بادبان!ٹمٹماتے چراغوں کی داستان(قسط5)۔۔۔۔محمد خان چوہدری

پنجاب کے کلچر میں ہر بڑے پیر، زمیندار، جاگیردار، نواب کی جان ،طوطے کی طرح کے ایک ملازم میں ہوتی ہے۔۔باوا وقار شاہ کا وہ طوطا منشی تھا، اس کا ملیار خاندان سادات فیملی کے  جدّی پشتی مزارعے تھے۔وہ بچپن سے ان کے گھر میں پلا بڑھا، باوا جی فوج سے ملازمت چھوڑ کے آئے تو یہ ان کا ذاتی ملازم ٹھہرا،ملتان مربع  الاٹ ہوا تو یہ وہاں آبادکاری سمیت سارے کام سنبھالنے کا انچارج تھا، ساتویں آٹھویں جماعت تک سکول بھی جاتا رہا، لکھت پڑھت اور حساب کتاب بھی جانتا تھا، سو منشی بھی بن گیا، خاندانی ملیار تھا کاشتکاری خون میں تھی، آم کا باغ لگوایا، سبزی، چارہ، اور فصلیں اُگانا، مزارعے رکھنا ،غرض یہاں کے سارے معاملات اس کے ہاتھ تھے۔۔۔

چک میں حاطہ اور ایک آڑھت کی دکان بھی الاٹ ہوئی، سب سے پہلے باوا جی نے حاطے میں اس کا گھر بنوایا،گاؤں سے شادی کرا کے میاں بیوی کو آباد کیا، اب اس گھر میں منشی کی بیٹی اور داماد رہتے تھے، منشی کے بیٹے آڑھت پہ   ایک شیخ جی کے ساتھ کام کرتے تھے، باوا جی کا معتمد خاص ہونے  کیساتھ ساتھ وہ ان کے گھر کے امور سے واقف اور رازدان بھی تھا۔

شام کو اصغر شاہ نے گاؤں والی زمین کے تبادلہ اور یہاں مربع  کے مختار نامے ترتیب سے فائل میں رکھ کے باوا جی سے ناظر صاحب کے گھر جانے کی اجازت مانگی، باوا جی خود ساتھ جانے کے متمنی تھے، لیکن اصغر نے یہ عذر پیش کیا کہ وہ تو ان کے بیٹے کا دوست اور کلاس فیلو ہے وہ بچوں کی طرح ان کے گھر آتا جاتا ہے لیکن باوا جی کے جانے کی پیشگی اطلاع دینا ضروری ہو گا تاکہ ان کے لئے استقبال  اچھا  ہو ۔

منشی نے بھی ہاں میں ہاں ملائی ۔ اصغر شاہ ڈرائیور اور گارڈ کے ساتھ جیپ پہ  شہر روانہ ہوا۔ نکلنے سے پہلے باوا جی سے پوچھا کہ ان کو کوئی  چیز منگوانے کی ضرورت ہے، انہوں نے دعا دے کے رخصت کر دیا۔

باوا جی اور منشی باغ کی روش پہ  واک کرتے سڑک کی طرف پہنچے، منشی نے مجوزہ پٹرول پمپ کی ممکنہ سائیٹ کی جگہ دکھائی، اور آگے چوک میں جھال پر بنے پل پہ  جا بیٹھے ۔ باوا جی کے کزن والے مربع  میں ابھی تک ٹریکٹر لگے تھے۔۔۔
باوا جی نے منشی کا متغیّر چہرہ غور سے دیکھا اور اسے بچپن کے نام سے پکار کے بولے ۔
“ مانیا خیر تے ہے پریشان لگ رہے ہو ۔۔
منشی کا اصل نام امان اللہ تھا لیکن بچپن سے پہلے مانُوں اور پھر مانا بُلایا جاتا، پورا تعارف مانا ملیار ہوتا تھا۔۔۔
اس نے بہت ادب سے جواب دیا۔۔
“ مُرشد کیا بتاؤں ۔ ساری عمر آپ کا نمک کھایا، آپ کے ساتھ رہا۔ یہ سوچا ہی نہ تھا کہ آپ کی شفقت سے اتنا لمبا عرصہ محروم رہنا بھی پڑ سکتا ہے ! پچھلے دو سال میں آپ ایک بار یہاں آئے ڈیڑھ سال پہلے ۔وہ بھی چار دن ۔۔جو آپ کے مالیہ آبیانہ اور گرداوری کرانے میں لگ گئے، اور اب میرا سینہ پھٹ رہا ہے، کتنی باتیں آپ کو بتانے والی ہیں، کئی بار سوچا آپ کو خط لکھواؤں ۔ لیکن کس سے ! چھوٹے شاہ جی سے کہتا تو وہ کیا سوچتے ؟
مُرشد وہ وقت کتنا اچھا تھا ۔آپ آتے رات بھر ہم باتیں کرتے، چک کے واقعے میں سناتا،دن بھر ساتھ حساب کتاب کرتے ، ہر آئے گئے کا آپ پوچھتے، مُرشد ، مؤلا آپ کی عمر دراز کرے پر مجھے لگتا ہے۔۔میں یتیم ہو گیا ہوں، میرا سر ننگا ہو گیا ہے، یہاں سب ہیں بیوی ہے بچے ہیں لیکن آپ تو میرے مائی باپ ہیں۔۔۔
وہ اٹھ کر باوا جی کے پاؤں میں بیٹھنے لگا تھا، باوا جی نے اس کے سر پہ  شفقت سے ہاتھ پھیرا، پکڑ کے اپنے ساتھ بٹھا لیا، اور فرمانے لگے۔۔،
“ ہم سر راہ بیٹھے ہیں، خود کو سنبھالو ۔ اور اب میں پورا مہینہ یہاں رہوں گا ۔ دیکھو کتنی اچھی ہوا چل رہی ہے،چھال کا پانی کس قدر صاف ہے، “
منشی نے فوری طور پہ  خود کو نارمل کر لیا۔
بات بدل دی، کہنے لگا ، مُرشد دعا کریں چھوٹے شاہ جی کی خواہش پوری ہو یہاں سامنے پمپ لگا لیں،

باوا جی مسکرائے ۔ اتنی دیر میں سامنے اصغر شاہ کی جیپ نظر آئی، جو چک کا موڑ مُڑ کے ڈیرے کی طرف آ رہی تھی،یہ دونوں بھی چل پڑے، ان کے ڈیرے پر پہنچنے تک جیپ گیراج میں پارک ہو چکی تھی اور اصغر شاہ نے گیٹ پر ان کو بہت ہشاش بشاش موڈ میں ریسیو کیا،
منشی اجازت لے کے اپنے گھر کھانے کا بندوبست دیکھنے چلا گیا، اور باپ بیٹا برآمدے میں براجمان ہو گئے۔
ڈرائیور اور ملازم نے اصغر شاہ کی شاپنگ والے پیکٹ برآمدے میں چارپائی  پر رکھے ۔ وہ بھی اپنے کوارٹرز کو چلے گئے۔۔

اصغر شاہ نے ایک پیکٹ کھول کے لُنگی نکالی، باوا جی کو اوڑھائی، جپھی ڈالی اور شاید پہلی بار باوا جی کی بجائے ابا جی کہہ کے کہا، ابا جی مجھے دعا دیں ۔۔۔ باوا جی کا بدن نوجوان بیٹے کے بازؤں میں تھرتھرایا
انہوں نے بیٹے کو گلے لگایا ،پیار کیا، بولے ، بیٹا سب کے لئے ہر وقت دعا کرتا ہوں ۔ تم ایک بار پھر “ابا جی” کہو۔
اصغر نے ان کے سینے پر سر رکھ کے کہا۔۔۔ ابا جی ! صرف میرے لئے دعا کریں ۔ سب میں شامل کر کے نہیں۔
بس مجھے اکیلے کو دعا دیں ، باوا جی رو پڑے، اور گڑاگڑا کے ہاتھ پھیلا کے ، وسیلے ڈال ، اصغر کا نام لے کے دعا مانگی۔
گیٹ پہ منشی کے کھنکھارنے کی آواز آئی ۔ باپ بیٹا پلنگ پہ  بیٹھ گئے۔
منشی نے کھانا لانے کا پوچھا تو باوا جی نے کہا، مغربین کی نمازیں پڑھنے کے بعد لے آنا ۔
نماز کے بعد کھانے کھاتے ہوئے اصغر شاہ نے شہر کی وزٹ کی تفصیل بتائی، کہ صبح تحصیل آفس جانا ہے،وہیں وثیقہ نویس الطاف شاہ جو باوا جی کا پرانا شناسا تھا اس سے بھی ملاقات طے ہے،دوسری خوش خبری یہ بھی کہ میجر انکل کورس مکمل کر کے کل واپس آ رہے ہیں، اصغر انکے بنگلے سے بھی ہو آیا تھا،اور ان کی مسز نے باوا جی کو ڈنر کی دعوت بھی دی۔
یہ سب تفصیل سن کے باوا جی نے مسکرا کے کہا کہ یہ تو پورے دن کا پروگرام ہے ۔
اصغر نے کہا کہ صبح کچہری سے میجر صاحب کے گھر فون کر لیں گے، باقی جیسے آپ بہتر محسوس کریں گے کوئی ایمرجنسی نہیں  ہے۔

منشی کھانے کے برتن سمیٹ رہا تھا تو باوا جی نے مذاق میں اصغر سے کہا، کہ تمہارے چاچا منشی نے گلہ کیا ہے ۔تم اسے ٹائم نہیں  دیتے، یہ بہت اداس رہتا ہے۔
اصغر نے ہنس کے کہا۔ چاچا یہاں مزارعوں اور ملازموں کے ساتھ سر کھپانے سے فارغ ہوتا ہے تو چک میں  بیٹی اور داماد کے جھگڑے نپٹانے چلا جاتا ہے۔ یا آڑھت پہ  بیٹوں اور شیخ کا حساب کتاب کرانے میں پھنس جاتا ہے۔۔
شکایت تو مجھے ہے کہ چاچا مجھے ویسے ٹائم نہیں  دیتا جیسے پہلے جب آپ کے ساتھ میں آتا تھا تب مجھے کھلاتا تھا۔۔
چاچے نے ہی تو مجھے دو سال میں کاشت سے پٹوار ، اور ہر محکمے بارے ٹرینڈ کیا ہے، تاجی شاہ کے معاملے میں بھی چاچا نہ ہوتا اور میجر انکل کے ساتھ ناظر صاحب مجھے نہ سمجھاتے تو میں اسے اٹھوا کے آپکے پاس گاؤں چھوڑ آتا۔

منشی بھی خوشی میں بولا۔  مُرشد آپ کا یہ بیٹا تو بالکل وڈے باوا فضل شاہ جی کی کاپی ہے، بالکل اپنے دادا جی کی طرح۔۔مدبر ،معاملہ فہم اور سب سے بڑھ کر مردم شناس، موقعے کی نزاکت اور مناسبت کے مطابق ا ن کی طرح فیصلے کرتا ہے۔
اب دیکھ لیں سارے کام بھی ہو رہے ہیں اور بارہویں جماعت بھی فرسٹ ڈویژن میں  پاس کر لی ہے۔
باوا جی نے منشی کو اپنا دل ہلکا کرنے کا موقع  دے دیا۔
منشی نے گول میز سائیڈ پر  کی، برتن کی ٹرے اس پہ  رکھی، اسے دسترخوان سے ڈھانپ دیا، اور موڑھا لے کے باوا جی کے پلنگ کی پائنتی کی طرف بیٹھ گیا۔
اصغر شاہ نے گاؤ تکیہ باوا جی کی پیٹھ پیچھے رکھا ۔ خود چارپائی  پہ  گود میں تکیہ رکھ کے اس پر کہنیاں ٹکائے ہتھیلیوں سے منہ تھامے دمکتے چہرے سے ہمہ تن گوش ہوا، اپنی کارگزاری جو وہ خود اپنے والد کے احترام میں انکے سامنے بیان نہیں  کر سکتا تھا۔۔ منشی کی زبانی  ساری کتھا سُنتے وہ خوش ہو رہا تھا، ظاہر ہے تعریف اور وہ بھی سچی،اور ایک نو عمر جوان کی اسے بھا رہی تھی۔

باوا جی بھی دو سال کی بیٹے کی ترقی دیکھ چکے تھے ،اس کا زبانی احوال سننا چاہتے تھے۔۔
منشی نے انکشاف کیا کہ سڑک کی  تعمیر شروع ہونے کے ساتھ ہی اصغر نے ادراک کر لیا تھا کہ زمین کی قیمت بڑھ جائے گی، اور ہو سکتا ہے کہ چوک والا کونہ کمرشل ہو جائے۔ ساتھ والے مربعے والے مرحوم شاہ جی کے وارثان بارے تفصیل منشی نے ہی اصغر شاہ کو دی، جس کی تصدیق متعلقہ محکمے سے ناظر صاحب کی وساطت سے اصغر نے خود کی ۔ اور کچا فرد ملکیت بھی بنوا لیا۔ دونوں مربعوں کی حد بندی بھی ٹریکٹر مار کے ختم کر دی تھی۔
تاجی شاہ والے واقعہ کی تفصیل جو اصغر شاہ باوا جی کو بتا چکا تھا اس نے بھی دہرا دی ، لیکن ساتھ یہ اضافہ کیا کہ منشی اصغر کی ہدایت پر تاجی شاہ سے اب بھی رابطے میں ہے وہ اسے اپنا معاون سمجھتا ہے ۔ چک کی منڈی کے  پاس اس کے پرانے پٹرول ڈپو پر ملاقات بھی ہوتی ہے،اس نے جوش میں یہ راز بھی اگل دیا کہ جیپ کی خریداری پر بھی تاجی شاہ اور اصغر مقابل تھے لیکن کرنل صاحب نے اپنے پرانے کولیگ ریٹائر کرنل جو کمپنی میں بڑے افسر تھے ان کو کہہ کے جیپ اصغر شاہ کو دلوائی  تھی۔

اب باوا جی تھک گئے، اصغر سے رات کی دوائی لی، اور یہ شرلاک ہومز والی روداد یہاں رُک گئی۔
اور تینوں اداکار اپنے اپنے بستر پر اس کے تصور کے ساتھ سو گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply