پہلی جنگ عظیم(آخری قسط)جنگِ ناتمام۔۔۔۔آصف خان بنگش

1918 کی گرمیوں تک جنگ کو 4 خوفناک سال ہو چکے تھے اور اس کا خاتمہ دور دور تک نظر میں نہیں تھا۔ 1918 کے اوائل میں جرمنی نے اتحادیوں پر تابڑ توڑ حملے کئے تھے لیکن اگست کے مہینے میں اتحادیوں نے 1 لاکھ سپاہیوں پر مشتمل ایک فورس ترتیب دی جو آسٹریلوی اور کینیڈا کی افواج پر مشتمل تھی۔ اس سٹرائیک فورس کو 400 ٹینک، 1900 جہاز، 3000 توپ اور 3 گھڑسوار ڈیویژن کی خدمات حاصل تھیں۔ اتحادیوں نے پچھلے 4 سالوں میں کافی تجربہ حاصل کیا تھا اب اسے استعمال کرنے کا وقت تھا۔ جرمن کمانڈر لوڈنڈورف چونکہ اقدامی کاروائی میں مصروف تھے انہیں اس بات کا بالکل اندازہ نہیں تھا کہ دشمن پلٹ کر ان پر وار کرے گا۔ اتحادیوں کاحملہ اتنا شدید تھا کہ صرف ایک دن میں وہ 8 میل دشمن کے علاقے میں جا گھسے۔ 9000 جرمن مارے گئے اور اس سے دگنے قیدی بنائے گئے۔ جرمن فوج میں اب لڑنے کی سکت باقی نہیں تھی۔ جرمن کمانڈر جانتے تھے کہ یہ ان کی شکست کی شروعات ہیں۔ نہ تو جرمن فوج کو واضح احداف معلوم تھے نہ ان کے پاس جنگ جاری رکھنے کے لئے سپلائی تھی۔ لوڈنڈورف نے تمام زمہ داری اندونی قوتوں پر ڈالی جو جنگ کا خاتمہ چاہتی تھیں۔ ٹیکنالوجی کی جنگ بھی اتحادی جیت رہے تھے۔ جرمن نے صرف 20 ٹینک بنائے تھے جب کہ برطانیہ 4000 سے زیادہ بنا چکا تھا۔ اتحادی افرادی قوت کی جنگ بھی جیت چکے تھے اسے اب ڈھائی لاکھ تازہ دم امریکی فوج کی خدمات بھی حاصل ہو گئی تھیں جب کہ جرمنی صرف 1918 میں 10 لاکھ افراد کھو بیٹھا تھا۔ اتحادی جتنے مضبوط ہوتے گئے جرمن اور اس کے ساتھی کمزور ہوتے گئے۔ آسٹریا ہنگری کے 3 لاکھ سپاہی جنگ سے بھاگ گئے تھے، فاقہ کشی اپنے عروج پرتھی۔ پولش، چیک اور بوسنیا نے اس کمزوری کا فائدہ اٹھا کر اپنی آزادی کی بات کرنا شروع کر دی۔ اب ستمبر میں شہنشاہ کارل نے جرمن کائزر سے کہا وہ اتحادیوں سے صلح چاہتے ہیں۔ کائزر نے انہیں منع کرنے کی کوشش کی لیکن کارل نے ایک پیشکش کی جسے اتحادیوں نے اس کے منہ پر دے مارا۔

اس سلسلے کی گزشتہ تمام اقساط اور دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے  لکھاری کے نام  پر کلک کیجیے: آصف خان بنگش

دوسری طرف خلافت عثمانیہ برطانیہ کے ہاتھوں مار کھا رہی تھی۔ اب وہ اپنی جان بچانے کے لئے جنگ لڑ رہی تھی نہ کہ جرمنی کے لئے۔ بلقان میں جرمنی کو بلغاریہ کی ضرورت تھی لیکن اتحادی مقدونیہ میں جمع ہوئے۔ بلغاریہ کے فوج کی حالت بھی خراب تھی۔ جنگ بلقان میں شروع ہوئی تھی سربوں کو ختم کرنے کے لئے اب سرب انتقام کی پوزیشن میں تھے۔ بلغاریہ نے 1915 میں سربوں کو اپنے ملک سے نکالا تھا اب وہ انتقام لینا چاہتے تھے۔ اتحادیوں نے بلغاریہ پر بھی کاری ضرب لگائی اور 28 ستمبر کو وہ صلح کے لئے تیار ہوگئے۔ جب لوڈنڈورف کو خبر ملی تو وہ فرش پر گر پڑا اور منہ سے جھاگ نکلنے لگا۔ اگلے دن اسے خبر ملی کہ ہنڈنبرگ کی فوج بھی پسپا ہوئی ہے یہ جرمنی کی آخری دفاعی لائن تھی۔ اب لوڈنڈورف نے تمام اعلی افسران کو جمع کیا اور انہیں کہا کہ ہم جنگ ہار چکے ہیں اب امن معاہدہ کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ پروپیگنڈہ سے بے خبر رکھے گئے سیاستدانوں کے لئے یہ خبر ایک دھچکا تھی۔ اب جرمنی نے امریکی صدر ووڈرو ولسن (Woodrow Wilson) سے عارضی صلح کے لئے عرضی دی۔ ولسن نے پہلے ہی 14 نکات پیش کئے تھے لیکن فرانس اس سے مطمئن نہیں تھا۔ ولسن کے نکات ایک بہترین پیکج تھا جس میں اقوام کی حق خودارادیت اور لیگ آف نیشن کا قیام تھا۔ ولسن کا یہ بھی کہنا تھا جرمنی اپنی شکست تسلیم کرے اور شہنشاہیت کو جمہوریت سے تبدیل کرے۔

جہاں سیاستدان امن معاہدے کے نکات پر بات کر رہے تھے وہاں جنگ ابھی جاری تھی جرمن یو بوٹس اتحادیوں کے جہاز ڈبو رہی تھیں اور پسپا ہوتی افواج اپنے پیچھے کھنڈر چھوڑ رہی تھیں۔ جنگ کے آخری ایام زیادہ وہشت ناک تھے اب جوانوں کو خندقوں سے نکل کر لڑنا تھا جہاں مشین گنیں آگ برسا رہی تھیں۔ جہاں برطانیہ سوم کی لڑائی کے بعد اپنی افواج کو خطرہ میں ڈالنے سے کترا رہا تھا وہاں فرانس جرمنی کے اندر گھسنے کی بات کر رہا تھا، کہ اگر ابھی جرمنی کو مکمل شکست نہ دی گئی تو اس کا خمیازہ مستقبل میں فرانس کو بھگتنا پڑے گا۔ لیکن اب جو اتحادی ایک کاغذ کے ٹکڑے پر حاصل کرنے والے تھے وہ ان کی افواج میدان جنگ میں نہیں حاصل کر پائی تھیں – جرمنی کی افواج کا سرینڈر (Unconditional Surrender)۔ اتحادیوں کی شرائط انتہائی سخت تھیں، یہ کہ جرمنی بیلجئم اور فرانس سے نکل جائے گا، اپنی بحری بیڑا اتحادیوں کے حوالے کر دے گا اور معاوضہ بھی ادا کرے گا۔ اتحادی جرمنی کی ناکہ بندی جاری رکھیں گے اور رائن کے بائیں کنارے پر بھی ان کا حق ہوگا۔ جرمن لوگ چونکہ جنگ سے بیزار تھے اس لئے انہیں یہ کڑوی گولی کھانی پڑی۔ اگرچہ کائزر نے فوج کو اپنے لوگوں کے خلاف کرنے کی کوشش کی لیکن فوج نے کائزر کو ہالینڈ میں جلاوطن کر دیا۔ فوج اپنی جنرل کے زیر کمان واپس جرمنی بلائی گئی۔ فریڈرک دی گریٹ کی پرشین سلطنت ختم ہو چکی تھی۔ ارزبرگر (ٰMatthias Erzberger) اب جرمن ریپبلک کا نمائندہ تھا اور 11 نومبر صبح 5 بجے اس نے امن معاہدے پر دستخط کر دیئے۔ جنگ دن کے 11 بجے عارضی طور پر ختم ہو جائے گی۔
یہ گیارہویں مہینے کے گیارہویں دن کے گیارہ بجے تھے۔ ایک عجیب خاموشی ہر طرف چھا گئی تھی۔ جنگ ختم ہو چکی تھی۔

اگلے ہی لمحوں میں میدان جنگ میں سمان بندھ گیا تھا، فوجی ناچتے شراب کی بوتلیں پکڑے اپنی دھن میں گائے جارہے تھے۔ پوری دنیا میں ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ بہت سے لوگوں کی زندگیاں جنگ سے بدل گئی تھیں، ان میں سے کچھ ایسےبھی تھے جنہیں ابھی دنیا نہیں جانتی تھی جیسے (Ernest Hemingway, Bertolt Brecht, Harold Macmillan, Vera Brittain, Charles de Gaulle, Josef Tito, Benito Mussolini, David Ben-Gurion, Mustafa Kamal) اور سب سے بڑھ کر ایڈولف ہٹلر (Adolf Hitler)۔

جرمنی میں عام تاثر یہ تھا کہ وہ جنگ ہارے نہیں، دشمن کبھی بھی برلن کے قریب نہیں بھٹکنے پایا تھا اس کی افواج بیلجئم اور فرانس سے واپس جارہی تھیں۔ یہ ایک خطرناک تاثر تھا جو مستقبل میں ایک اور جنگ کو جنم دے سکتا تھا۔ اتحادی بلاشبہ فاتح تھے انہوں نے جرمن بیڑا قبضہ کیا اور رائن (Rhine) کےکنارے پہرہ دینا شروع کیا۔ بیلجئم کا بادشاہ برسلز سے واپس آگیا اور اس کا شاندار استقبال ہوا۔ جب کہ مشرقی یورپ میں نئی اقوام ابھر کر آئیں جن میں پولینڈ روس اور جرمنی سے آزاد ہوا۔ چیکو سلواکیہ نے آسٹریا-ہنگری سے زمین  لی۔ اتحادی اب جنگ میں جیتے مال کی بندربانٹ کرنے لگے۔ بڑے فیصلے کاؤنسل آف فور جس میں اٹلی کے اورلینڈو (Orlando) برطانیہ کے لائڈ جارج (Lloyd George) فرانس کے کلیمنسو (Clemenceau) اور امریکی صدر ولسن (Woodrow Wilson) تھے۔

فرانس برطانیہ اور امریکہ کا اربوں ڈالر کا مقروض تھا اور باقی دو ممالک قرض معاف کرنے والے نہ تھے اس لئے سارہ بوجھ جرمنی پر ڈالا گیا، اس سے یہ بات منوائی گئی کہ سب غلطی اس کی تھی۔ جرمنوں نے شدید احتجاج کیا۔ ماہرین نے بھی کھل کر بتایا کہ جرمنوں پر اس قدر بوجھ ڈالنا ان کی نسلوں کے ساتھ زیادتی ہے جو وہ کبھی معاف نہیں کریں گے۔ امریکہ اپنے پیسے واپس چاہتا تھا اس لئے ولسن نے زیادہ مزاحمت نہیں کی۔ جرمنی نے 28 جون 1919 کو ورسائے (Versailles) میں معاہدے پر دستخط کر دئے۔ یہ ساراہیو (Sarajevo) میں فرڈیننڈ کے قتل کے ٹھیک 5 سال بعد تھا جس نے جنگ کو جنم دیا تھا۔ یہ انتہائی ناقص معاہدہ تھا لیگ آف نیشنز کا قیام عمل میں لایا گیا۔ لیکن نہ تو جرمنی نے معاہدے کے مطابق بھاری تاوان ادا کیا اور نہ ہی لیگ آف نیشن انہیں اس بات پر مجبور کر سکی۔ ورسائے معاہدے نے لیکن جرمنوں کو انتقام کی آگ میں تپائے رکھا جس کا انجام بہت بھیانک ہونے والا تھا۔ مارشل فرڈیننڈ فوک (Marshal Ferdinand Foch) نے اسے امن معاہدہ کے بجائے 20 سالہ جنگ بندی قرار دیا اور اس کی پیشن گوئی صرف 65 دن سے غلط ثابت ہوئی۔

جنگ میں قریب 1 کروڑ سپاہی مارے گئے، کوئی نہیں جانتا کتنے شہری لقمئہ اجل بنے۔ سرب قوم کے 1915 کی ملک بدری ہو، آرمینیا میں قتل عام، بیلجئم اور فرانس میں گرنے والے لاشے ہوں یا پھر 1918 میں وبائی زکام سے دنیا بھر میں 2 کروڑ افراد چل بسے۔ 2 کروڑ سپاہی بری طرح زخمی ہوئے تھے۔ لیکن جب پہلی جنگ عظیم کی یادگاریں تعمیر ہوئیں تو اسے صرف قتل عام کے طور پر نہیں دیکھا گیا بلکہ ظلم کے خلاف جدوجہد، وطن سے محبت، جیت اور محنت و ہیروازم کے طور پر بھی دیکھا گیا۔ جرمنی نے بھی جہاں ان کی جیت ہوئی تھی وہاں جشن منایا۔ روس کے خلاف فتح کی یادگار بنائی گئی۔ جنگ بیشک ہاری گئی تھی لیکن جوانوں کی بہادری یاد رکھی گئی۔

پہلی جنگ عظیم یورپ کو سلطنتوں کے دور سے نکال کر قومی ریاستوں کے دور میں لے آیا تھا۔ یورپ کے لوگوں کو آزادی ملی تھی، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کو شناخت ملی تھی۔ روس پہلی کمیونسٹ ریاست بن گئی تھی اور امریکہ ایک عالمی طاقت کے طور پر سامنے آیا تھا۔ لیکن مشرق وسطی، بلقان اور آئرلینڈ میں یہ معاملات حل کرنے میں ناکام رہی تھی۔ جنگ اب ختم ہو چکی تھی لیکن سپاہیوں کے ذہنوں میں ہمیشہ زندہ رہنے والی تھی۔ زندگی معمول پر آگئی، سب کچھ اب بھی پہلے جیسا ہے لیکن اگر کچھ بدلہ ہے تو وہ جنگ میں لڑنے والے سپاہی تھے جو ان تمام ہولناکیوں کو سہنے کے بعد اب پہلے جیسے نہیں رہے تھے۔

(ختم شد)

Advertisements
julia rana solicitors

سر ہیو سٹران (Sir Hew Strachan) کی کتاب (The First World War) سے ماخوز
Akbangash87@gmail.com

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply