ضمیر وارڈن۔۔۔ عاصم اللہ بخش

آج صبح صبح ایک بندے سے منہ ماری ہو گئی ۔

منہ ماری بھی کیا ٹھیک ٹھاک ہاتھا پائی ہی سمجھیں۔ تاہم یہ سب کچھ کسی ذاتی عناد کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ اس کی بنیاد نہی عن المنکر تھی، الحمد للہ۔

میں اندرون شہر واقع ایک تنگ سی سڑک پر رواں تھا، ٹریفک زیادہ تھی اور سڑک کی گنجائش بہت کم، ہوتے ہوتے ایک ٹریفک جام میں جا پھنسا۔ آپ تو جانتے ہیں صبح کے وقت ہر بندہ جلدی میں ہوتا ہے۔ ہم اپنی منزل کے لیے نکلتے تاخیر سے ہیں اور پہنچنا پہلے چاہتے ہیں۔ رفتہ رفتہ ٹریفک جام نے وہاں پھنسے ہوئے لوگوں کا پارہ بڑھانا شروع کر دیا۔ موٹرسائیکل اور گاڑیوں کے ہارن “باقاعدہ” اور تسلسل سے بجنے لگے۔ سائیکل والوں کے پاس چونکہ ہارن کے سہولت میسر نہیں ہوتی اس لیے وہ اپنے منہ سے ہی منجنیق کا کام لیتے ہوئے اپنے دائیں اور بائیں غیر پارلیمانی الفاظ کی گولہ باری میں مصروف ہو گئے۔

کچھ وقت اور گزرا تو سائیکل اور موٹرسائیکل والے ون وے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے واپس ہونے لگے۔ اب اس سڑک پر بھی ٹریفک پھنسنے لگی۔ میں بھی سخت کوفت کے عالم میں یہ سب دیکھ رہا تھا۔

اسی دوران میری نظر ہرے رنگ کی گاڑی میں بیٹھے ایک باؤ پر پڑی جو سیاہ چشمہ چڑھائے  سٹئیرنگ وہیل کے پیچھے بیٹھا سرعت سے جائزہ لے رہا تھا کہ اسے کس طرح اس اژدہام سے نکلنا ہے۔ وہ خاصی جلدی میں دکھائی دے رہا تھا اور جیسا کہ گاڑی والوں کی نفسیات ہوتی ہے، ان کے خیال میں سب سے اہم کام ان کو ہی کرنا ہوتےہیں اور باقی سب تو جیسے میلہ دیکھنے نکلے ہوتے ہیں سڑک پر، اس باؤ نے بھی گاڑی کو جنبش دی اور میں نے جھٹ بھانپ لیا کہ جناب ون وے کے الٹ جانے کی ٹھان چکے ہیں۔

اب موٹر سائیکل اور سائیکل تو کسی طور گھومتے لہراتے ون وے کو بالکل بند کیے بغیر نکل سکتے تھے لیکن یہ چار پہیوں والی سواری، اول تو اس قدر تنگ جگہ میں گھومے گی کیسے ، اور جب گھوم گئی پھر تو راستہ مکمل بند ہو جائے گا اور جو تھوڑی بہت ٹریفک جاری ہے وہ بھی جامد ہو جائے گی۔

بس جناب، میرے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔ میں نے ایک فیصلہ کیا اور عین اس کے سامنے جاکھڑا ہؤا۔ اس نے خشمگیں نگاہوں سے میری طرف دیکھا، میں نے اسے کہا کہ اچھے شریف آدمی ہو یار ایک اپنے آرام کے لیے سب کو مصیبت میں ڈالنے پر تلے ہو۔ اس نے مجھے کہا تم ٹریفک وارڈن ہو یہاں کے ؟ میں نے جواب دیا “بَچُو، ٹریفک وارڈن تو نہیں ہوں پر تمہیں یہ حرکت کرنے نہیں دوں گا”۔ اس وقت میں نے تہیہ کر لیا کہ اگر اس کو روکنے کے لیے مجھے زور بازو بھی بروئے کار لانا پڑا تو حدیث مجھے اس کی اجازت دیتی ہے کہ غلط کام کو ہاتھ سے روک دوں ۔ میں مطمئن ہو گیا۔

باؤ نے گاڑی کو موڑ کاٹنے کے لئے آگے بڑھانے کی کوشش کی اور اپنا ہاتھ دروازے سے باہر نکال کر مجھے پرے ہٹانا چاہا، لیکن میں نے مضبوطی سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور با آواز بلند کہا میں تمھیں یہ حرکت نہیں کرنے دوں گا۔ اسی دوران میں نے دیکھا کہ ارد گرد کھڑے افراد نے اس بات کا نوٹس لیا ہے کہ گاڑی والا کوشش کے باوجود آگے نہیں بڑھ پا رہا۔ غالباً گاڑی والے نے بھی یہ محسوس کر لیا کہ اب اس کی دال نہیں گلنے کی۔ میں نے دیکھا میرے ہاتھ پر اس کا دباؤ کچھ ڈھیلا پڑ گیا، محسوس ہؤا گویا اس نے اپنا ارادہ ترک کر دیا ہے۔ اور ایسا ہی ہؤا۔ اس نے شیشہ چڑھا لیا اور سامنے دیکھنے لگا۔ سب لوگوں نے تشکر آمیز نظروں سے مجھے دیکھا کہ ان کو ایک نئی مصیبت سے بچا لیا۔

میرا دل خوشی اور انبساط کے جذبات سے بھر گیا اور مجھے احساس ہؤا کہ میں نے بالکل درست کام کیا ہے۔ آگے بڑھ کر میں نے اس گاڑی کا شیشہ کھڑکایا اور اس ڈرائیور کو خبردار کیا کہ اگر آئندہ میں نے اسے کوئی غلطی کرتے دیکھا تو میری طرف سے ایسے ہی سلوک کا سامنا ہو گا۔ اس نےمیری طرف اپنا تعارفی کارڈ بڑھانا چاہا۔ میں نے ایک اچٹتی سی نظر اس کارڈ پر ڈالی لیکن اس کو پکڑا نہیں۔ وہ جو کوئی بھی ہو گا میرا اس سے کیا لینا دینا۔ میں تو فی سبیل اللہ یہ سب کر رہا تھا۔

بس کیا عرض کروں ۔۔۔ صبح سے اک سرشاری کی کیفیت طاری ہے سوچا آپ سے بھی شئیر کر لوں۔ 🙂

Advertisements
julia rana solicitors

دیکھیے، اتنی بات ہو گئی اور مجھ اپنا تعارف کرانا بھی یاد نہیں رہا، اس بد تہذیبی کی معافی چاہتا ہوں۔ مجھے ضمیر کہتے ہیں اور ۔۔ وہ اس ہری گاڑی والے باؤ کے کارڈ پر عاصم اللہ بخش لکھا تھا۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply