اس حال میں جینا لازم ہے۔۔۔شاہد محمود ایڈووکیٹ

سوال: اگر بیوی سے نباہ نہ ہو اور وہ دوسری شادی کی اجازت بھی نہ دے تو کیا خفیہ طور پر دوسری شادی کی جا سکتی؟

جواب ازاں شاہد محمود:
بیوی سے نبھاہ نہ ہو تو بندہ یہ گنگنائے
جس حال میں جینا مشکل ہو، اس حال میں جینا لازم ہے۔

فیض احمد فیض کی بیوی تو تھی بھی غیر ملکی ان دونوں کا نبھا ہو گیا۔ آپ بیوی کو الگ independent person کے طور پر قبول کیجیے ،ذہنی طور پر جس کی اپنی عادتیں اور ضرورتیں ہیں۔ نہیں کر سکتے ایسا تو اپنے خاندان اور بیوی کے خاندان سے ایک ایک بڑے کو بیوی کی مشاورت سے مقرر کریں وہ آپ لوگوں کی صلح کرا پائیں تو ٹھیک ورنہ آگے لکھنے کی ہمت نہیں ۔۔۔۔۔ میں خود باپ ہوں ، میری بیٹی ، نواسی یا پوتی ساتھ بھی ایسی بیت رہی ہو تو میں تو جیتے جی مر جاؤں ۔۔۔۔۔ لگتا ابھی اللہ کریم نے آپ کو بیٹی کا باپ نہیں بنایا۔

میرے آقا کریم رحمت اللعالمین خاتم النبیین شفیع المذنبین سردار الانبیاء ابوالقاسم سیدنا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان اقدس کا مفہوم ہے کہ عورتیں آبگینے ہیں۔

آپ میں آبگینے سنبھالنے کی صلاحیت نہیں تو اپنے اندر وہ صلاحیت پیدا کیجئے۔

نیز اس حوالے سے سیدنا حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی حیات مبارکہ سے ایک واقعہ کا مفہوم بیان کر رہا ہو کمی بیشی اللہ کریم معاف فرمائے آمین ثم آمین۔ اس واقعہ کو ذہن میں رکھیں۔
سیدنا حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا عدلِ فاروقی تو بہت مشہور ہے لیکن شاید صبرِ فاروقی کے بارے میں لوگوں کو کم پتا ہو۔ آپ رضی اللہ عنہ کے بارے میں عام تأثر یہی ہے کہ آپؓ سخت طبیعت کے مالک تھے لیکن حقیقت یہ ھے کہ آپ نہایت رقت آمیز طبیعت کے مالک تھے۔ آپ کی سختی بطور خلیفہ و Administrator اصولوں پر مبنی ھوتی تھی جو حکومت کے لئے بہت ضروری ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آپ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ایک عرب دیہاتی آپ رضی اللہ عنہ کے گھر اپنی بیوی کی زبان درازی و سخت روپے کی شکایت کرنے آیا۔ آپ رضی اللہ عنہ خلیفہ وقت ہونے کے باوجود ایک معمولی گھر میں رہتے تھے تو اندر ذرا اونچی آواز میں کی جانے والی بات باہر بھی سنائی دیتی تھی۔ عرب دیہاتی جونہی خلیفہ وقت کے دروازے کے پاس پہنچا اس نے حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ  عنہ کی بیوی کو اونچا و سخت بولتے سنا اور آگے سے خلیفہ وقت حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز تک نہیں آ رھی تھی۔ اس عرب دیہاتی نے سوچا کہ اگر خلیفہ وقت حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ حال ھے جو اتنے سخت ہیں اور ہمارے حکمران بھی ہیں تو میں تو کسی حساب کتاب میں آتا ہی نہیں پھر شکایت کا فائدہ؟ عرب دیہاتی یہ سوچ کر واپسی کے لئے پلٹا اور ادھر حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھر کے ماحول کو ٹھنڈا کرنے کے لئے گھر سے باہر نکل آئے۔ آپؓ نے عرب دیہاتی کو واپس جاتے دیکھا اور اس کی چال ڈھال سے سمجھ لیا کہ یہ مدینے کا باسی نہیں کوئی مسافر ہے۔ آپ نے اس کو آواز دی کہ بھائی کسی کام سے آئے تھے؟ وہ واپس پلٹا اور بولا کہ اے خلیفہ میں اپنی بیوی کی شکایت لے کر آیا تھا کہ وہ مجھے بہت ڈانٹتی ہے مگر آپ کو بھی اسی مصیبت میں مبتلا دیکھ کر واپس جا رھا تھا کہ جب آپ کا خود اپنا یہ حال ہے تو پھر ہمارے لئے بھی صبر کے سوا چارہ نہیں۔ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے نصیحت کے طور پر فرمایا میرے بھائی میں اپنی بیوی کی یہ ساری باتیں اس کے ان احسانات کے بدلے برداشت کرتا ہوں جو وہ مجھ پر کرتی ہے۔ وہ میرا کھانا تیار کرتی ہے، میری روٹی پکاتی ہے، میرے کپڑے دھوتی ہے، میری اولاد کی پرورش کرتی ہے اور میرے دین کی حفاظت کرتی ہے اور مجھے حرام سے بچاتی ہے اور یہ سب اس پر واجب بھی نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ اس شخص نے کہا کہ یا امیرالمومنین میری بیوی بھی یہ سب کام کرتی ہے، آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا تو پھر اس کو برداشت کرو بھائی ۔۔۔۔ فانھا مدۃ یسیرہ ۔۔۔۔۔ یہ تھوڑی سی مدت ہی کی تو بات ہے پھر نہ ہم رہیں گے اور نہ وہ۔ یہ سن کر دیہاتی عرب نے کہا آپ سچ کہتےہیں امیرالمومنین اور واپس چل پڑا۔ اسے عملی سبق مل چکا تھا کہ بولنا عورت کا عیب نہیں بلکہ برداشت کرنا مرد کا امتحان ہے۔

Facebook Comments

شاہد محمود
میرج اینڈ لیگل کنسلٹنٹ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply