بابا جی کا احترام۔۔محمد اشتیاق

قدیم زمانے کی بات ہے، ایک پیر پرست کا کسی وہابی کے ساتھ جوڑ پڑ گیا ۔ بہت بحث کے بعد امتحان لینے پہ معاملہ طے پا گیا ۔ اگر پیر پرست کی مانگی دعا، پیر صاحب کی طفیل قبول ہوئی تو وہ سچا، ورنہ وہابی سچا ۔ دعا کی گئی پر بے نتیجہ رہی، مجبوراً  پیر پرست کو اقرار کرنا پڑا کہ اس کے پیر صاحب کے جو جملہ فضائل اس کے ذہن میں تھے وہ غلط ہیں ۔ رات کو پیر صاحب مرید کے خواب میں آ دھمکے، جلالی کیفیت میں مرید کی گوشمالی بمعہ لتریشن کی ۔ مرید آخر کو بول پڑا کہ حضور میں نے ایک دفعہ آپ کے معجزات اور فضائل سے انکار کیا تو میری یہ درگت، وہ جو سرے سے ہی منکر ہے اس پہ بھی نظر کرم ہو ۔ پیر صاحب نے تاریخ ساز جملہ کہا کہ “اس نوں میں کی کہواں، جو میری اک نہیں منندا” ۔

زمانہ جدید کی مثال ہے کہ فدوی اپنی ماسٹر ڈگری کے فائنل پروجیکٹ کے سلسلے میں مدد کے لئے ایک نیم سرکاری ادارے کے دفتر واقعہ زیرو پوائنٹ اسلام آباد گیا، دیکھا تو گیٹ پہ لکھا ہے “اوقات ملاقات 11 کے بعد” گھڑی دیکھی تو 10:30 تھے ۔ اس وقت سمجھ نہیں تھی کہ قانون اور تحریروں کا وہ مطلب نہیں ہوتا جو سیدھ سبھاوؤ سمجھ آتا ہے۔ سو ایک طرف ہو کہ کھڑا ہو گیا ۔ چند ہی لمحے گزرے تو آشکار ہوا کہ لوگ بلا روک ٹوک آ جا رہے ہیں ۔ گارڈ بیٹھا ہے پر روک نہیں رہا۔ آگے بڑھ کے اس سے کہا کہ جی اندر فلاں فلاں صاحب سے ملنا ہے ۔ بولا ملاقات گیارہ بجے کے بعد ۔ تھوڑی ہمت کر کے کہا کہ بھائی یہ سارے ملازم تو نہیں لگتے جو اندر باہر ہو رہے ہیں ملنے والے ہیں تو ان کو آپ روک کیوں نہیں رہے ۔ اس نے پیر صاحب سے بھی زیادہ تاریخی جملہ کہا ” بھائی انہوں نے میرے سے پوچھا ہی نہیں “۔

ان دو واقعات سے یہ سمجھ آئی کہ دنیا میں لوگ رعب اس پہ ڈالتے ہیں ، سزا اس کو دیتے ہیں جو ان کو مانتا ہو۔ ان کا احترام کرتا ہو ان سے امیدیں رکھتا ہو۔ اور روک ٹوک اس کے لئے ہوتی ہے جو اجازت طلب کرے ۔ اگر کوئی بغاوت کا ملزم، جو 34 بندے ایک دن میں قتل کروا کے بتاتا ہو کہ کمانڈو ہے، لیکن کمر درد کا مریض بن کے غائب ہو جائے ۔ اور آپ اس کا نام تک نہ لے پائیں تو سمجھیں کہ “وہ” نہ ماننے والوں میں سے ہیں ۔ اور وہ آپ کے بس میں نہیں ۔ سو اس کی سرزنش نہیں کر سکتے ۔ بہتر ہے کہ سر نگوں ہو جائیں ، اپنے گوڈوں پہ ہو جائیں کہ زندگی، اور رزق ۔ عزت اور آبرو سے زیادہ مقدم ہے ۔ ہر حکم کی تعمیل کریں ،ہر خواہش پوری کریں ۔ اس کی طرف سے منہ پھیر لیں ۔ وہ بندے اٹھائے ، غائب کرے ، چھوٹے چھوٹوں کو اکٹھا کرکے سرکس لگائے یا بڑے بڑے اکٹھے کرکے “میلہ مویشیاں” سجائے ۔ چشم پوشی ہی بھلی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

لیکن اگر کوئی آپ کو احترام دے رہا ہو ۔ آپ کی عزت بحال کرانا چاہتا ہو۔ آپ کو آپ کے مقام پہ دیکھنا چاہتا ہو۔ آپ کی عزت کے لئے اپنے عہدے کا استعمال نہ کرتا ہو ۔ تو بھلے وہ ڈیڑھ کروڑ ووٹ لے کے آیا ہو ۔ بھلے اس نے ملک کو اندھیروں سے نکالا ہو ۔ بھلے اس نے دہشت گردی سے ایسے اٹے ہوئے ملک کو جہاں لوگ فاصلوں کو کلومیٹروں میں نہیں خود کش دھماکوں میں مرنے والے لوگوں کی گنتی سے ناپتے ہوں، کو امن دیا ہو۔ اس کی خدمات کچھ بھی ہوں ۔ اس کو “لتاڑ” کے رکھ دو تا کہ آئندہ کوئی تمہیں “پیر” نہ مانے ۔ اور جو تم سے اجازت نہ لیں وہ اندر باہر ہوتے رہیں!

Facebook Comments

محمد اشتیاق
Muhammad Ishtiaq is a passionate writer who has been associated with literature for many years. He writes for Mukaalma and other blogs/websites. He is a cricket addict and runs his own platform ( Club Info)where he writes about cricket news and updates, his website has the biggest database of Domestic Clubs, teams and players in Pakistan. His association with cricket is remarkable. By profession, he is a Software Engineer and has been working as Data Base Architect in a Private It company.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply