• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • امریکہ کا جھوٹ بھی سچ نما کی صورت سامنے آتا ہے۔۔۔اسد مفتی

امریکہ کا جھوٹ بھی سچ نما کی صورت سامنے آتا ہے۔۔۔اسد مفتی

امریکہ میں قرض لینے کی حد میں اضافے سے متعلق بل پر ڈیموکریٹس اور ریپبلکن راہنما متفق ہوگئے ہیں،اور قرض بڑھانے سے متعلق معاہدے کو ایوان نمائندہگان میں منظور کرلیا گیا ہے،امریکی صدر کے نمائندے نے بتایا ہے کہ اس بل کے تحت اخراجات میں ایک ٹریلین ڈالر کی کمی کی جائے گی،قرض کی حد بڑھانے اور اخراجات میں 2.1 کھرب ڈالر تک اضافے سے متعلق بل منظور کرلیا گیا ہے۔یہ بل 161کے مقابلے میں 169ووٹوں کی برتری سے منظور کیا گیا ہے۔

اس وقت امریکہ دنیا کی سب سے بڑی فوجی،اقتصادی،اور سیاسی پاور ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک بن گیا ہے،امریکی قرضے 143 کھرب ڈالر سے تجاوز کرچکے ہیں،اور اگر اب بھی امریکی حکومت کی قرض لینے کی حد میں اضافے میں منظوری نہیں دی جاتی تو امریکی وزارتِ خزانہ کے پاس ادائیگیوں کے لیے رقم تک نہ ہوتی،یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں بے مقصد لڑنے والے فوجیوں (امریکیوں)نے ایڈمرل مائیک مولن سے پوچھاتھا کہ کیا انہیں اس ماہ کی تنخواہ ملے گی؟۔۔اس پر افغانستان کے دورے پر گئے ہوئے امریکی جوائنٹ چیف آف سٹاف کا کہنا تھا کہ اگر امریکی حکومت نے قرض لینے کی حد نہیں بڑھائی تو وہ نہیں جانتے کہ کیا ہوگ۔

یہ سچ ہے اگر قرض کی حد بڑھانے سے متعلق بِل ایوان نمائندگان میں منظور نہ کیا جاتا تو پوری دنیا ایک بار پھر اقتصادی بحران کی زد میں آسکتی تھی۔امریکی اقتصادی بحران کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت مانے جانے والے امریکہ پر فی سیکنڈ 40ہزار ڈالر کا قرض بڑھ رہا ہے،آپ کو یاد ہوگا،مجھے تو اچھی طرح یاد ہے کہ اس سے قبل 2008میں مالی اور اقتصادی بحران کا آغاز امریکہ سے ہوا تھا،جسے دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا،ایک کار خریدو توایک مفت میں ملتی تھی،مشرقِ وسطیٰ میں لوگ اپنی کاریں ائر پورٹ پر چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔

امریکی وزارتِ خزانہ کی ایک رپورٹ کے مطابق حکومتی خزانے میں نقد رقم صرف 73ارب 70کروڑ ڈالر رہ گئی ہے،اور اگر ۲ اگست تک امریکی حکومت کی قرض لینے کی حد میں اضافہ کی منظوری نہیں دی گئی توحکومت کو اپنے واجبات کی ادائیگی کے لیے رقم کی شدید کمی کا سامنا ہوگا،اورامریکی حکومت دیوالیہ قرار دے کر نادہندہ ہوسکتی ہے۔

یہاں ایک دلچسپ بات بتانی ضروری ہے کہ دنیا کے امیر ترین ملک امریکہ کے خزانے(اگر آپ اسے خزانہ کہہ سکتے ہیں تو)اتنے ڈالر بھی نہیں ہیں،جتنے کمپیوٹر ایپل کمپنی کے پاس ہیں،امریکی رنیرو بینک میں 73.76ارب ڈالر رہ گئے ہیں،جبکہ ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک بڑا نام ایپل کمپنی کی تجوری میں نقد رقم 75.87ارب ڈالر تک جاپہنچی ہے۔
کچھ عرصہ قبل سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی کے جب بی کے ایک اہم معاشی تجزیہ نگار ڈیگور پینارین نے ریاست ہائے متحدہ کے بارے میں پیشن گوئی کی تھی،کہ2015سے 2025تک امریکہ چھ خودمختار ریاستوں میں تبدیل ہوسکتا ہے،نیز روس اور چین دنیا کے نئے مگر اہم کھلاڑی ہوں گے،ماسکو ڈپلومیٹ اکیڈمی میں مستقبل کے سفارت کاروں سے اپنے خطاب میں اس تجزیہ نگار نے دعویٰ کیا تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ رواں برس ایسے نئے لاء کے نفاذ کا اعلان کرسکتے ہیں،اور آئندہ سال سویت یونین کی طرح امریکہ کی بھی ٹوٹ پھوٹ شروع ہوجائے گی،امریکہ میں قرضوں کے بحران کی وجہ سے دیوالیہ ہونے کا خطرہ پہلی بار نہیں ہوا،ایسا اس سے قبل 1790،پھر1933پھر ایک جزوی مالی بحران 1973اور پھر سابق صدر جارج بش کے آخری دور 2008میں اقتصادی بحران اپنے پنجے گاڑ چکا تھا۔اس بحران نے تو امریکی ٹیکس دھندگان کو گھروں سے بے گھر کرکے فٹ پاتھ پر لا بٹھایا تھا،لیکن جارج بش نے دنیا کوجنگوں کی آگ میں جھونکے رکھا۔۔یہی وجہ ہے کہ آج خود امریکی سیاستدان اپنے ملک کی ان جنگ جُو قسم کی پالسییوں سے بے زاری کا کھلم کُھلا اظہار کررہے ہیں،امریکہ کے سابق انٹیلی جنس چیف ڈینس بلئیر نے کہا تھا کہ محض ۴ ہزار دہشتگردوں کی پکڑ دھکڑ کے لیے سالانہ80ارب ڈالر خرچ کیے جارہے ہیں،انہوں نے جبکہ اسی عرصے میں ٹریفک کے حادثات اور دوسرے جرموں میں 15لاکھ امریکی مارے جاچکے ہیں،علاوہ ازیں امریکی فوج کی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھاکہ امریکہ کی جانب سے افغاستان میں نقل و حمل کے لیے خرچ کیے جانے والے اربوں ڈالربلاواسطہ طریقے سے طالبان کی جیبوں میں جارہے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوج کوبحفاظت رسد پہنچانے کے لیے کانٹریکٹ کمپنیوں میں کم از کم چار کمپنیوں کا کچھ حصہ طالبان اور قبائلی سرداروں کو دیا جاتا ہے،امریکہ کی جانب سے افغانستان کی معیشت کو فروغ دینے اور نقل و حمل کے لیے لگ بھگ ڈیڑھ ارب ڈالر کے معاہدے کیے گئے ہیں۔

گزشتہ ماہ شائع شدہ امریکی رپورٹ کے مطابق7.3ٹریلین ڈالر یعنی قرض کے ایک تہائی حصے کواگر سابق امریکی جنگجو صدور اور حکومتیں غور و فکر اور تدبر و فراست اور صحیح انتظامی حکمتِ علمی سے کام لیتے توبچایا جاسکتا تھا،امریکہ کی عراق اور افغانستان میں “جنگ بازی”سے نہ صرف اس کی معیشت تیزی سے تباہی کی طرف گامزن رہی بلکہ اس کے اثرات (منفی)لگ بھگ پچاس امریکی ریاستوں پر بھی مرتب ہوئے اور اس کی بنیادی وجہ اس قرض ہے،اسی قرض کی وجہ سے بد انتظامی اور غلط طرزِ عمل کا اختیار کرنا اور فوجی کارروائیوں کو اپنی خارجہ پالیسی کامحور بنا لینا ہے،جس نے اس کے سینکڑوں ٹریلین سرکایہ کوبغیر ڈکار مارے ہضم کرلیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

میرے حساب سے اگرموجودہ حالات میں اس پر ناگفتہ بہ معیشت کو قابو نہیں کیا گیا تواس آگ کی چنگاریاں دور دور تک پہنچیں گی او ر اس کے اثرات پوری کائنات)جی ہاں ،پوری کائنات)کی اقتصادیات کو متاثر کیے بغیر نہیں رہ سکیں گے،اگر میں یہ دعویٰ کروں کہ چین بھی اس کے منفی اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکے گا،تو مبالغہ نہ ہوگا،امریکی کی اقتصادیات دنیاکے بہت سے ملکوں کے لیے کھانے پینے،اوڑھنے بچھونے،لڑنے بھڑنے حتیٰ کہ وجود کی بقا کا بھی امریکی امداد پر انحصار ہے،اسی لیے جاننے والے کہتے ہیں کہ پاکستان امریکہ اور آئی ایم ایف کی ایک قسط کی مار ہے۔
میں نے کہیں پڑھا ہے کہ عقلمند وہ ہے کہ جب ا س پر مصیبت نازل ہوتو وہ اوّل روز ہی وہیکرے جو وہ تیسرے روز کرے گا،اور جغرافیہ سے تو بالکل نہیں ڈرنا چاہیے کہ گردشِ ایام کے ساتھ ملکوں کے جغرافیے بدلتے رہتے ہیں۔
دل ٹوٹا تو آنگن آنگن دیواریں اُٹھ سکتی ہیں
اس رُخ سے اے جانِ تمنا میں بھی سوچوں،تُو بھی سوچ

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply