اَسیِں حاجی ہونے آں, اِنُو وِی حج تے کَلھو — بلال شوکت آزاد

حج استطاعتی اور غیر استطاعتی کی بحث میں دیکھو وہ الجھ رہے جن کی اکثریت حج کو بعد میں تاحیات کرپشن کے لیئے بطور لائسنس انجام دیتے اور حاجی لکھوا کر پھر دل کھول کر چُرھلُو پھیرتے ہیں۔

کبھی کسی کلمہ طیبہ پر کاربند باعمل مسلمان کو نام کے ساتھ ایسے لکھتے دیکھا کہ “کلمی طہ منیب صاحب”, یا کبھی کسی نمازی پرہیزی اور نماز کے پابند باعمل مسلمان کو نام کے ساتھ ایسے لکھتے دیکھا کہ “نمازی انیس الرحمٰن باغی صاحب”, یا روزوں کا پابند اور رمضان کے سارے روزے مسلسل رکھنے والے کو نام کے ساتھ لکھتے دیکھا کہ “روزوی فیضان فیصل صاحب”, یا ذکوۃ  کی استطاعت رکھنے اور مسلسل ذکوۃ  ادا کرنے والے کو نام کے ساتھ ایسے لکھتے دیکھا کہ “ذکاتی محمد عبداللہ صاحب” اور کیا جہاد میں سرگرم عمل رہے کسی شہید یا غازی مجاہد کو نام کے ساتھ لکھتے دیکھا کہ “جہادی ندیم اعوان صاحب”؟

نہیں نا؟

تو پھر یہ حج, باقی ارکان اسلام سے اتنا الگ کیوں بنا دیا گیا ہے کہ اس کو ایک دفعہ انجام دینے کہ بعد تاحیات لوگ اپنے نام کے ساتھ “حاجی” کی پخ جوڑ لیتے ہیں اور کسی نے زیادہ حج ادا کرلیئے ہوں تو “الحاج” کا صیغہ لگالیتے ہیں۔

کیا یہ حج بھی کلمہ, نماز, روزہ, ذکات اور جہاد کی طرح خالص اللہ کی عبادت نہیں کہ جس کی تشہیر اور اس کے اعلان میں ریاکاری سے بچا جائے؟

اللہ کو معلوم تو نیت سے ہوجاتا ہے پر چلو یار تم عمل بھی کرگزرے تو کیا ساری زندگی لوگوں کو اس کا احساس دلانا کہ بھئی تم جناب صاحب نے حج بھی ادا کیا ہوا ہے ضروری ہے کیا؟

جب تم نے ساری زندگی کلمے, نماز, روزے, ذکات پر عمل کرکے نام کے ساتھ کلمی, نمازی, روزوی, ذکاتی نہیں لکھوایا کہ تمہارا مخلوق پر یا اللہ پر احسان نہیں تھا تو کیا حج کسی احسان میں شمار ہوتا ہے جو تم نام سے پہلے حاجی ٹھنکوا کر زماتے بھر میں معتبر بنے پھرتے ہو اور اس کی آڑ میں نجانے کیا کیا گل کھلاتے ہو؟

واللہ کوئی بغض یا عناد نہیں لیکن مجھے اپنی ابتک کی زندگی میں کل ملا کر چھ حاجیوں اور ایک الحاج سے بہت قریبی واسطہ پڑا اور میں بتا نہیں سکتا کہ جب ان کی حرکات و سکنات اور اعمال کا قریبی مشاہدہ ہوا اور ان کی صحبت میں بیٹھنے کا اتفاق ہوا تو مجھے بہت شرمندگی ہوئی کہ یہ لوگ بھی حاجی اور الحاج ہیں؟

ایک حاجی سے تو بہت ہی اچھی یاد اللہ تھی, جب میں نے اس کو حج کے فضائل اور ثواب بتاکر احساس دلایا کہ تم بھی ایک حاجی ہو تو تم پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ تم معاشرے میں اس کی اچھی مثال قائم کرو اور دین بیزار لوگوں کو اچھا تاثر دو تاکہ وہ اپنی رائے ہمارے متعلق بدلنے پر مجبور ہوں تو اس حاجی صاب نے اپنے پیلے دانت نکوسے اور ایک آنکھ مار کر مجھ سے یوں گویا ہوا کہ یارا سن ایک کہانی سناتا ہوں حج اور حاجیوں۔

قصہ مختصر کہ ۔۔۔۔۔”ایک قصبے میں ایک حاجی صاحب اور اس کے چار بیٹے تجارت کرتے تھے, اس حاجی نے خود بھی دو تین حج کھڑکائے ہوئے تھے اور اس کے تین سپوت بھی خیر سے حاجی تھے لیکن چوتھا ابھی غیر حاجی ہی تھا تو وہ ان چاروں حاجیوں سے مختلف مزاج کا مالک تھا, خیر اسی قصبے میں ایک غریب مزدور بھی تھا جس کی ایک ہی بیٹی تھی جس کی خاطر وہ سارا دن محنت مزدوری سے تھوڑی تھوڑی رقم جوڑتا رہا کہ ایک دن شادی پر کام آئے گی, لیکن اس کو ڈر تھا کہ وہ کہیں خود وہ دولت خرچ نہ کربیٹھے یا کوئی چور ہاتھ نہ صاف کرجائے لہذا ایک دن وہ قصبے کے واحد حاجی خاندان کے الحاج سربراہ کی دکان پر پہنچا اور اپنی رقم اس کو بطور امانت رکھنے کو دی جس کو الحاج صاب نے بخوشی پکڑا اور اس وقت اس کی دکان پر موجود سب سے چھوٹے اور غیر حاجی بیٹے کو تھمائی کہ یہ لو اور اس کو فلاں تجوری میں رکھ دو, مزدور اب مطمئن ہوکر چلتا بنا اور بات آئی گئی ہوگی, دو سال بعد جب مزدور نے بیٹی کی شادی کے دن رکھے تو وہ الحاج کی دکان کی طرف چل دیا کہ اب اپنی امانت واپس لیکر اس کو استعمال کرلوں, وہ بہت ہی اعتماد سے الحاج کی دکان پر گیا اور اپنی رقم کا تقاضہ کیا تو الحاج صاحب نے اس کو پہچاننے سے اور کسی رقم کی وصولی سے صاف انکار کردیا (حالانکہ وہ دل ہی دل میں اس کو کوس رہا تھا کہ کیوں واپس آیا کہ وہ اس کو پہچانتا اور جانتا تھا پر رقم کے لالچ میں انکاری ہوگیا), مزدور کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے اور وہ بیچارہ لگا دہائی دینے کہ حاجی صیب یہ ظلم نہ کریں, اس کی آہ و بکا سن کر وہاں مجمع اکٹھا ہوجاتا ہے اور اس سے ہمدردی جتاتے ہوئے اس کو تسلی دیتا ہے کہ شاید وہ غلط جگہ اور غلط بندے کو کوس رہا ہے کیونکہ الحاج صاحب کا تو نام ہی کافی ہے وغیرہ وغیرہ, لیکن مزدور بضد رہتا ہے اور روتا رہتا ہے, تب مجمع میں سے ایک سیانا بیانا بندہ مزدور کو پوچھتا ہے کہ جب تم نے رقم بطور امانت الحاج صاحب کو دی تب کوئی تیسرا بھی موجود تھا بطور گواہ جو یہ گواہی دے سکے کہ تم نے واقعی کوئی رقم الحاج کو بطور امانت دی تھی اور الحاج نے وہ وہ وصول پائی ہو؟, مزدور کو فورا ً الحاج کا وہ چھوٹا اور غیر حاجی بیٹا یاد آتا ہے جو اس وقت دکان پر ساتھ تھا اور جس کو الحاج صاحب نے رقم تھمائی تھی کہ اس کو فلاں تجوری میں رکھ دو, مزدور نے اس کا نام لیا تو الحاج صاب کو مجبورا ً اس غیر حاجی بیٹے کو گھر سے بلوانا پڑا بڑے بیٹے کے ذریعے جو اس قضیئے کے وقت ساتھ ہی تھا, بڑا بیٹا گھر جاتا ہے اور اپنے چھوٹے غیر حاجی بھائی کو ساتھ لیکر بطور گواہ دکان پر لاتا ہے, جب وہ دونوں دکان پر پہنچتے ہیں تب تک مجمع برقرار رہتا ہے, دونوں بھائی دکان میں داخل ہوتے ہیں تو مزدور بے چینی سے اٹھ کر غیر حاجی بیٹے کو پکڑ کر کہتا ہے کہ بیٹا تم بتاؤ کیا میں رقم بطور امانت نہیں رکھوا کر گیا دو سال قبل؟, الحاج کا غیر حاجی بیٹا اپنے باپ کو مخاطب کرتا ہے کہ ابا جی آپ بھول گئے ہیں شاید؟ پر یہ شخص آیا تھا اور اس  نے اتنی رقم بطور امانت اپنی بیٹی کی شادی کے لیئے آپ کے پاس رکھوائی تھی غیر معینہ مدت کے لیئے اور آپ نے وہ مجھے ہی تھمائی تھی کہ میں اسے فلاں تجوری میں رکھ دوں, جو کہ میں نے آپ کی بتائی گئی تجوری میں رکھ دی تھی, مجمع اور مزدور کا یہ سننا تھا کہ وہ الحاج پر بگڑنے لگے لیکن الحاج بھی پورے دنوں کا حاجی تھا, نہایت مکاری سے بولا کہ اب عمر ہوگئی شاید ذہن سے نکل گیا اس کا معاملہ, وہ اب طوہاً کروہاً اس مزدور کی رقم ادا کرتا ہے تو مزدور مجمع اور اس الحاج کے غیر حاجی بیٹے کا شکریہ ادا کرکے چلتا بنتا ہے اور مجمع چھٹ جاتا ہے, جب دکان پر کچھ سکون میسر آتا ہے تب الحاج بڑے حاجی بیٹے کو مخاطب کرکے یہ گویا ہوتا ہے کہ

“ایہہ چھوٹے دا وی ٹکٹ کٹا, اَسیِں حاجی ہونے آں, اِنُو وِی حج تے کَلھو ایس سال۔”

مطلب اس چھوٹے بیٹے کا بھی ٹکٹ کٹواؤ اور اس سال اس کو بھی حج پر روانہ کرو (تا کہ اس کو بھی ہماری طرح لائسنس ملے اور یہ بھی ہمارا جیسا بن جائے نکھٹو)۔

میں نے جب یہ قصہ ایک حاجی ہی کی زبانی سنا تو واللہ شدید غصہ بھی آیا اور من حیث القوم اور من حیث الامت اپنی حالت پر ترس بھی کہ کیا دور آگیا ہے اب, لوگ حج اللہ کی خوشنودی اور جنت کی خاطر نہیں بلکہ زمانے میں نام و مقام کی خاطر ادا کرنے لگ پڑے ہیں تاکہ حاجی اور الحاج کی پخ لگا کر جس کو جس طرح مرضی ثواب دارین سمجھ کر لوٹ سکیں, تباہ و برباد کرسکیں اور رات کو نیند بھی سکون کی آئے کہ۔۔۔”اَسیِں حاجی ہونے آں”

حج ہی کیا اسلام کی ہر عبادت اچھی نیت اور جسمانی, روحانی, معاشی اور سماجی استطاعت سے مشروط ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حج بھی کریں اگر استطاعت ہے اور نیت میں فتور نہیں لیکن جو عبادات یہاں ممکن ہیں ان سے بھی انصاف کریں اور خدارا حج سمیت تمام جملہ ارکان اسلام کی بدنامی اور اسلام کی غلط تشریح کا باعث نہ بنیں۔اللہ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق دے۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply