پی ٹی وی کا ترلہ مارتا خط۔۔اعظم معراج

محترم محمد ارشد خان 04-12-2019
چیئرمین بورڈ آف ڈائریکٹر
پی ٹی وی،اسلام آباد

السلام علیکم!
جناب میں اعظم معراج تحریک شناخت کا ایک رضا کار ہوں۔یہ فکری تحریک پاکستانی مسیحیوں کی دھرتی سے نسبت آزادی ہند، قیام تعمیر و دفاع پاکستان میں ان کے اجداد اور موجودہ نسلوں کے شاندار کردار کے ذریعے مسیحیوں کی پاکستانی معاشرے میں قابل فخر شناخت کو اجاگر کرنے کی تحریک ہے اس تحریک کی بنیاداس خیال پر ہے کہ کوئی فرد یا کمیونٹی کسی بھی ایسے معاشرے میں ترقی نہیں کر سکتے ہیں جسے وہ جانتے نہ ہوں نہ اپنا مانتے ہوں۔ لہٰذا پاکستانی مسیحیوں معروضی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے تمہیں اپنے آبا کی سرزمین پر درپیش حالات دستیاب موقعوں ا پنی کمزوریوں اور توانائیوں کے صحیح تخمینے کے ساتھ دھرتی سے اپنی نسبت اور اپنی اس شاندار شناخت کی وارثت کو جان کر اس معاشرے میں فخر اورشان سے جینا ہے گو کہ حالات واقعات اور رویے بعض اوقات امتحان لیتے ہیں ان سے دل برداشتہ ہو کر اپنی اس قابل فخر شناخت کو قربان نہیں کیا جا سکتا۔

اس تحریک کے اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے دیگر اقدامات مثلاً نوجوانوں اور مذہبی، سماجی، سیاسی کارکنوں سے فکری نشستیں منعقد کی جاتی ہیں جن میں اسی اجتماعی خود آگاہی، خود شناسی کے ساتھ خود انحصاری کو اپنانے پر زور دیا جاتا ہے ان فکری نشستوں میں اس سبق کودوہرایا جاتا ہے کہ کہ تم اس دھرتی کے بچے ہو آزادی کی جنگ میںتمہارے اجداد قائد کے ہمراہی تھے، تم وطن کے سپاہی ہو، قوم کے معمار ہو، قابل فخر، قابل دید ہو، محافظ غازی اور شہید ہو، شہداءکے وارث ہو، حیدران کے ساتھی ہو، ھلال جرات کے استعارے ہو، جرا ت کے ستارے ہو، بسالت کے نشان ہو، اور سب سے بڑھ کر اس سبز و سفید پرچم کی شان ہو، لہٰذا پاکستانی مسیحیو ں دھرتی سے اپنی نسبت اپنے اس ورثے اور شان، پہچان اور شناخت کو اپنی روحوں میں اُتار لو اور اپنے آبا کی اس سرزمین پرفخر سے جیو۔ نیز اس مقصد کے حصول کے لئے میں نے مندرجہ ذیل گیارہ کتب بھی لکھی ہیں۔

مصنف:اعظم معراج

دھرتی جائے کیوں پرائے؟
شناخت نامہ
سبزوسفید ہلالی پرچم کے محافظ وشہدا
شہدائے وطن
شان سبزو سفید
چوبیس چراغ
حیدران کے مسیحی ساتھی
افواج پاکستان کے مقامی مسیحی جرنیل
کئی خط اِک متن
اسٹوری آف ٹو لیٹر
پاکستان کے مسیحی معمار
ان کتب میں بھی مسیحیوں کی اسی شناخت کو اجاگر کرنے کے ساتھ پاکستانی مسیحیوں کو پاکستانی معاشرے میں درپیش مسائل دستیاب موقعوں اور ان کی کمزوریوں کے ساتھ توانائیوں کو بھی حقائق اور اعدادو شمار کے ساتھ اُجاگر کیا ہے۔اس فکری تحریک کا نہ کوئی مذہبی، سیاسی ایجنڈا ہے اور نہ ہی یہ کوئی این جی اوز ہے۔یہ صرف اجتماعی خود شناسی کی ایک آگاہی مہم ہے اور اس تحریک کا کوئی انتظامی ڈھانچہ بھی نہیں اور دنیا بھر میں پھیلے اس کے رضا کار اس فکر کو اپنی سماجی، معاشرتی و معاشی حیثیت کے مطابق پھیلانے میں حصہ لیتے ہیں۔ میری روزی روٹی رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے آتی ہے اور میں بھی اس تحریک کا ایک رضا کار ہوں۔

آپ کو یہ خط لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ پرائیویٹ ٹی وی چینل تو لوگوں کے ذاتی کاروبار ہیں۔ لیکن پاکستان ٹیلی ویژن ریاست کا ادارہ ہے یعنی ہر پاکستانی کی ملکیت ہے میں آپ کو پاکستان ایئر فورس کے ایک ایسے شہید کا یوم شہادت یاد دلانا چاہتا ہوں جو ہے تو شہید وطن لیکن یہ ہماری ملک و قوم کا المیہ ہے۔ کہ مجھے بطور پاکستانی مسیحی آپ کو اس سے متعارف کروانا پڑ رہا ہے۔
یہ ہے شہید وطن ونگ کمانڈر شہید مارون لیسلے مڈل کوٹ
دوبار ستارہ جراءت ستارہ امتیاز

یہ6ستمبر 1940ءکو پیدا ہوئے اور 1954ء میں پاکستان ایر فورس میں شامل ہوئے۔1965ءاور 1971ءکی جنگوں میں دفاع وطن کے لئے کارہائے نمایاں انجام دیئے اور آخر12دسمبر1971ءکو انھوں نے اپنا اور اپنے خاندان کا کل اپنی قوم اور وطن کے آج پر قربان کر دیا۔
ان کی عظمت کے لئے میں اپنی کتاب
” شان سبزو سفید ”
سے ایک مختصر اقتباس یہاں پیش کر تا ہوں۔

یہ پاکستان ایئر فورس کا ایک ایسا شہید ہے جسے پاکستان ایئر فورس کے دو دفعہ ستارہجرات اور ستارہ بسالت حاصل کرنے والے واحد شہید کا اعزاز حاصل ہے۔ اور اس پاکستان ایئر فورس نے دیو مالائی ہوا بازایئر کموڈور ایم ایم عالم کا یہ کہنا ہے ۔ایک دفعہ مجھے ایئر وار کالج( Air war College) لے گئے اور کمانڈنٹ سے میرا تعارف کرایا۔ جس پر کمانڈنٹ نے مجھے اپنے افسران سے خطاب کی دعوت دی۔ جو کہ میرے لئے ایک اعزاز تھا میں نے یہ مشاہدہ کیا کہ کمانڈنٹ اور سارے افسران عالم صاحب کے لئے غیر معمولی احترام ہی نہیں بلکہ انتہائی محبت کا معاملہ رکھتے ہیں۔ باتوں باتوں میں جنگ کا ذکر آیا تو عالم صاحب نے جو اس وقت ساٹھ برس سے اوپر ہو گئے کمانڈنٹ سے کہا کہ” اگر جنگ ہوئی تو میں بھی پاکستان کے لئے جنگ میں حصہ لوں گا“ اس پر کمانڈنٹ نے کہا کہ
”بے شک آپ ضرور حصہ لیں گے اور ہماری رہنمائی بھی کریں گے“
ماشاءاللہ اس عمر میں ان کا دل جذبہ جہاد یہ تھا اور جذبہ جنون نوجوان فائٹر پائلٹ سے کم نہ تھا۔
وہ اپنے ساتھیوں کی کھلے دل سے تعریف کرتے تھے جو کہ ہمارے معاشرے میں ایک بے مثال خوبی ہے۔ ان کی ساتھیوں کی تعریف کرنے کی اس خوبی کی بدولت میں نے ان سے پوچھا۔ کہ1965ءکی فضائی جنگ میں آپ کے خیال میں کون نشان حیدر کا مستحق ہو سکتا تھا یا ہے تو انہوں نے بلا جھجک شہید اسکوارڈن لیڈر سرفراز رفیقی( ہلال جرات) کا نام لیا اور کہا کہ” ان کی شجاعت اور لازوال قربانی کے باعث وہ نشان حیدر کے مستحق ہیں اور اس کے بعد اسکوارڈن لیڈر علاﺅالدین احمد (بچ )شہید (ستارہ جرات) کی دلیری اور شجاعت اور قربانی بھی بے مثال ہے اور بھی نشان حیدر کے مستحق ہو سکتے ہیں“۔
1971ءکی جنگ کے متعلق ان سے پوچھا کہ اگر1971 کی جنگ میں کوئی آپریشنل کارکردگی پر نشان حیدر ملتا تو انہوں نے فوراً کہا
”بے شک1971ءکے نشان حیدر کے مستحق یقیناً شہیدونگ کمانڈر مارون لیسلے مڈل کوٹ ہیں جنہوں نے انتہائی سنگین حالات میں غیر معمولی شجاعت اور دلیری دکھائی اور قربانی کی ایک لازوال مثال قائم کرتے ہوئے اپنے ملک و قوم پر جان قربان کر دی “۔

زندگی کے آخری ایام میں عالم صاحب کی صحت تیزی سے بگڑنے لگی عمر بھر کی تمباکو نوشی نے آخر اپنا اثر دکھایا۔ اس عالم فانی سے عالم صاحب کی رخصتی سے چند دن پہلے مجھے ان سے ہسپتال میں ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ باوجود اس کے بعد ان کے تمام اہم اعضاءکام کرنا چھوڑ رہے تھے لیکن ان حالات میں بھی عالم صاحب کا چہرہ پرسکون اور آنکھوں کی چمک اور لبوں پر مسکراہٹ تھی۔
لاہور کی ایک شاہراہ ”ایم ایم عالم روڈ“ پہلے ہی ان کے نام سے منسوب ہے پاک فضائیہ نے بھی اپنے اس عظیم ہیرو کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے میانوالی ایئر بیس کا نام ”ایم ایم عالم بیس“ رکھ دیا۔
اگر فضائی جنگوں کی تاریخ پر نظر دالی جائے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے عناصر ہیں جو ایک غیر معمولی بہادر اور چوٹی کے فائٹر پائلٹ میں موجود ہوتے ہیں؟ تویہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہالی ووڈ کی فلموں میں دکھائے جانے والے اکثراکڑ فوں ہوا بازوں کے برعکس حقیقت میں ایک غیر معمولی جانباز اور بہادر فائٹر پائلٹ ایک جاپانیSamuri Warrior کی طرح Calm Confidence اور Supreme Fearlessness (پرسکون، پر اعتماد اورنڈرشخصیت ) کا حامل ہوتا ہے اور بقا کی جنگ میں بلاخوف و خطر بے دھڑک زندگی اور شہادت کے درمیان کی بازی کاChallenge قبول کرتا ہے۔
ایم ایم عالم، رفیقی، مڈل کوٹ اور علاؤ الدین جیسے نام ان نڈر فضائی جنگجوؤں میں ہمیشہ نمایاں اور سرفہرست ہیں اور رہیں گے۔ “
ثنااللہ نور سابق افسر ناسا ( امریکی خلائی پروگرام) اقتباس ”شان سبزو سفید“

میری آپ سے گزارش ہے کہ 12دسمبر کو پاکستانی قوم کے اس عظیم محسن کے یوم شہادت پر اس کا وائس اوور ضرور چلنا چاہیے جو کہ پاکستان ٹیلی ویژن کی ایک خوبصورت روایت رہی ہے لیکن یہ انتہائی افسوس ناک ہے کہ پاکستان ایئر فورس کے اتنے نمایاں شہید کواس کے یوم پیدائش اور یوم شہادت پرکبھی یاد نہیں کیا گیا ۔
خیر قوموں کی زندگی میں 50سال کچھ نہیں ہوتے ابھی بھی اس بے حسی اور لاپرواہی کو درست کر لیا جائے تو کچھ نہیں بگڑا ۔،اور اگر اس کے لئے متعلقہ لوگوں کو مواد چاہیے۔ تو مجھ سے رابطہ کریں میں مواد بھی مہیا کر دوں گا اوریہ کتب بھی بھجوا دوں گا ویسے یہ کتب سعید بک بینک اسلام آباد پر بھی دستیاب ہیں اور چند منٹ کا وائس اوور بھی تیار ہے آپ مجھ سے رابطہ کریں میں وہ بھی آپ کو بھجوا دوں گا۔ پی ٹی وی کی یہ چند منٹ کی سرمایہ کاری قوم کی تعمیر سازی کے لئے نہایت پراثر اور نہایت مثبت کوشش ہو گی اور اس سے پاکستانی معاشرے میں مذہبی اور معاشرتی ہم آہنگی بھی پھیلے گی۔ جس کی اس وقت ہمیں بحیثیت قوم بہت ضرورت ہے۔ حتیٰ کہ حکومت پاکستان نے اربوں روپے کے بجٹ سے ایک وزارت بھی قائم کی ہوئی ہے ۔

والسلام

اعظم معراج
کاپی برائے
1۔صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان
2۔وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان

Advertisements
julia rana solicitors

تعارف:اعظم معراج پیشے کے اعتبار سے اسٹیٹ ایجنٹ ہیں ۔13 کتابوں کے مصنف ہیںِ جن میں  ، پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار۔دھرتی جائے کیوں پرائے،شناخت نامہ،اور شان سبز وسفید نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply