سماج (17) ۔ امن پسند/وہاراامباکر

کیا جنگ لازم ہے؟ کیا گروہوں میں منظم ہونے کا مطلب دوسرے گروہوں کے ساتھ حالتِ جنگ ہے؟ چیونٹیوں کے لئے تو یہ بات درست ہے۔ اور انسانوں کے لئے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

کئی قنوطی مفکرین اس کا جواب ہاں میں دیتے ہیں۔ ایک لاطینی محاورہ ہے کہ “انسان دوسرے انسان کے لئے بھیڑیا ہے”۔ لیکن یہ طرزِ فکر درست نہیں ہے۔ اور صرف انسانوں کے لئے ہی نہیں۔ ممالیہ کی دنیا میں گروہی رقابت اور رفاقت، جنگ اور اتحاد ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میدانوں کے ہاتھی اور بوتل کی ناک والی ڈولفن بظاہر دوستانہ انواع لگتی ہیں۔ ہاتھیوں میں اپنے واقف کاروں سے دوستی انتہا کی ہوتی ہے۔ ماضی میں بچھڑے ہوئے ہاتھی سے ملاقات ہو تو علیک سلیک پرجوش طریقے سے کرتے ہیں۔ کان ہلاتے ہیں اور گھومتے ہیں۔ کئی ہاتھیوں سے پکی دوستی ہوتی ہے۔ ڈولفن بھی اسی طرح دوستانہ رویے کے لئے مشہور ہے۔ لیکن ان انواع میں بھی سب کچھ گلاب اور شہد نہیں۔ نر ڈولفن کے جسموں پر پڑے زخم سرحدی جھڑپوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ہاتھی بھی ناپسندیدہ گروہوں سے دور رہتے ہیں۔ اور طاقتور گروہ ڈرا دھمکا کر کمزور گروہوں کو پانی اور درختوں کی اچھی جگہوں سے بے دخل کر دیتے ہیں۔
بونوبو صلح جوئی اور دوستانہ تعلقات رکھنے کے لئے مشہور ہیں۔ ان کی الگ کمیونیٹی آپس میں میل جول رکھتی ہیں۔ چمپنزی کے برعکس یہ اپنے علاقے کا سختی سے دفاع نہیں کرتے۔ یہ اجنبیوں کو کھانا بھی دے دیتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان میں سرحدیں نہیں ہوتیں۔ اور ان کو احتیاط سے پار کیا جاتا ہے۔ اجنبی کو ہمیشہ خوش آمدید نہیں کیا جاتا۔ اگر کسی کا آنا پسند نہ آئے تو چیخ و پکار شروع ہو جاتی ہے اور پھر اس کا پیچھا کر کے اور اسے دانتوں سے کاٹ کر اسے بھگایا جاتا ہے۔ ان کی الگ سوسائٹی ہمیشہ خوشگوار تعلقات نہیں رکھتی۔ یہ نرم گرم ہوتے رہتے ہیں۔ اور جب حالات خوشگوار نہ رہیں تو پھر یہ اپنی سرحد کے اندر اندر ہی رہا جاتا ہے۔
لیکن پھر بھی بونوبو کے معاشرے مقابلتاً امن پسند کیوں ہیں؟ خیال ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ بونوبو جن جگہوں پر رہتے ہیں، وہاں پر خوراک کی فراوانی ہے۔ کانگو میں بونوبو کی رہائش کے علاقوں میں سخت وقت شاذ ہی آتا ہے۔ ان کے زخموں پر ٹانکے لگانے والی ڈاکٹر سارا ہارڈی کہتی ہیں کہ اگر لڑائی کا وقت آ جائے ہو تو بونوبو کسی سے کم نہیں۔ اور جنگل میں ہمیں کم از کم ایک واقعے کا علم ہے جب کئی بونوبو ملکر ایک پر حملہ آور ہوئے اور اسے قتل کر دیا۔ (اور بونوبو سے زیادہ پرامن پرائمیٹ کوئی اور نہیں)۔
امن پسند انواع میں سے ایک سپرم وہیل ہے لیکن اپنے قبیلے سے باہر والوں کو نظرانداز کرتے ہیں اور ان سے روابط نہیں رکھتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لڑاکا انواع بھی ہر وقت لڑائی کی حالت میں نہیں رہتیں۔ امن کے وقت آتے ہیں جب ایک دوسرے کو برداشت کیا جاتا ہے۔ اور یہ خاص طور پر اس وقت ہوتا ہے جب خوراک کی کمی نہ ہو۔
جب ہرنوں کی فراوانی ہو تو الگونقن بھیڑیوں کے غول ایک دوسرے کے ساتھ بڑے امن سے رہتے ہیں۔ لیکن جب گرمیوں میں ہرن پھیل جاتے ہیں اور شکار مشکل ہوتا ہے تو ان غولوں میں بھی جنگ لوٹ آتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسانوں میں بھی مشکل وقتوں میں تشدد، قتل و غارت اور جنگ کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔ ولیم سمر نے کہا تھا کہ “جنگ معاشرے کو متحد کرتی ہے”۔ اس کا یہ حصہ تو درست ہے کہ اگر کوئی معاشرہ جنگ کے وقت بھی متحد نہ ہو پائے تو پھر وہ ختم ہو جائے گا۔ لیکن اجنبیوں کے ساتھ لڑائی ہماری لازم ضرورت نہیں ہے۔
متحد ہونے کے لئے اندرونی عوامل زیادہ کارگر رہتے ہیں۔ ہم اپنے وقت کا بڑا حصہ حالتِ امن میں گزارتے ہیں۔ خواہ یہ مشکل امن ہی کیوں نہ ہو۔ ضروری نہیں کہ ہم دوسروں کا احترام ہی کریں۔ دوسرے کے طرزِ زندگی کو پسند کریں۔ اور دوسرے گروہوں کے اتحاد کی علامات کو بھی۔ لیکن ایسا نہیں کہ ہم دوسرے کے جھنڈے نذرِ آتش کرتے رہتے ہیں۔ یا انہیں تکلیف اور نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اور کئی بار ہم اپنے پرانے تنازعات کو بھی بھلا کر ایک دوسرے کے ساتھ کام کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ اپنے سخت ترین دشمن کے ساتھ بھی۔
پہلی جنگِ عظیم میں 1914 کی کرسمس ایک ایسی مثال تھی۔ اس بدترین جنگ کے عروج میں کچھ وقت کے لئے جنگ روکی گئی تھی۔ مخالف افواج نے ایک دن کے لئے درمیان کے علاقے میں اکٹھے ہو کر گیت گائے تھے۔ پارٹی کی تھی۔ تحائف دئے تھے۔ اور وقفے کے بعد واپس جنگ میں مشغول ہو گئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اگر ہم foreigners کو ناپسند بھی کریں اور انہیں خود سے کمتر بھی سمجھیں، تب بھی اس کا لازم مطلب لڑائی نہیں ہے۔ دوسروں کے بارے میں منفی stereotype رکھنا ہمارے لئے نیچرل ہے۔ لیکن یہ چیز خود میں ہمیں پرتشدد رویے کی طرف مائل نہیں کرتی۔
اور لازم نہیں کہ ہم اپنے دشمن کی جان لینا چاہیں۔ عالمی اتحاد بنتے ہیں۔ حریفوں سے بھی روابط رکھے جاتے ہیں۔ اپنا اتحاد کسی سے جنگ کے ساتھ مشروط نہیں ہے۔ اگر آپس کی نفرت حد سے نہ بڑھ جائے تو انسانی معاشرے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر لیتے ہیں۔ تجارت کر لیتے ہیں۔ مدد بھی کر لیتے ہیں۔
اور انسانی معاشروں میں تعاون کا یہ امکان وہ چیز ہے جو فطرت میں کسی اور نوع میں نہیں۔ اس حوالے سے ہمارا سماجی رویہ منفرد ہے۔
کسی حریف کے ساتھ، اپنے تمام اختلافات کے باوجود امن سے رہنے اور معاملہ کرنے صلاحیت ۔۔۔
یہ انسانیت صرف انسان میں ہی ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply