ٹارگٹ ٹارگٹ ٹارگٹ ۔۔ کرنل ضیاء شہزاد/تبصرہ:ظفرجی

فوجی سدا کا مسافر ہوتا ہے-
بلوچستان کی بے آب و گیاہ وادیاں ہوں یا سیاچین کی برف پوش پہاڑیاں ، اس کی مسافت ہمیشہ جاری رہتی ہے- زمانہء امن میں ہمارے تحفظ کےلئے وہ در بدر اپنی جان اٹھائے پھرتا ہے اور زمانہء جنگ میں یہی جان آفریں کے سپرد کر دیتا ہے۔

ملٹری کے خشک ، مستعد اور منظّم ماحول میں رہ کر مزاح تخلیق کرنا یقیناً ایک کٹھن کام ہے- ایک کرنل نے مورچہ کھودتے ہوئے جوان سے پوچھا:
” مٹّی کا کیا کرو گے؟”
وہ بے بسی سے سلیوٹ مار کے بولا ” سر ایک اور مورچہ کھود کر اس میں دفنا دوں گا”

اس طرح کی بے شمار “بے بسیاں” ایک ” مالا” میں پروئی  جائیں تو “ملٹری مزاح” تخلیق ہوتا ہے- ویران خشک چٹانوں میں پھول کھلانا کون سا آسان ہے- یہ الگ بات کہ ویرانے کا پھول ، باغ کے پھول سے زیادہ مہکتا ہے اور اس کی خوشبو دور دور تک محسوس کی جا سکتی ہے-

ملٹری مزاحیہ ادب کا تذکرہ کرنل محمد خان کے بغیر ادھورا ہے- آج بھی ان کی بجنگ آمد اور کرنل اشفاق کی جنٹل مین سیریز کی گونج چہار سوُ سنائی  دیتی ہے- کرنل  محمد خان مرحوم نے دونوں بڑی جنگوں میں حصہ لیا چنانچہ آپ کی” بجنگ آمد” کو مزاحیہ اردو ادب کا مضبوط ستون قرار دیا جا سکتا ہے-

حال ہی میں کرنل ضیاء شہزاد صاحب کی ایک مزاحیہ کتاب “ٹارگٹ ٹارگٹ ٹارگٹ” کے نام سے آئی  ہے- آپ حاضر سروس کرنل ہیں اور سیاچین میں بھی اپنی خدمات سرانجام دے چکے ہیں- “ٹارگٹ” پڑھ کر ہنسی تو آتی ہی ہے ، ساتھ ساتھ ان تکالیف کا تعارف بھی ہوتا ہے جو احساسِ تفاخر کے ساتھ ساتھ “لانگ بُوٹ” میں قید پاؤں کو چھلنی رکھتی ہیں-

بقول شاعر
جن کے ہونٹوں پہ ہنسی
پاؤں میں چھالے ہونگے
ہاں وہی لوگ ترے
چاہنے والے ہونگے

کچھ اقتباسات پڑھیے اور ہنسی کے فواروں کے ساتھ ساتھ گلیشئر کی منجمند راتوں کا تصوّر بھی کیجئے:

لکھتے ہیں:

” سیاچن سے وابستہ کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جن کا عام زندگی میں صرف تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔ بیس کیمپ سے لے کر اگلی پوسٹوں تک پہنچنے کے لیے ایک لمبا سفر طے کرنا پڑتا ہے جو بسا اوقات ہفتوں پر محیط ہو جاتا ہے۔ ایس او پی کے مطابق ماحول سے مانوس ہونے کے لیے ہر ایک ہزار فٹ کی بلندی طے کرنے کے بعد وہاں ایک رات گزارنا ضروری ہوتا ہے-

دورانِ سفر مختلف درمیانی پوسٹوں پر رات بسر کی جاتی ہے۔ ایک مرتبہ ہمیں ایک ایسا ہی سفر درپیش تھا۔ ایک درمیانی پوسٹ سے دوسری تک کا سفر موسم کی خرابی کے باعث معمول سے کچھ زیادہ طویل ہو گیا تھا۔ برف میں پانچ گھنٹے مسلسل پیدل چل کر جب ہم اگلی پوسٹ کے نزدیک پہنچے تو دور سے اگلو کو دیکھ کر جان میں جان آئی۔

پورا بدن تھکن سے چور چور تھا اور گھنٹوں برف میں چلنے کے باعث پاؤں تقریباً شل ہو چکے تھے۔ پوسٹ میں داخل ہوتے ہی پوسٹ حوالدار نے ہمارا استقبال کیا اور ایک زوردار آواز لگائی :

“پیپسی چولھے تے رکھو”

ہمارے اوسان جیسے ہی بحال ہوئے تو دیکھا کہ ٹین کے مگ میں سچ مچ کی پیپسی دعوتِ نظارہ دے رہی ہے۔ دل کی دھڑکن مارے خوشی کے بےقابو ہونے لگی۔ ہم نے گھونٹ گھونٹ کر کے اس مشروب کو حلق میں انڈیلا۔ سچ پوچھیے تو کولڈ ڈرنک پینے کا جو مزہ اس روز آیا وہ اب تک بھلائے نہیں بھولتا۔

پوسٹ حوالدار نے بتایا کہ اس نے ہمارے لیے بطورِ خاص یہ اہتمام کیا ہے۔ پیپسی سیاچن کے انتہائی کم درجہ حرارت کے باعث جم کر پتھر کی مانند ٹھوس شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اسے قابلِ استعمال بنانے کے لیے چولھے پر ابلتے ہوئے پانی میں رکھ کر کافی دیر تک گرم کرنا پڑتا ہے۔

دیکھا دیکھی ہم نے بھی اپنی پوسٹ پر پہنچ کر پیپسی کی ڈیڑھ لٹر والی بوتل منگوانے کا آرڈر دیا۔ ہماری پوسٹ انیس ہزار فٹ بلند تھی۔ سامان نے بیس کیمپ سے ہماری پوسٹ تک پہنچنا تھا جس میں کم از کم پندرہ روز کا وقت درکار تھا۔ وہ پندرہ دن ہم نے انتہائی اشتیاق کے عالم میں بسر کیے۔

آخر خدا خدا کر کے وہ دن آن پہنچا جب پارٹی سامان لیکر ہماری پوسٹ پر پہنچی۔ حسب ترکیب پیپسی کو فوراً ابلتے ہوئے پانی میں رکھ کر قابلِ استعمال بنایا گیا۔ جب بوتل ہمارے روبرو پیش کی گئی تو اسے تین چوتھائی خالی پایا جب کہ ڈھکنا اپنی جگہ مضبوطی سے بند تھا۔

سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ مقدار کی اس کمی کے پیچھے کیا راز چھپا ہے۔ خیر بڑی ردوکد کے بعد جو کچھ موجود تھا اسی پر اکتفا کیا گیا۔

دو ماہ گزر گئے، پوسٹ پر ہمارا ٹائم پورا ہوا اور واپسی پر اسی پہلے والی پوسٹ پر رات بسر کرنے کے لیے ٹھہرنا پڑا۔ پوسٹ کمانڈر نے حسب ِسابق اس مرتبہ بھی پیپسی سے خاطر تواضع کی۔ ہم نے اس سے اپنی بوتل کے خالی ہونے کا راز دریافت کیا تو اس نے انکشاف کیا :”سر، بیس کیمپ سے لے کر آپ کی پوسٹ کے درمیان جو پانچ درمیانی پوسٹیں واقع ہیں یہ ان ناہنجاروں کی کارستانی ہے۔ وہ لوگ سرنج کے ذریعے پلاسٹک کی بوتل میں سوراخ کرتے ہیں اور پیپسی باہر کشید کر لیتے ہیں۔ سوراخ اتنا باریک ہوتا ہے کہ کھلی آنکھ سے نظر تک نہیں آتا۔”

اس انوکھے طریقۂ واردات پر ہم سوائے مسکرانے اور کر بھی کیا سکتے تھے۔ بقولِ شاعر:-

ہم تو زخموں پہ بھی یہ سوچ کے خوش ہوتے ہیں
تحفۂ دوست ہیں جب یہ تو کرم ہی ہوں گے

اس کے بعد ہم نے پوسٹ پر پیپسی منگوانے کی غلطی تو نہیں دہرائی البتہ چھٹی پر گھر پہنچے اور بیگم ہماری خاطر تواضع کرنے لگیں تو منہ سے بے اختیار نکل گیا “پیپسی چولھے تے رکھو۔”

سیاچن واسیوں کو پوسٹ پر دو طرح کے کھانے میسر ہوتے ہیں۔ ڈبہ بند کھانوں میں پالک اور مرغی کا گوشت جب کہ تازہ کھانوں میں دال مسور اور چاول۔ چاول چونکہ نہایت قلیل مقدار میں مہیا کیے جاتے ہیں لہٰذا ان کی باری ہفتے میں ایک آدھ مرتبہ ہی آتی ہے۔

ڈبہ بند کھانوں کا ذائقہ قدرے بدمزہ سا ہوتا ہے اس لیے طبیعت ان کی طرف کم ہی مائل ہوتی ہے۔ زیادہ تر دال مسور کو روٹی کے ساتھ یا پھر چاولوں پر ڈال کر شوق سے کھایا جاتا ہے۔ ہنڈیا میں نمک مرچ کے سوا کسی اور شے مثلاً پیاز، لہسن، ادرک، ٹماٹر اور مصالحوں وغیرہ کا تصور بھی محال ہوتا ہے۔

پوسٹ پر کچھ دن گزارنے کے بعد ہم اس جستجو میں پڑ گئے کہ دال کا ذائقہ بڑھانے کی کوئی سبیل نکالی جائے۔ کافی سوچ بچار کے بعد ایک ترکیب سوجھی کہ کسی نہ کسی طرح گرم مصالحے کا ایک پیکٹ پوسٹ پر منگوایا جائے اور اسے دال میں شامل کر کے اس کا مزہ دوبالا کیا جائے۔

اس حل کو قابل عمل جانتے ہوئے یونٹ ہیڈکوارٹر کو گرم مصالحے کا ایک پیکٹ بھجوانے کی درخواست ارسال کر دی گئی۔ اس کے بعد ایک جاں گسل انتظار کا مرحلہ شروع ہوا۔ ہم ہر روز یونٹ ہیڈکوارٹر اور درمیانی پوسٹوں پر فون کر کے اپنے پیکٹ کا تازہ ترین محلِ وقوع معلوم کیا کرتے۔

دن پہ دن گزرتے جا رہے تھے اور جوں جوں ہمارا اور گرم مصالحے کا زمینی فاصلہ کم ہو رہا تھا توں توں ہمارے تصور کو مزید شہ مل رہی تھی۔ ان دنوں ہماری پوسٹ پر موجود افراد کا موضوعِ گفتگو مصالحے کے پیکٹ اور اس کی ممکنہ ترکیبِ استعمال تک محدود ہو کر رہ گیا تھا۔

قصہ مختصر دو ہفتوں کے طویل انتظار کے بعد وہ مبارک دن آن پہنچا جب پورٹرنگ پارٹی سامان لانے پوسٹ سے نیچے روانہ ہوئی۔

پورٹرنگ پارٹی پانچ گھنٹے کے طویل سفر کے بعد سامان لے کر پوسٹ پر واپس پہنچی تو اس میں ہمارا من پسند گرم مصالحے کا پیکٹ بھی موجود تھا۔ پیکٹ کو فوراً باورچی کے حوالے کیا گیا جسے ہم پہلے ہی تفصیلی ہدایات دے چکے تھے۔ ہم خود کو انتہائی خوش نصیب تصور کر رہے تھے کہ ایک مدت کے بعد منہ کو بارہ مصالحوں میں پکی ہوئی مسور کی دال کا ذائقہ نصیب ہونے جا رہا تھا۔

ایک گھنٹے کے مزید صبر آزما انتظار کے بعد بھاپ اڑاتی دال گرما گرم روٹیوں کے سنگ ہمارے روبرو پیش کی گئی۔ وفورِ اشتیاق سے منہ میں پانی کے فوارے چھوٹ رہے تھے۔ مگر وائے قسمت کہ جوں ہی پہلا نوالہ چبایا تو یوں لگا کہ جیسے زہر پھانک لیا ہو۔

اتنے تیز مصالحوں سے واسطہ پڑا کہ کانوں سے دھواں نکلنے لگا۔ یہ دال تو گویا بارود کا ایک دہکتا ہوا گولہ تھی جسے چکھتے ہی ہمارے دل کے ارمان تیزی سے آنسوؤں کی شکل میں بہنے لگے۔ پانی کا پورا جگ حلق میں انڈیلا تب کہیں جا کر طبیعت معمول پر آئی۔

اوسان بحال ہوئے تو باورچی کو بلا کر تفتیش کا آغاز کیا۔ معلوم ہوا کہ اس مردِ قلندر نے جوش میں آ کر سالم پیکٹ ہی دال کے پتیلے میں انڈیل دیا تھا۔ بقول غالبؔ:-

ہاں اہلِ طلب کون سنے طعنۂ نایافت
دیکھا کہ وہ ملتا نہیں اپنے ہی کو کھو آئے

Advertisements
julia rana solicitors

کرنل ضیاء شہزاد صاحب کی یہ کتاب “ملٹری ہیومرس لٹریچر” میں یقیناً ایک خوبصورت اضافہ ہے- اسے علم و عرفان پبلشرز نے شائع کیا ہے اور قیمت بھی انتہائ مناسب ہے- میں نے تو آرڈر کر دیا ہے- اگر آپ بھی اچھا ملٹری مزاح پڑھنے کے شوقین ہیں تو وٹس ایپ آرڈر کیجئے- دیر کاہے کی-
پبلشر کا وٹس ایپ نمبر یہ ہے
03455605604

Facebook Comments

ظفر جی
ظفر جی فیس بک کے معروف بلاگر ہیں ،آپ سلسلے لکھنے میں شہرت رکھتے ہیں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ٹارگٹ ٹارگٹ ٹارگٹ ۔۔ کرنل ضیاء شہزاد/تبصرہ:ظفرجی

Leave a Reply