور لاہور کے بقیہ 19 ہزار پولیس ملازمین کی فہرست منگوا کر ملاحظہ فرمالیں تو آپکو یہ معلوم ہوجائے گا کہ یہ سارے ملازمین کہاں ہیں ۔ ان میں بہت سے ملازمین افسرا ن کے گھر وں پر نوکروں کی طرح کام کررہے ہیں جن کو ملازمت چھوڑے دس سال سے بھی زیادہ ہوچکے ہیں ۔مگر کیونکہ آپ سب ایک ہیں تو یہ کام آپکے لیے بہت مشکل ہے ۔آپ نے بھی ریٹائرڈ ہونا ہے اور آپکو بھی ریٹائرمنٹ کےبعد بہت سے پولیس ملازمین اپنے گھر کے کام کاج کے لیے چائیے ہروقت کم نفری اور کم بجٹ کا رونارونا ٹھیک نہیں ہے ۔یہ توصرف لاہور کی نفری کاحال ہے جبکہ پنجاب بلکہ پورے پاکستان میں بھی ہرجگہ غیرضروری پروٹوکول اور سکیورٹی کے نام پر نچلے درجہ کے پولیس ملازمین ریٹائرڈ اور حاضر سروس افسران کے گھر ذاتی ملازم کے طور پر کام کررہے ہیں ۔جس کا خمیازہ عوام بھگت رہی ہے ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں