ایک منظر دو کہانیاں۔۔عامر عثمان عادل

اس تصویر کو دیکھیے۔۔
ڈھلتا سورج ، شام کے گہرے سائے سرد ہواؤں کا زور، گلابی فراک پہنے گڑیا بیکری سے من پسند چاکلیٹس کھلونے لئے کار میں رکھ کر اب اپنے عزیز کی انگلی تھامے مٹکتی ہوئی  ریسٹورنٹ کی جانب جارہی ہے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس عالیشان ریسٹورنٹ کے سامنے سڑک کنارے ایک پتھر پہ بیٹھی دوسری  گڑیا نیلے رنگ کے باریک سے دوپٹے سے سر کو ڈھانپے ہاتھ میں ٹشو پیپر کے منی پیکس تھامے،
ان دونوں کی عمروں میں کچھ زیادہ نہیں لیکن مقدر میں زمین آسمان کا فرق ہے
صرف مقدر نہیں ان دونوں کی دنیا بھی الگ الگ ہے۔
ایک نے کھاتے پیتے گھرانے میں جنم لیا جہاں اس کے ناز اٹھانے کو چھوٹے بڑے بے تاب،
دوسری اس بد قسمت گھرانے میں پیدا ہو گئی جہاں حسرتوں کا راج ہوتا ہے کسے فرصت کہ اس کے ناز اٹھائے۔
ایک کے بابا یا تو یورپ کے کسی ملک میں مقیم ہوں گے یا یہاں کے کروڑ پتی،
دوسری کے بابا اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں اور اب محض ایک عضو معطل ، دھرتی کا بوجھ۔۔۔
برانڈڈ فراک ، وولن جرسی میں ملبوس بچی کی ماما گھر کی رانی ہیں پیسے کی ریل پیل ، گھر پہ کام کرنے والوں کی لائن شاپنگ آوٹنگ ڈائننگ سارے شوق سلامت اور اپنی لاڈو رانی کے ناز اٹھانے کے لیے فراغت ہی فراغت۔۔
دوسری کی ماما کی صبح کیسے ہوتی یے رات کا بچا کھچا گرم کر کے سب کو دیا اور خود بڑی بیٹی کو ساتھ لئے دوسروں کے گھروں میں کام کے لئے نکل پڑی ایک گھر اس سے اگلا پھر تیسرا ، چوتھا یونہی گھر گھر پھرتے شام ہو جاتی ہے۔
ایک نے بیکری سے جی بھر کر اپنی پسند کی چیزیں خرید لیں اب ریسٹورنٹ کا رخ کیا جہاں انواع و اقسام کے گرما گرم کھانے اس کے منتظر،
دوسری اسی ریسٹورنٹ کے باہر شدید سردی میں ایک پتھر پہ بیٹھی آتے جاتے اپنے جیسی بیسیوں بچیوں کے گلنار چہروں کو ایک حسرت سے تکے جاتی ہے،ہر جانے والی گاڑی کے پیچھے لپکتی فریاد کرتی ہے کہ صاحب مجھ سے ٹشو پیپر خرید لو،کوئ نظر انداز کرتا ، کوئی  دھتکار دیتا،اور کوئی  ترس کھا کر دس بیس روپے تھما کر یہ جا وہ جا۔۔
کوئی ہو گا بیٹیوں والا جو کسی دن ریسٹورنٹ جاتے ہوئے اسے بھی ساتھ لے جائے اپنی بیٹیوں کے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلائے،کوئی  ہو گا سخی جو پُرتکلف کھانے پر ہزاروں خرچ کر کے اٹھے اور اس بچی کے گھر والوں کے لئے ہزار دو ہزار کا کھانا پیک کرا لے،اپنی گڑیا کی انگلی تھامے بیکری میں داخل ہوتے کسی کے قدم رک جائیں گے اس کے پاس اور پھر اسے بھی بیکری میں لے جا کر پوچھے بولو گڑیا رانی کیا پسند ہے ؟
یہ طبقاتی امتیاز مٹے نہ مٹے
امیر غریب کے بیچ یہ دیوار چین گرے نہ گرے
کوئی  آگے بڑھ کر ان بیٹیوں کے سر پہ ہاتھ رکھ دے
دوستو ! دعا کرو
کوئی  ماں اپنی مجبوریوں کے ہاتھوں اتنی بے بس نہ ہو جائے کہ اپنی گڑیا کو ہاتھ پھیلانے کے لئے گھر کی دہلیز پار کرا دے
ربا سچیا
ان بچیوں کی عزتوں کا تو ہی رکھوالا ہے!

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply