فیملی پلاننگ ، ممنوع نہیں بلکہ مطلوب ہے ۔۔۔سلیم جاوید/قسط1

دعوائے مضمون یہ ہے کہ اسلام دنیا کا پہلا مذہب ہے جس نے فیملی پلاننگ کا ” کانسپٹ ” دیا ہے اور اسکی ترغیب بھی دی ہے ،اس مضمون کی کُل  3 اقساط ہیں ۔

مناسب ہے کہ پہلے دواصطلاحات بارے کلیئر ہو جائیں –

فیملی یا خاندان کسے کہتے ہیں ؟ –

فیملی مرد اورعورت کے اس جوڑے سے شروع ہوتی ہے جو میاں بیوی ہوں- یہ پہلااور بنیادی یونٹ ہے –

فیملی پلاننگ کسے کہتے ہیں ؟ –

میاں بیوی جب اپنی فیملی کے مستقبل بارے کوئی سوچ وبچار کرتے ہیں تو اس کو ” فیملی پلاننگ ” کہتے ہیں – گھرداری اور روزی روٹی سے لیکر بچے پیدا کرنے اور پالنے تک کی ساری منصوبہ بندی اس میں شامل ہے مگر اہم ترین آئٹم ” اولاد ” بارے ہوتا ہے-

اولاد سے متعلق دوچیزوں کی پلاننگ کرنا ہوتی ہے – بچوں کی تعداد بارے اور بچوں کی پرورش بارے –

آجکل چونکہ ” اولاد کی تعداد ” کا موضوع ہی چل رہا ہے لہذا زیرنظر مضمون میں بھی ” فیملی پلاننگ ” کا مطلب صرف ” اولاد کیلئے منصوبہ بندی ” لیا جائے –

چنانچہ ، ایک ” جوڑا ” جب یہ منصوبہ بنائے گا کہ ہم کتنے بچے پیدا کریں گے ؟ ( یا بالکل بچے پیدا نہیں کریں گے ) تواس مخصوص خاندانی منصوبہ بندی کو ہی ہم ” فیملی پلاننگ ” کا نام دیں گے –

قارئین کرام !

شریعت اسلام ، اصلا” دو چیزوں کا نام ہے – قرآن اور حدیث ( یا ” کتاب و سنت ” ) –

ایک نکتہ ہمیشہ یاد رکھیں – ” دین ” کا کوئی حکم کسی منطقی علت (مادی وجہ) کے بغیرنہیں ہوسکتا اور ” مذہب ” کا کوئی حکم ، منطق سے ثابت نہیں کیا جاسکتا – مثلاً ، ” سود ” ایک معاشی مسئلہ ہے جو کہ دینی ایشو ہے تواسکی منطقی علت بتائی جا سکتی ہے – ” طواف کرنا ” ایک مذہبی مسئلہ ہے تواسکی منطقی علت آپ نہیں بتا سکتے –

چونکہ آجکل آبادی کا مسئلہ ، ایک سماجی ، معاشی اور سیاسی ایشو بن چکا ہے پس یہ دین اسلام کا ایشو ہے ( نہ کہ مذہبی مسئلہ ) – چنانچہ اس بارے کوئ ” منطقی علت ” ، دنیا کے سامنے پیش کرنا ، مسلمانوں کی ذمہ داری ہے-

بچے کتنے پیدا کریں ؟ – تھوڑے ؟ زیادہ ؟ یا بالکل نہیں ؟ – اس بارے قرآن میں کوئی حکم نہیں دیا گیا – چنانچہ ، کوئی جوڑا اگر بالکل بھی بچے نہیں پیدا کرنا چاہتا توبھی اس نے کسی قرآنی حکم کی خلاف ورزی نہیں کی- ( اسکی تفصیل آگے بیان ہوگی )-

حدیث میں بچوں کی پلاننگ بارے ہدایات موجود ہیں اور یوں ، اسلام پہلا مذہب ہے جس نے اس ایشو کوایڈریس کیا ہے- ( البتہ قرآنی امرنہ ہونے کی بنا پردرجہ بندی میں یہ ” سیکنڈری ” ایشو ہے ) –

دنیا میں سب سے پہلے فیملی پلاننگ کا ورژن پیغمبرِ اسلام نے پیش کیا تھا یہ نصیحت کرکے کہ ایسی عورت سے شادی کرو جو بچے زیادہ پیدا کرے – جب میاں بیوی یہ پلان بناتے ہیں کہ ہم نے بہت زیادہ بچے پیدا کرنے ہیں تو یہ تدبیر بھی ” خاندانی منصوبہ بندی ” ہی کہلائی جائے گی -(اس وقت دنیا کے بعض ممالک میں یہی فیملی پلاننگ چل رہی کیونکہ آبادی ضرورت سے کم ہوچکی ہے)-

پیغبر اسلام نے ” زیادہ بچے ” پیدا کرنے کوکیوں کہا تھا ؟- اس دینی حکم کی علت یعنی منطق بتائی جائے؟- کوئی دینی حکم بھی ” لایعنی ” نہیں ہوسکتا اور بغیرعلت کے تسلیم نہیں کیا جا سکتا – ( صرف مذہبی احکام ہی بغیر دلیل کے مانے جائیں گے )-

گفتگو آگے بڑھانے سے پہلے، ایک مسلمان کا بنیادی عقیدہ ذکر کردیتا ہوں –

اگر کوئی جوڑا ، زیادہ بچے پیدا کرنے کا پلان بناتا ہے تواسکے لئے چاہے جو ترکیب بھی آزما لے ( ” ٹسٹ ٹیوب ” سے لے کر ” سروگیٹ مدر” وغیرہ تک ) مگراللہ کی مرضی کے بغیر کوئی روح دنیا میں نہیں آسکتی – یہ ہے عقیدہ –

اگر کوئی جوڑا ، کم بچے پیدا کرنے کا پلان بناتا ہے تو اسکے لئے چاہے جو ترکیب بھی آزما لے ( ” عزل/ کنڈوم ” سے لے کر ” رحم کے آپریشن ” وغیرہ تک ) مگر اللہ کی مرضی ہو تو کسی روح کو دنیا میں آنے سے روکا نہیں جا سکتا – یہ ہے عقیدہ –

جب بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ ماں باپ چاہے جتنی بھی پلاننگ کرلیں مگر بچے اتنے ہی پیدا ہونگے جو خدا چاہے گا تو پھر رسولِ خدا نے ایسا کیوں فرمایا تھا کہ زیادہ بچے پیدا کرو؟ – خدا کی مرضی بنا بھلا زیادہ بچے کیسے پیدا کئے جاسکتے ہیں ؟- کیا یہ خدا کے فیصلے میں مداخلت نہیں ؟

یہاں سے ثابت ہوتا ہے کہ فیملی کیلئے پلاننگ کرنا آپکی شرعی ذمہ داری ہے – اسی رسول نے ہی ہمیں سکھایا کہ ” اے ابوذر ! حسن تدبیر سے بڑھ کرکوئی  عقل مندی نہیں ” – شریعت ہی نے بتایا کہ اونٹ کا پاؤں باندھ دو اسکے بعد اسکی حفاظت بارے خدا پرتوکل کرو – انسان کو دیگر بہائم سے امتیازعقل کی بنا پرحاصل ہے – ( عقل اور توکل بارے ہم یہاں مزید گفتگو نہیں کریں گے ) –

ہم اپنے موضوع پررہتے ہیں –

بچے زیادہ پیدا کرنے ہیں یا کم پیدا کرنے ہیں – یہ فیملی پلاننگ ہی ہے – رسول نے مگرزیادہ بچے پیدا کرنے کا کہا تھا – اس بارے ہماری گذارش یہ ہے کہ جس ” علت ” کی بنیاد پر رسول خدا نے ” زیادہ بچے ” پیدا کرنے کو کہا تھا ، اسی ” علت ” کی بنیاد پرآج ” کم بچے ” پیدا کرنے مطلوب ہیں –

دینی احکام کی ” علت ” کو سمجھنا ، فقہہ حنفی کی سپشلٹی ہے – نماز اول وقت پرپڑھنے کا حکم ہے مگرفقہہ حنفی ، ظاہری الفاظ نہیں دیکھتا بلکہ حکم کی روح اورعلت کی بنیاد پراس حکم کی تشریح کرتا ہے ( اور درست تشریح کرتا ہے )-

اس سے پہلے کہ ہم حدیثِ نبی کی ” علت ” کی تشریح کریں ، کلام الہی کی ایک ایسی آیت بارے گفتگو کرنا ضروری ہوگیا ہے جسکو مولوی حضرات نے فیملی پلاننگ سے نتھی کردیا ہے – وہ آیت ہے ” لا تقتلوا اولادكم خشية املاق ” – ( اسی قسم کی دو آیات ہیں ) –

مذکورہ آیات کا ” فیملی پلاننگ ” سے کوئ تعلق نہیں – پلاننگ تو کسی وقوعہ سے پہلے کی جاتی ہے نہ کہ بعد میں – ( جنگ ہونے سے پہلے ہی جنگ کی پلاننگ کی جاتی ہے – فتح یا شکست ہونے کے بعد تو فقط نتیجہ بھگتنا پڑتا ہے ) – جب کسی کی اولاد پیدا ہوگئی اوراسکے بعد وہ اسکو قتل کرتا ہے تو یہ کوئی  فیملی پلاننگ نہیں کی جارہی بلکہ یہ ایک الگ گھناؤنا جرم کیا جارہا ہے – انسانوں کے قتل کو اگر آبادی کنٹرول کا عنوان دیا جائے توپھر ” ورلڈ وار ” کو ” ورلڈ فیملی پلاننگ ایونٹ ” کہنا چاہیے –

فیملی پلاننگ ، ایک انتظامی معاملہ ہے مگرمولوی صاحبان اسکو کفر یا حرام ثابت کرنے کیلئے قرآن کی آیت ” لا تقتلوا اولادكم خشية املاق ” سے استدلال کرتے ہیں حالانکہ اس آیت کا مروجہ فیملی پلاننگ سے کوئی  ربط ہی نہیں – ( دھکے سے ثابت کرنا الگ بات ہے ) –

اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ فقر وفاقہ کے ڈر سے اپنی اولاد کو قتل مت کرو- ( ایسی دو آیات ہیں-ایک میں لفظ ” خشیہ ” ہے اور ایک میں نہیں ہے – جس میں نہیں ہے ، وہ اس فیملی کیلئے ہے جو ہیں ہی غریب – جس میں یہ لفظ ہے تووہ اس فیملی کیلئے ہے جن کو غریب ہوجانے کا مستقبل میں خوف ہے – دونوں صورتوں میں تسلی دی گئی ہے کہ اصل رازق، اللہ ہی ہے ) –

یہ ان قرآنی آیات میں سے ہے جن میں امر اور نصیحت یکجا ہوتے ہیں – ( لاتقربو الزنا – لاتقربو الخمر- یا جیسا کہ حدیث میں ہے کہ لا تسألوا الناس شيئا) – بہرحال ، اسے حکم سمجھیں، نصیحت سمجھیں یا دونوں مگریہ آیت فیملی پلاننگ سے متعلق نہیں ہے –

ہرزبان کا بامعنی جملہ تین چیزوں کے ذکر سے مکمل ہواکرتا ہے – فاعل ، فعل اور مفعول – اسکے بعد ضمنی تفصیل ( جیسا صفاتی نام وغیرہ ) جملہ میں ڈالے جاتے ہیں جنکا ہونا بنیادی شرط نہیں ہے –

قرآن کی ہرآیت ایک مکمل جملہ ہے – مذکورہ بالا آیات میں بھی فاعل ، فعل اور مفعول موجود ہے- مگر یہ کہ ” فاعل ” یہاں محذوف ہے جبکہ فعل یعنی ” قتل ” اور سبجیکٹ یعنی ” اولاد ” واضح ہے – باقی بات ضمنی ہے یعنی ” وجہ قتل ” – اور وہ ہے ” فاعل کا فقر وفاقہ ” –

یہاں ” فاعل ” کون ہے ؟ – ہرتفسیر میں یہی لکھا ہے کہ یہاں والدین کو خطاب ہے کیونکہ اولاد کا لفظ اس پہ دلالت کرتا ہے – ہم بھی یہی عام فہم بات تسلیم کرلیتے ہیں – (ورنہ مولویوں کی طرح سادہ بات کوجلیبی بنانا ہمیں بھی آتا ہے – قرآن میں جب قول نبی لوط نقل کیا گیا کہ ” میری بیٹیاں ” استعمال کرلو اس سے بعض مولوی صاحبان نے ” قوم کی بیٹیاں ” مراد لیا ہے نہ کہ حضرت لوط کی سگی بیٹیاں – یہاں بھی مخذوف فاعل کو لےکر آپ کے دماغ کا دہی بنایا جاسکتا ہے اوریوں ” اہل علم ” سے داد سمیٹی جا سکتی ہے مگر چھوڑیئے )-

اس آیت میں ” فعل ” کیا ہے ؟- وہ ہے ” قتل کرنا “- ( اس سے قتل عمد مراد ہے ) – یاد رکھیے کہ قتل ایک زندہ انسان کا کیا جاتا ہے نہ کسی کرسی میز یا غیرجاندار چیز کا –

اس آیت میں ” سبجیکٹ ” کیا ہے ؟ – وہ ہے ” اولاد ” – یہ ” ولد ” سے نکلا لفظ ہے یعنی وہ مخلوق جو مادر رحم سے باہرنکل آئے – ( خدا نہ تو خود ” ولد ” ہوا ہے اورنہ کسی کو ” ولد ” کیا ہے )- ایک بچہ جب تک رحم مادر سے تولد ہوکر باہر نہیں آیا ، وہ اولاد نہیں کہلائ جاسکتی – (” وجہ قتل ” کی بات بعد میں کریں گے)-

بس آپ مذکورہ آیت کے دو بنیادی لفظ ( فعل اور مفعول ) یاد کرلیں جس پرہمارا سارا مقدمہ بنے گا-

ایک ہے ” تقتلو ” – دوسرا ہے ” اولاد ” –

آج تک دنیا میں فیملی پلاننگ کے جو بھی طریقے آزمائے گئے ہیں ، انکو تین مراحل پر تقسیم کیا جاسکتا ہے –

مروجہ فیملی پلاننگ کا پہلا مرحلہ :

سمجھدار مرد وعورت ، جنسی ملاپ سے پہلے ہی احتیاطی تدابیر کرلیتے ہیں – اگر یہ تدابیر ، میڈیکلی مسئلہ نہیں تو یہ گویا ” سپرمز ” کا زیاں کرنا ہوا – ( جیسا کہ جنسی عمل کے علاوہ بھی کروڑوں سپرمز احتلام وغیرہ کے ساتھ ضائع ہوجایا کرتے ہیں)- ہرایک سپرم کوانسانی شکل میں بارآور کرانا نہ تو شرعی تقاضا ہے اور نہ ہی یہ ممکن ہے –

اب اس پہلے مرحلے کو قرآن کی مذکورہ آیت کے تناظر میں دیکھیے –

کسی نے اپنا سپرم ضائع کر دیا – یہ مادہ یعنی سپرم ، نہ تو انسان ہے کہ اسکا ضائع کرنا ” قتل ” کہلائے اور نہ ہی یہ ” اولاد ” ہے – پس اس مرحلے پر مذکورہ آیت کی دونوں بنیادی ٹرمز لاگو نہیں ہوتیں – نہ ” تقتلو ” اور نہ ہی ” اولادکم ” – اس مرحلے پراس آیت کا اطلاق نہیں ہوتا-

مروجہ فیملی پلاننگ کا دوسرامرحلہ :

بعض لوگوں کو ذرا دیر سےعقل آتی ہے اور جب حمل ٹھہرجاتا ہے پھر وہ ” اسقاط حمل ” کراتے ہیں – اسقاط حمل اوراسقاط بچہ میں فرق ہے – حمل کے بعد چار ماہ تک گوشت کا لوتھڑا( جنین) رہتا ہے اسکے بعد روح داخل کی جاتی ہے تو اسے بچہ کہا جاتا ہے- (جدید ریسرچ کہتی ہے کہ تین ہفتہ تک ہی جنین رہتا ہے اور اسکے بعد آکسیجن لینا شروع کردیتا ہے)-

اگرکوئی میڈیکلی مسئلہ نہیں تو جنین کو ضائع کرنا بھی کوئی جرم نہیں -(ہاں اخلاقی کمزوری ضرور ہے – جیسا کہ ایک فقیر کو جھڑک کرخالی ہاتھ لوٹانا ایک اخلاقی جرم ہے مگر قانونا” آپ خیرات دینے کے پابند نہیں ہیں-

اب اس دوسرے مرحلے کو قرآن کی مذکورہ آیت کے تناظر میں دیکھیے –

کسی نے اپنا جنین ضائع کردیا – یہ گوشت کا لوتھڑا یعنی جنین ، نہ تو انسان ہے کہ اسکا ضائع کرنا ” قتل ” کہلائے اور نہ ہی یہ ” اولاد ” ہے – پس اس مرحلے پر بھی مذکورہ آیت کی دونوں بنیادی ٹرمز لاگو نہیں ہوتیں – نہ ” تقتلو ” اور نہ ہی ” اولادکم ” – اس مرحلے پربھی اس آیت کا اطلاق نہیں ہوتا –

مروجہ فیملی پلاننگ کا تیسرامرحلہ:

ماں کے پیٹ میں چار ماہ ( یا کم وبیش ) بعد بچہ زندہ ہوجاتا ہے – بعض لوگ ایسے کم عقل ہوتے ہیں کہ اب اس بچے کو گرا دینا چاہتے ہیں – ( یعنی ماردینا چاہتے ہیں ) – یہ بچہ، اگرچہ ابھی رحم مادر سے تولد نہیں ہوا مگرزندہ انسان کے حکم میں ہے – اسکو مارنے   والا بیوقوف چاہے اپنے تئیں فیملی پلاننگ ہی کررہا ہے ، مگر اب ایک قابل مواخذہ جرم بھی کررہا ہے – اس کے باوجود ، مذکورہ آیت یہاں بھی لاگو نہیں ہوتی –

اس تیسرے مرحلے کو قرآن کی مذکورہ آیت کے تناظر میں دیکھیے –

کسی نے اپنا چھ ماہ کا  زندہ بچہ ناحق گرا دیا تو اس نے ایک انسان کا قتل کیا ہے – مگر چونکہ ابھی یہ بچہ پیدا نہیں ہوا تو اس بچہ کو عربی لغت کے ہنگام ، ” اولاد ” کا نام نہیں دیا جاسکتا ہے – (باقی جو نام بھی دیں)- چنانچہ اس مرحلے پرمذکورہ آیت کی ایک بنیادی ٹرم یعنی ” تقتلو ” تو لاگو ہوگئی مگر دوسری ٹرم ” اولادکم ” لاگو نہیں ہوتی ، پس یہاں بھی اس آیت کو ثبوت نہیں بنائیں گے –

فیملی پلاننگ کے تینوں مراحل ختم ہوگئے – بچہ پیدا ہونے کے بعد اسکو بھوک کے ڈر سے قتل کرو تو یہ وہ جرم ہے جس بارے مذکورہ آیت نازل ہوئی  مگر ظاہر کے اس مرحلے پر اسکو فیملی پلاننگ نہیں کہتے –

یاد رکھیے کہ جس زمانے میں یہ آیت نازل ہوئی ، اس زمانے میں بھوک ( یا کسی اور وجہ) سے اگر بچے کم پیدا کرنے کا کسی کو خیال بھی ہو تو اسکی صرف دو ہی صورتیں مروج تھیں- یا توعزل کرے یا پھر بچہ پیدا ہونے کے بعد اسکو قتل کردے – عورت کے رحم کے اندر سے سپرم یا حمل گرادینے کی محفوظ ٹکنالوجی بہرحال ، زمانہ جدید کی تکنیک ہے لہذا تاریخی اعتبار سے بھی اس آیت کا فیملی پلاننگ کے دوسرے یا تیسرے مرحلے سے کوئی تعلق نہیں بنتا – ( پہلے مرحلے کے جواز کے ویسے ہی سب قائل ہیں)-

ہم مگر تاریخی روایات کی بجائے ، لغوی اور منطقی پہلو سے ہی قانونی تشریح کریں گے کیونکہ قانونی بحث کا یہی انداز ہوا کرتا ہے – خاکسار کو احساس ہے کہ بحث کسی حد تک بوجھل ہوگئی ہے مگر کیا کریں؟ – ایک قانونی نکتہ حل کرنا ہے- اسکو جتنا بھی سادہ بنائیں مگرایک حد تک جزئیات پر بات کرنا ہی پڑتی ہے-

جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors

پاک سیکولر

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply