پشتین سازش کی اصلی کہانی۔۔۔ انعام رانا

میں اک میٹنگ میں تھا جب فون مسلسل بجنے لگا۔ بلوندر سنگھ پرانا یار ہے اور خالصتان کا پرستار ہے۔ تین بار تو اگنور کیا مگر چوتھی بار بجا تو سوچا ضرور بلوندر یا تو پکڑا گیا ہے یا پھر کوئی پکڑے جانے والی حرکت کرنے لگا ہے سو اٹھا لیا۔ بلوندر نے ست سری اکال کا نعرہ مارا اور کہا “پا جی ہر صورت اگلے اک گھنٹے میں کنگ جارج پب پہنچو، آپ کے کام کا بندہ ہے اور ملاقات ضروری ہے”۔ ابھی میں اگلا سوال سوچ ہی رہا تھا کہ فون بند ہو گیا۔ جلدی سے میٹنگ نپٹائی اور پب کو گاڑی دوڑائی۔ فقط پینتالیس منٹ میں ہی میں بلوندر اور اک اجنبی کے سامنے بیٹھا تھا اور دونوں ہی سرور کی اس کیفیت میں تھے جہاں خود کو خود کی خبر بھی کم ہی ہوتی ہے۔

تعارف ہوا تو اجنبی، چلئیے نام میں کیا رکھا ہے تو کانتی راو کہہ لیتے ہیں، ہندوستان سے آیا تھا، اک ہندوستانی ایجنسی پشتون ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کا ڈائرکٹر تھا اور بلوندر نے یہ کہہ کر میری دلچسپی اور بڑھا تھی کہ راو آجکل افغانستان میں تعینات ہے۔ اسکا کچھ قانونی مشورہ تھا جو میں نے اسے فورا بتا دیا اور اپنے مسلئے کے اتنے آسان حل پہ وہ اتنا خوش ہوا کہ بلوندر کی نا کے باوجود خود بیئر لینے چلا گیا۔ اسکے جاتے ہی میں نے کہا “اوئے سردارا، مجھے یوں بھگا کر یہاں مفت مشورے کیلئیے بلایا ہے؟” بلوندر نے سرگوشی میں کہا “پا جی، یہ تو بہانہ تھا۔ بندہ افغانستان میں ہے اور آپکے کام کی خبر ہے۔ اس سے پشتون موومنٹ کا پوچھیئے، ہوش اڑ جائیں گے”۔ اتنی دیر میں راو گلاس اٹھائے ہوے آ گیا۔ بلوندر نے راو سے کہا کہ “رانا پا جی وکیل ہیں پر اک سائیٹ بھی چلاتے ہیں۔ پشتون موومنٹ کے بھی بہت حامی ہیں”۔ راو جو نشے میں دھت تھا، یکدم چونک کر مجھے دیکھنے لگا۔ بولا، تم پشتون ہو؟ میں نے کہا نہیں راجپوت ہوں، پر انکا حمایتی ہوں۔ بولا کیوں؟ اب مجھے اپنے ڈائلاگز کا اندازہ تھا سو پاک فوج کو دس بیس گالیاں دیں اور کہا ان کے خلاف تو کتا بھی بھونکے تو میں ساتھ ہو جاتا ہوں۔ راو کو اپنی فوج دشمنی کا یقین دلانے میں جلد ہی کامیابی ہوئی کیونکہ سرور کے جس مقام پہ وہ تھا، انسان کافی معصوم سا ہو جاتا ہے۔ راو نے مایوس سا ہو کر کہا ہاں مگر سالا رزلٹ بہت اچھا نہیں ہے، بہت سلو سپیڈ ہے، ابھی پرسوں جنرل جگجیت نے بہت اپمان کیا ہے میرا اس بات پر۔ میں نے ہمدرد سا لہجہ بنا کر کہا پر آپ کا کیا قصور راو سا۔ “راو سا” کہہ کر اسے جو راجپوت بڑے کی عزت میں نے دی اس نے راو کو مزید موم کر دیا۔ بولا بھئی پراجیکٹ سارا میرے ذمہ ہے تو ہائی کمانڈ کو جواب بھی مجھے ہی دینا ہوتا ہے نا۔ “ارے واہ راو سا۔ مگر پرفارمنس تو کمال ہے، فوج کی بینڈ بجا دی ہے لڑکے نے، اور ہائی کمانڈ کو کیا چاہیے؟” راو نے لمبا سا گھونٹ بھرا اور بولا ہاں مگر سلو ہے، سالا ہتھیار نہیں اٹھا رہا۔” میں نے کہا راو سا فوج کے خلاف ہتھیار اٹھانا تو مشکل ہی ہوتا ہے، آپ نے لڑکے سے اب تک جو کرا لیا ہے، وہی بڑا کارنامہ ہے۔ ویسے کرایا کیسے؟ اب راو جو نیم مدھوش تھا اور میرا راجپوت اور فوج مخالف ہونا مان چکا تھا، مشین کی مانند شروع ہو گیا۔

راو کے مطابق کہانی شروع ہوئی اک خلیجی ملک میں۔ انجینیئر احسان اللہ نامی پشتون راو کے سالے کی بیوی کا دوست تھا جو پشتون قوم کے حقوق کیلئیے بہت مضطرب تھا اور سالے کے زریعے راو کا بھی دوست بن گیا۔ جب لوہا گرم ہوا تو راو نے پشتون قوم کی مدد کی خواہش ظاہر کی اور اک پشتون کانفرنس کا ڈول ڈالا گیا۔ راو کے مطابق پاکستان سے کچھ لوگوں کو بلایا گیا جنھوں نے دبئی میں پشتون کانفرنس میں شرکت کی۔ انجینیئر احسان اللہ نے اسے دو سوشل میڈیا سٹارز سے ملایا۔ ایک تھے اپنے فرنود عالم اور دوسرے ظفر اللہ خان عرف ید بیضا۔ یہ نام سنے تو میں چونک گیا۔ میں نے کہا راو سا ان تینوں کو تو میں جانتا ہوں، مگر یہ تو پاکستانی آئین پہ یقین رکھتے ہیں۔ راو نے اک کمینی سی ہنسی ہنسی اور بولا ، ان جتنا یقین پاکستانی آئین پہ مودی جی بھی رکھتے ہیں۔ خیر اب ٹوکے بنا پورا قصہ سنو۔

راو کے مطابق ان دونوں سے دوستی ہوئی۔ کچھ عرصے بعد انکو دوبارہ دبئی بلایا گیا اور راو نے اپنا منصوبہ پیش کیا۔ تینوں منصوبے سے بہت خوش ہوے۔ راو نے اس منصوبے کیلئیے انکو اک پشتون سیاستدان کے تجویز کردہ لڑکے منظور پشتین کا نام دیا۔ راو کے بقول اس موقع پہ معاملہ بگڑنے لگا۔ فرنود عالم نے کہا کہ اس تحریک کی قیادت ایک لڑکی کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ پشتون سماج کو اب روایت سے مکمل بغاوت کرنا ہو گی، کب تک عورت اک مقلد بنی رہے گی، اب ہمیں عورت کو امام بنا کر اسکا مقلد بننا ہو گا۔ راو کے بقول یہ سنتے ہی اسکے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ اس نے فرنود کو سمجھایا کہ اگر پشتون تحریک کی قیادت عورت نے کی تو پشتون اکثریت میں دلچسپی ہی پیدا نہیں ہو گی۔ اس لئیے اک خوبصورت لڑکے کا ہونا ضروری ہے۔ راو کے بقول دو دن لگے اسکو فرنود عالم کو اس بات پر منانے میں۔ مگر ابھی اک مشکل باقی تھی۔ ظفر اللہ خان نے اصرار کیا کہ لیڈر بلوچستان سے ہونا چاہیے۔ اس کا کہنا تھا کہ بلوچستان کو ہمیشہ پیچھے رکھا جاتا ہے، ہم اب کی بار کارکن نہیں لیڈر بنیں گے۔ پاکستان نے ہمیشہ بلوچوں کی حق تلفی کی ہے، کیا فائدہ ایسی سازش کا اگر اس میں بھی بلوچستانیوں کی حق تلفی ہو۔ راو کے بقول وہ تین دن ظفر اللہ خان کو مختلف پبوں اور بیچز پہ سمجھاتا رہا مگر وہ بس سگریٹ پیتا اور اخیر میں غالب کا کوئی مشکل سا شعر سنا کر انکار کر دیتا۔

مین نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ ظفر آپ کے منصوبے سے نکل گیا؟ راو نے کمینی سی ہنسی نکالی اور بولا نہیں، اسکا علاج کر لیا گیا۔ میں نے کہا کیسے؟ بولا فرنود نے جب سب معاملہ خراب ہوتا دیکھا تو مجھے آنکھ ماری۔ اگلے دن دونوں پاکستان چلے گئے مگر مجھے یقین تھا کہ جو آنکھ ماری ہے کوئی حل نکالے گی۔ پانچ دن بعد فرنود نے میری ایک وسی بابا نامی بندے سے بات کرائی۔ بہت ڈرپوک آدمی تھا۔ تحریک کا حصہ بننے پہ تو راضی نہیں تھا لیکن اک کام کرنے کو مان گیا۔ معاوضہ دو ٹرک تربوز یعنی دوانے طے ہوا۔ تین ہی دن بعد ید بیضا کو اچانک دل میں تکلیف ہوئی۔ سارا انتظام مکمل تھا۔ دوران علاج ہمارے زرخرید ڈاکٹر نے ید بیضا کو ایسا ٹیکہ لگایا کہ وہ خود کو فاٹا کا پشتون سمجھنے لگا اور بلوچستان بلکل بھول گیا۔ اب اسے کسی فاٹا کے قبائلی کے پشتون تحریک کا لیڈر بننے پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ مناسب موقع ملتے ہی ہم نے تحریک لانچ کر دی اور پھر باقی سب تاریخ ہے۔

میں نے کہا مگر یہ سب تحریک سوشل میڈیا کے زریعے ہے۔ کیا آپکو نہیں لگتا کہ سوشل میڈیا پہ کچھ اور پشتون لکھاری ایسے ہیں جو اسکا راستہ روک سکتے ہیں۔ راو ہنسا اور بولا کون؟ میں نے فخر سے کہا کہ عارف خٹک ہے، وہ ہمیشہ کسی نسلی تعصب کی لہر کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے۔ راو نے پہلی بار اک زوردار قہقہ لگایا۔ بولا “ہاں اس کا ڈر تھا۔ ہمیں فرنود، احسان اور ظفر نے اس سے خبردار کیا تھا۔ مگر ہم نے اسکا علاج کر لیا۔” کیسے راو سا؟ میں نے بے یقینی سے پوچھا۔ بولا ہم نے ایک سو تیس کلو کی اک عورت دھونڈی اور عارف خٹک سے ٹکرا دی۔ اگلے دن ہمارے پاس اک وڈیو تھی۔ اب شیر کی جان اک وڈیو میں بند ہے۔ وہ کچھ نہی کرے گا۔ بس اک مسلئہ ہے کہ کبھی کبھی ٹریک سے اتر جاتا ہے۔ کہتا ہے کہ رائل گاندھی دو ورنہ میں مخالفت شروع کر دوں گا۔راہل جی سے بنتی کی ہے مگر وہ کہتے ہیں بھارت ماتا کیلئیے میرے باپ کی قربانی ہی کافی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں نے کہا راو سا، سب منصوبہ تو کمال کا ہے، پھر آخر مسلئہ کیا ہے؟ خوش کیوں نہیں۔ راو نے بہت افسردہ سا چہرہ بنایا، گلاس کا باقی پانی اک ہی گھونٹ میں خالی کیا اور بولا مسلئہ یہ ہے کہ ہم نے بیک گراونڈ چیک تفصیلی نہیں کیا۔ منظور آرمی پبلک سکول کا ہے، جب بھی معاملہ مکمل ہمارے ہاتھ آنے لگتا ہے، اچانک وہ فوجی سکول کا بچہ بن جاتا ہے اور کہتا ہے “ام ہتھیار نہیں اٹھائے گا، یہ سالا پنجابی فوج جیسا بھی ہے، امارا استاد ہے”۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”پشتین سازش کی اصلی کہانی۔۔۔ انعام رانا

  1. ہاہاہا۔ بہت عمدہ سارے راج دلاروں کو کرپٹ میں فٹ کر دیا۔ یہ آپ کا ہی خاصہ ہے سر۔ لیکن مذاق مذاق میں ہی سہی یہ تو بتا دیا کہ کچھ تانے بانے ہمسائیہ ملک سے ملتے ضرور ہیں۔ پائی بلوندر سنگھ کو ہماری طرف سے بھی ست سری اکال۔

Leave a Reply