• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بلوچستان کی قوم پرست سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحاد کے تقاضے۔۔عبدالحلیم

بلوچستان کی قوم پرست سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحاد کے تقاضے۔۔عبدالحلیم

بلوچستان کی سرزمین پر قوم پرست، روشن فکر اور ترقی پسندانہ سیاست کی بنیاد تقریباً ایک صدی قبل ڈالی گئی تھی. پھر یہ بتدریج پھیلتا گیا اور آج بھی اس اسلوب کی سیاست بلوچستان کا خاصا سمجھا جاتا ہے.

لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں قوم پرستی کی سیاست پر جیسے گرہن لگ گئی ہے. پہلے زمانہ کی نسبت اب قوم پرستی کی سیاست اتار چڑھاؤ کا شکار نظر آتا ہے. نیپ کی تحلیل اور بی ایس او کی شکست و ریخت کے بعد قوم پرستانہ سیاست یا نیشلزم میں وہ رومانس باقی نہیں رہا.

تقسیم در تقسیم، اختلافات اور اناء پرستی کے گرداب نے قوم پرستانہ سیاست کی جڑیں کمزور کردی ہیں. بلوچستان میں بہت سی سیاسی جماعتیں تشکیل پاچکی ہیں جن کی سیاست کا محور بلوچستان کے ساحل و وسائل کا تحفظ وغیرہ وغیرہ ہے یعنی ان کے سیاسی ترجیحات میں مماثلت اور یکسانیت پائی جاتی ہے مگر وہ ایک دوسرے سے بلا کی حد تک اختلاف رکھتے اور نفرت کا اظہار کرتے ہیں.

قوم پرستانہ سیاست کی بنیادیں کمزور پڑ جانے کے بعد بلوچستان میں غیر سیاسی پن کے ماحول کے رجحانات بھی سامنے آرہے ہیں. قوم پرستی کی سیاست کو لعن طعن کرکے بلوچستان کی تمام مصائب اور مسائل کا جڑ قوم پرستی کی سیاست کو قرار دیا جارہا ہے. جس کا فاٸدہ اٹھاکر راتوں رات ایسے لوگ سامنے لائے گئے جن کا عوامی سیاست اور اس کے مسند سے دور کا بھی واسطہ نہیں.

بلوچستان کے بعض حلقوں میں لوگوں کو حقیقی نمائندگی سے محروم کردیا گیا ہے. یہی لوگ توانا بننے کے بعد قوم پرستی کی سیاست کو گالی قرار دینے کے اپنے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں. یہ لوگ سالہا سال عوام کی نظروں سے اوجھل رہنے کے بعد انتخابات کے موسم میں جلوہ افروز ہوتے ہیں اور کامیابی ان کو پلیٹ میں سجھا کر دی جاتی ہے.

بہت سے تلخ تجربات سے گزرنے کے باوجود بلوچ قوم پرستی اور جمہوری طرز پر سیاست کرنے والی جماعتیں اپنے اناؤں کے خول اور عداوت کی لکیروں سے باھر نہ نکل سکے. جس کا خمیازہ نہ صرف خود یہ سیاسی جماعتیں بھگت رہے ہیں بلکہ حقیقی نمائندگی سے محروم عوام بھی اٹھارہے ہیں.

بلوچستان کی قوم پرست سیاسی جماعتوں کی تقسیم درتقسیم کو بھی دیکھکر عوام رائے عامہ یہ کہنے پر حق بجانب ہے کہ قوم پرست سیاسی جماعتیں اپنے کاز سے مخلص نہیں. اگر یہ مخلص ہیں تو وہ کونسا امر مانع ہے کہ یہ اپنی اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجدوں کی امامت چھوڑنے پر کیوں تیار نہیں؟ تقسیم در تقسیم کو دیکھ کر عوام کا بھی قوم پرست سیاسی جمہوری پارلیمانی جماعتوں پر اعتماد کا رشتہ متزلزل اور کمزور ہوگیا ہے.

بلوچستان کے معروضی حالات میں کسی بھی ایک سیاسی جماعت کے لیے مسائل کا حل جوئے شیر لانے کے مترادف عمل ہے اور نہ ہی کوئی جماعت انفرادی حیثیت سے بلوچستان کے گنجلک مسائل حل کرنے کی اہلیت رکھتی ہے. مختلف جھنڈیوں تلے سیاسی محاذ پر نبرد آزماء سیاسی جماعتیں صرف ایک دوسرے کے خلاف اپنی توانائیاں خرچ کر رہی ہیں اور جو اصل اہداف ہیں وہ اب تک آب و سراب ہیں. یا یونہی کہیے کہ ٹرک کی بتی کے پیچھے ہی بھاگے جا رہے ہیں.

بلوچستان کے طول و عرض میں پائی جانی والی بے چینیوں کو دیکھ کر یہاں کی اکثریتی سوچ بلوچستان کے قوم پرست سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کے ماحول کو پروان چڑھانے پر زور دے رہے ہیں اور یہ مطالبہ زور پکڑنے لگا ہے کہ جو قوم پرست سیاسی پارلیمانی جماعتیں عوام کے حقیقی ترجمانی کا دعویٰ کرتی ہیں ان کو اپنی اسٹریٹجی یا حکمت عملی اور موجودہ سیاست کا جائزہ لینا ہوگا.

موجودہ زمانہ برق رفتار اور موثر ترین رسائی اور معلومات کا دور ہے. بلوچستان کا نوجوان نسل تمام حالات و واقعات کو بغور دیکھ رہا ہے. ایک لاواء پٹھنے کو ہے. سلجھے ہوئے سیاسی کارکنوں کی حالات پر گہری نظر ہے. اب وقتی نعروں کا دور گزر چکا.

سیاست ایک طرح سے سماجی تبدیلی کا نام بھی ہے اس میں گروہی مفادات کا تصور زیادہ دیر تک کارگر نہیں رہ سکتا. جس کے لیے بنیادی تقاضا یہی ہے کہ وہ سیاسی جماعتیں جو حقیقی قوم پرست سیاسی جماعت ہونے کا دعویدار ہیں وہ اپنی آپس کی کدورتیں اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لئے سب سے پہلے اپنے درمیان ہم آہنگی کی فضاء پیدا کریں.

ماضی کو بھول کر حال میں لوٹ آئیں. اگر وہ انضمام پر راضی نہیں ہوسکتے تو کم از کم نقاط پر ہی اتحاد کریں. بالخصوص بی این پی (مینگل) اور نیشنل پارٹی سے یہی تقاضا کیا جارہا ہے.

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر اس پر صرف نظر کیا گیا تو تاریخ ان کو شاید معاف نہ کرے.

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply