خلافت راشدہ کے بارے میں میرے نتائج فکر۔۔۔ڈاکٹر طفیل ہاشمی

خلافت راشدہ کا عقیدے سے نہیں، تاریخی حقائق سے تعلق ہے. جہاں تک خلفاء راشدین کی عظمت کی بات ہے تو وہ سب السابقون الاولون ہیں. یہ وہ مقام ہے کہ کوئی بعد کا فرد اس فہرست میں نام نہیں لکھوا سکتا. قرآن میں سینکڑوں آیات ان کی عظمت کی گواہ ہیں.

جہاں تک خلافت، اس کی ترتیب اور اس حوالے سے افضلیت ہے اس کا عقیدے سے تعلق نہیں ہے. بلکہ واقعاتی حقائق سے ہے. عقیدے تاریخی اور سماجی یا سیاسی حرکیات سے جنم نہیں لیتے. خلفاء راشدین کی ترتیب الہامی نہیں بلکہ جمہوری ہے. کسی آیت قرآنی یا سنت متواترہ میں اس کی تلقین نہیں کی گئی. غور کیجئے، اگر کوئی ہدایت موجود ہوتی تو سقیفہ بنی ساعدہ میں حضرت ابوبکر حضرت عمر کا نام نہ پیش کرتے اور نہ حضرت عمر حضرت ابوبکر کا نام پیش کرتے، نہ أنصار اپنا خلیفہ لانے کی کوشش کرتے، نہ منا امیر اور منکم امیر پر بحث ہوتی اور نہ سعد بن عبادہ ساری زندگی حضرت ابوبکر اور پھر حضرت عمر کی بیعت نہ کر کے بھی نامور صحابہ کرام میں شامل رہتے. اس ساری بحث کے بجائے آیت یا روایت پیش کر کے فیصلہ کر لیا جاتا.
اس کے بعد حضرت عمر کی نامزدگی اگر الہامی ہوتی تو جمہور حضرت ابوبکر سے ان کے مزاج کی شدت کی شکایت نہ کرتے. اگر اس میں کہیں بھی عقیدے کا کوئی شائبہ ہوتا تو حضرت عمر چھ افراد کی کونسل نہ بنا دیتے.

یہ سب سیاسی فیصلے تھے اور بلا شبہ درست تھے کیونکہ ان کو جمہور کی تائید اور حمایت حاصل تھی.
جہاں تک افضلیت کی بات ہے تو اولا اسلامی تعلیمات کے حوالے سے قیادت کے لئے ہمیشہ اہلیت کو افضلیت پر ترجیح دی گئی ہے
دوسرے یہ کہ کسی صحابی کے بارے میں کلی افضلیت کی رائے رکھنا اہل علم کے ذاتی رجحانات ہیں جو منصوص نہیں ہیں. اگر اس پہلو سے ارشادات نبوی کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مقربین صحابہ کرام کی ایک کہکشاں تھی اور
ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است
خود رسول اکرم کے ارشاد کے بموجب
ابوبکر رحم دلی میں سب سے فائق
عمر غیرت دینی میں فزوں تر
عثمان سب سے بڑھ کر پیکر حیا
علی علم و قضا کا کوہ گراں
ابوعبیدہ امانت و دیانت میں فائق تر
ابی بن کعب سب سے بڑے قاری

Advertisements
julia rana solicitors london

اور اسی طرح مختلف صحابہ کرام کی خصوصیات نے لسان نبوت سے داد وصول کی ہے.
گرفتاران بوبکر و علی کی توجہ کے لیے شاید اس پہلو سے رہنمائی ہو کہ ہجرت میں نبی اکرم کی ہمراہی اور آپ کا بستر دونوں مقتل تھے اور ایک جگہ بوبکر اور دوسری جگہ علی کو ذمہ داری تفویض کی گئی ، اسی طرح نو ہجری کے حج کا امیر ابو بکر کو اور ریاست کی خارجہ پالیسی کے اعلان کے لئے سورہ توبہ کے اعلان کی ذمہ داری علی کو دی گئی.
رضوان اللہ علیہم اجمعین
مجھے ساری کج بحثی سے لگتا ہے کہ ہمیں نبوی فیصلوں کی صحت و صداقت پر اطمینان نہیں.
اعاذنا اللہ منہ

Facebook Comments

ڈاکٹر طفیل ہاشمی
استاد، ماہر علوم اسلامی، محبتوںکا امین

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply