ربا سوہنیا جیویں تری مرضی۔۔۔عامر عثمان عادل

آج سکول سے واپسی پر گھر کے لئے روانہ ہوا تو کالی گھٹائیں نیلے آسمان پہ منڈلانے لگیں۔ مطلع ابر آلود تھا ۔
جونہی قطب گولڑہ گاؤں کے پاس سے گزرا ایک دم موسلا دھار بارش شروع ہو گئی ۔ بارش اس قدر طوفانی تھی کہ سامنے کچھ بھی دکھائی  نہیں دے رہا تھا ۔ وائپر تھا کہ مسلسل حرکت میں ۔ پہلے پل پر پہنچا تو تھوڑے فاصلے سے ایک بوڑھی خاتون سڑک کنارے پریشان کھڑی دکھائی  دیں۔ تصور کیجیے اس قدر شدید بارش، گُھپ  اندھیرا اور دور دور تک کوئی  اوٹ نہ پناہ ،جہاں یہ بیچاری خود کو بارش سے بچا پاتیں ۔ میں نے گاڑی ریورس کی، بریک لگائی  اور یہ خاتون جھٹ سے دروازہ کھول کر سیٹ پر تشریف فرما ہو گئیں۔ گاڑی آگے بڑھی تو بارش اور زیادہ تیز ہو گئی  ۔ یہ کیا اب تو اولے بھی پڑنے لگے ۔ آسمان سے گولی کی طرح گرنے والے اولے گاڑی کے ساتھ ٹکراتے تو زوردار آواز گونجتی ۔
طوفانی بارش اور ژالہ باری دیکھتے ہی اماں جی کے منہ سے بے اختیار نکلا۔۔
ربا سوہنیا جیویں تری مرضی
تری گناہگار مخلوق ترے فیصلیاں تے راضی
میں نے عقبی آئینے سے دیکھا تو یہ جملے ادا کرتے ہوئے ماں جی کے چہرے پہ سکون طمانیت کے رنگ تھے جو اپنے مالک و خالق سے محبت اور ایمان کی پختگی کی روشنی لیے تھے۔
اور میں تھا کہ دل ہی دل میں نادم،رُتوں کے یوں بدلنے اور مہربان برکھا کے وحشی ہونے تک کے مراحل مجھے کیوں اس انداز میں سوچنے کی تحریک نہیں دے پائے کبھی،
کیا اس وجہ سے کہ میرا ایمان ابھی پختگی کی اس منزل کو نہیں پہنچا اور شاید یہ کہ چار جماعتیں پڑھ کے بھی اپنے رب کی رضا پر راضی ہونے کا وہ سبق مجھے ازبر نہیں ہو پایا جو مجھے ماں جی نے سکھا دیا
انہی سوچوں میں گم تھا کہ آواز آئی ،
پتر جی مینوں گلیانہ قینچی تے لا چھڈیو
میں گویا ہوا ماں جی ہمارے بزرگ تو دنیا سے اٹھ گئے آپ جیسوں کو دیکھتے ہیں تو آپ میں انکے چہرے دکھتے ہیں
منگلیہ چوک پر گاڑی روکی
ماں جی اترتے ہوئے دنیا بھر کی دعائیں ایک ہی سانس میں اس عاجز و کم نوا کی جھولی میں ڈال گئیں
پترا تری وی خیر تے تری گڈی دی وی خیر
اللہ تینوں کسے شے دی تھوڑ نہ دیوے ترے بچیاں دی خیر
نم ہوتی ہوئی  آنکھوں کے گوشے پونچھتے ہوئے مجھے اپنا آپ بہت چھوٹا لگنے لگا کہ میں نے ایسا کیا کر دیا کہ ماں جی نے ڈھیر ساری دعائیں دے ڈالیں
یہ سادہ سے لوگ دل کے کتنے سخی ہوتے ہیں بے ریا محبتوں کے مالک ہر طرح کے Manners سے آشنا۔اور یقین جانیں ان بزرگوں کا ساتھ کتنا برکت والا ہوتا ہے انسان خود کو مضبوط سمجھنے لگتا ہے ان کے وجود سے اٹھتی ہوئی  شفقت احساس اور تحفظ کی مقناطیسی لہریں ہمیں اپنی لپیٹ میں اس طرح لے لیتی ہیں کہ ہم خود کو بدلا ہوا محسوس کرنے لگتے ہیں۔
دوستو !
جسے اپنے گھروں میں ان بزرگوں کے وجود کا بابرکت سایہ نصیب یے وہ بلا شبہ خوش نصیب ہے جی بھر کے محبت و شفقت کے ان چشموں سے فیض یاب ہوا کرو
اور ہاں !
ہر گھڑی اپنے رب کی لازوال نعمتوں کا شکر کیسے ادا کیا جاتا ہے اس کے ہر فیصلے کے سامنے جبین نیاز کو کیسے جھکایا جاتا ہے اور رب کی رضا پر راضی ہو جانے کی ادا کیسے اپنائی  جاتی ہے یہ سب مجھے آج ماں جی نے ایک جملے میں سکھا دیا۔۔
ربا سوہنیا جیویں تری مرضی!

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply