وہ ایک غیر مسلم ملک کے کسی ہسپتال میں زیرِ علاج تھا۔ کچھ روز بعد تیمارداری کرنے والی خاتون نے اسے شادی کی پیشکش کر دی لیکن اس نے جواب دیا کہ وہ تو مسلم ہے۔ خاتون نے کہا کہ کوئی مسئلہ نہیں‘ وہ اسلام قبول کر لے گی۔ اس نے تعجب سے پوچھا کہ آپ نے مجھ میں ایسی کیا بات دیکھی ہے جس نے اتنا متاثر کر دیا ہے کہ آپ اپنا آبائی مذہب ترک کرنے پر تیار ہو گئی ہیں ؟
خاتون نے جواب دیا کہ تیمارداری میرا پیشہ ہے اور دن میں میرا واسطہ متعدد مرد مریضوں سے پڑتا ہے لیکن میرے آج تک کے عرصہ ملازمت میں تم وہ واحد شخص ہو جس نے کئی روز بعد بھی میری طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا‘ لہٰذا میرا گمان ہے کہ اتنی شرم و حیا والا سچا ہی ہو گا۔
اسی طرح کچھ لوگوں نے ایک غیر مسلم ملک کے کسی پارک میں مغرب کی نماز با جماعت ادا کی تو نماز کے بعد کچھ لڑکیاں انہیں دیکھ کر وہاں آ گئیں اور ایک نے آگے بڑھ کر امام سے پوچھا کہ کیا وہ انگلش زبان جانتا ہے؟ ہاں میں جواب ملا تو اس لڑکی نے پوچھا کہ آپ یہ کیا کر رہے تھے؟ امام نے کہا کہ وہ عبادت کر رہے تھے۔ لڑکی نے حیران ہوتے ہوئے کہا کہ آج تو اتوار نہیں ہے۔ امام نے جواب دیا کہ عبادت کے لیے ہمارے ہاں صرف اتوار کا دن طے نہیں ہے بلکہ ہم تو دن میں پانچ دفعہ خالقِ کائنات کے سامنے سر بسجود ہوتے ہیں۔ بہر حال کچھ اور سوال و جواب کے بعد اس نے جانے سے پہلے امام کی طرف ہاتھ بڑھایا‘ جیسے ہم ملاقات ختم ہونے پر سلام کرتے اور ہاتھ ملاتے ہیں۔ امام نے لڑکی سے کہا کہ میں آپ سے ہاتھ نہیں ملا سکتا کیونکہ یہ ہاتھ میری بیوی کی امانت ہے اور میں امانت میں خیانت نہیں کر سکتا۔ یہ سن کر وہ لڑکی گر پڑی اور روتے ہوئے کہنے لگی کہ تمہاری بیوی کتنی خوش قسمت ہے جسے تم جیسا وفادار شوہر ملا‘ کاش‘ یورپ کے مرد بھی ایسے ہی ہو جائیں۔
آج کا دور بلا شبہ ایک ایسا دور ہے جس میں مرد و زن کو ایک دوسرے تک آسان رسائی حاصل ہے جو کہ موبائل و انٹر نیٹ‘ مخلوط نظام تعلیم و مخلوط ملازمت کے ماحول کی مرہون منت ہے۔ وہ وقت اب قصہ ماضی ہے جب خطوط‘ گھر کی چھت‘ محلے کے چھوٹے بچے‘ سہیلیاں یا پیسے کے لالچ میں گرفتار ماسیاں سہولت کاری کے فرائض انجام دیتی تھیں اور پیغام رسانی کے اس طریقے میں رازداری کے افشا ہونے کے مواقع ہر لمحے موجود ہوتے تھے۔ آسان رسائی کی بدولت پیدا ہونے والی خرافات آج کل کے ٹیلی ویژن ڈراموں میں بھی نمایاں طور پر دکھائی جا رہی ہیں۔
ایک زمانہ تھا جب اَن پڑھ و سادہ عوام لکھنے پڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی اخلاقی تربیت کا ذمہ دار بھی سکول کے استاد کو گردانتے تھے‘ بچے سے سر زد ہونے والی کسی بھی قسم کی غیر اخلاقی حرکت یا گالم گلوچ کی شکایت اس کے استاد کو کی جاتی تھی اور اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس دور کا استاد نصاب کے ساتھ ساتھ بچوں کی اخلاقی تعلیم و تربیت پر بھی بہت زور دیتا تھا۔ بلوغت کے سن کو پہنچنے پر مجھے آج بھی اپنے اساتذہ کی بار بار دہرائی جانے والی کھلے الفاظ میں وہ نصیحتیں اچھی طرح یاد ہیں جن کو کسی حد تک جنسی تعلیم بھی کہا جا سکتا ہے جیساکہ لڑکپن کا یہ زمانہ بہت خطر ناک ہے‘ غیر اخلاقی کاموں میں نہ پڑنا‘ برے کام وقتی تسکین اور عمر بھر کا داغ ہوتے ہیں‘ عشق معشوقی اس عمر میں صرف اور صرف وقت کا ضیاع ہے جو آپ کی آنے والی زندگی پر گہرے اثرات ڈالے گی‘ جوانی کو بچا کر رکھنا اور اس پر داغ نہ لگنے دینا‘ لنگوٹ کا سُچا رہنا‘ حضرت یوسفؑ کے قصے اور اس شعر کو بار بار دہرانا کہ
؎ وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہے بے داغ‘ ضرب ہے کاری
پھر آہستہ آہستہ زمانے کے انداز بدلنے لگے‘ لوگ روشن و آزاد خیالی و اعتدال پسندی کی غلط تشریح کی طرف راغب ہونے لگے جس میں مادر پدر و بے لگام میڈیا نے بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالا اور آج بھی اپنی منزل کی طرف گامزن ہے‘ تعلیم نے کامیاب کاروبار کی صورت اختیار کر لی جس میں استاد کو صرف نصاب تک محدود کر دیا گیا‘ بچوں اور والدین کو صرف اور صرف نمبرز کی دوڑ کے پیچھے لگا دیا گیا جس کا نتیجہ اخلاقیات سے عاری نوجوان نسل کی صورت میں نکل رہا ہے کیونکہ زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کرنا کسی صورت بھی تعلیم کا مقصد نہیں ہو سکتا۔ بچوں کی اخلاقی تربیت والدین کی ترجیح رہی نہ اساتذہ کی‘ جس کا نتیجہ آج ہماری آنکھوں کے سامنے ہے اور ہمارا آج کا نوجوان عفت و پاکبازی کے الفاظ سے نا آشنا ہے۔ اگر یقین نہ آئے تو کسی بھی پبلک یا پرائیویٹ یونیورسٹی کا صرف ایک دفعہ وزٹ کر لیں۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جہاں مرد و زن میں قربت ہو گی وہاں بہت زیادہ احتیاط و مجاہدہ نفس کی ضرورت ہے کیونکہ تیسرا فریق و ان دیکھی طاقت جو کہ بنی نوع انسان کی کھلی دشمن ہے‘ اپنے شکار کو بہکانے کی حتی الوسع کوشش کرے گی جس کا مشن ہی یہی ہے کہ وہ رب کائنات کے پیدا کر دہ بندوں کو اس کا فرمانبردار نہ بننے دے چاہے اسے اوپر سے آنا پڑے یا نیچے سے‘ دائیں سے آنا پڑے یا بائیں سے‘ آگے سے آنا پڑے یا پیچھے سے۔(جاری ہے)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں