میں تو چلی چین / مسجد سعد بن ابی وقاص(قسط24) -سلمیٰ اعوان

‘‘الفاظ کب ہیں میرے پاس جو میں تیرے حضور پیش کرسکوں۔’’احسان کی سرشاری میں بھیگتی جارہی تھی۔خود سے بولتی جارہی تھی۔

جب دفعتاً عورتوں، مردوں اور بچوں کا ایک ریلا آیا۔ماشاء اللہ کوئی تیس30 کے قریب افراد پر مشتمل لوگ اونچے لمبے جن کی سیندوری رنگتیں قابل رشک تھیں۔پھولی پھولی گالوں والے پیارے پیارے بچے۔یہ اندر مزار سے آئے تھے۔اُن کے دو بڑوں نے سٹرا بیری دہی والے ڈبے کھولے۔ایک اور بڑے کارٹن سے مٹن پائیزنکالیں۔
ایک طائرانہ سی نظر گردوپیش پر ڈالی ۔ جتنے لوگ وہاں موجود تھے ان میں تقسیم کرنی شروع کردیں۔ ہمیں بھی یہ سوغات نصیب ہوئی۔میٹھا دہی ذائقے سے بھرا ہوا۔سرخ خستہ بڑی بڑی چھ پائیز اور اتنے ہی دہی کے ڈبے۔پائیز جن کے بارے اس بلند قامت خوش شکل مرد جس کے اگلے دو دانت سونے کے تھے نے ہنستے ہوئے میری طرف دیکھتے ہوئے ایک تفاخر سے کہاتھا۔
‘‘یہ حلال گوشت کی ہیں جو میں نے خود بنائی ہیں۔میں بہت اچھا شیف ہوں۔’’
پوری بتیسی کھول کر میں نے اُسے داد دی تھی اور ساتھ ہی سامنے بکھرے آسمان کو دیکھا تھا۔یہ آسمان تو گویا جیسے میرا دارو تھا۔جسے دیکھتے ہی نشیلی ہوجانا تو شرط تھی۔تو اس وقت بھی اسے تکتے ہوئے خود سے کہا ۔
‘‘تو اے اللہ میں تیری کون کون سی نعمتوں کا شکر ادا کروں۔’’
اور جب اِس شکر گزاری میں میری داخلی کیفیات احسان مندی اور تشکر میں نہا رہی تھیں۔عمران اِن لوگوں سے مصروف گفتگو تھا۔ کچھ ہی دیر بعد اس نے بتایا کہ یہ لوگ قریبی جزیرے شمائنshamian سے آئے ہیں۔ یہ دریائے پرل کے دہانے پر ایک بہت خوبصورت کا لونی ہے جو دراصل کبھی برطانیہ اور فرانس کے زیر تھی۔انیسویں صدی میں بنائے ہوئے یورپی تاجر اقوام اور جاپان کے عالیشان ولاز اور مینشن آج بھی اس علاقے کا حسن ہیں جواب حکومت اور مقامی لوگوں کی ملکیتیں ہیں۔
نور بخری کا کہنا تھا کہ آپ کو یہ جزیرہ ضرور دیکھنا چاہیے۔
سچی بات ہے میرا تو جی للچانے لگا تھا۔سری لنکا میں نگمبو کو دیکھا تھا۔نویرا علیہ کی سیر کی تھی۔ اِن یورپی لوگوں نے کس قدر دل کش اور شاندار نمونے وہاں تعمیر کیے تھے۔
بہت پیارے لوگ تھے۔عورتیں بھی حسن اخلاق کی دولت سے مالا مال تھیں۔ عائشہ مامیتی نوربخری کی بہن تھی جب کہ ملائکہ بیوی تھی۔کزن کا نام زینب تھا۔
میں نے ہنس کر پوچھا ۔
‘‘یہ نام ہماری تو جان ہیں پر یہاں تو سنا ہے ایسے ناموں پر پابندی لگ گئی ہے۔’’
‘‘ادھر ایسا کچھ نہیں ہے۔ہاں سنکیانگ میں البتہ سننے میں آیا ہے۔ویسے یہ مغرب بھی دو دھاری تلوار کا کردار ادا کرتا ہے۔چین کے ساتھ کاروباری قربتیں عروج پر، مگر جڑیں کھودنے میں بھی بڑا تگڑا۔اندر خانے اور اوپر خانے دونوں محاذوں پر ۔’’
‘‘اور چین؟’’
بڑے ڈپلومیٹک اور پراسرار سے انداز میں میرا سوال تھا۔
‘‘وہ ابھی ایک دھاری تلوار ہے۔سپر پاور بننے کے بعد جوہر کھلیں گے۔’’

سبھوں سے خوب خوب جھپیاں ڈالیں۔ترک سلجوق نسل سے تعلق تھا ۔دراصل بنیادی طور پر ہم مانچورین لوگوں کی اولاد ہیں۔سنکیانگ کو کبھی مانچوریا کہا جاتا تھا۔آج کے ترک لوگ انہی لوگوں کی آل اولادیں ہیں جنہوں نے کہیں نویں صدی میں اسلام قبول کیا تھا۔
شمائن میں ہم بھائیوں کا ریسٹورنٹ ہے۔ دراصل جب گونگ چو اتحادیوں کے قبضے میں تھا تب ایک برٹش ولیم راجر کا یہاں خاصا بڑا بزنس تھا۔میرے دادا اس فیملی کے شیف تھے۔یہ لاولدجوڑا تھا۔میرے دادا کی اچھی عادات اور خدمت گزای انہیں بہت پسند تھی۔میرے والد کو انہوں نے گود لے لیا تھا۔جب وہ جانے لگے تو گھر اور ریسٹورنٹ انہیں دیتے گئے۔اسی ریسٹورنٹ کو انہوں نے بہت شاندار طریقے سے بڑا کیا۔میرے بھائیوں کا کاروبار بھی اسی شعبے سے ہے۔گونگ چو میں بھی ہمارے دو ریسٹورنٹ ہیں۔
چین کی اِس حیرت انگیز ترقی اور ہوئیHuiمسلمانوں بارے جاننے کے لیے میں نے بات کی۔‘‘ارے بھئی چینیوں کی اس ترقی کے پیچھے بہت پر آشوب تاریخ ہے۔چینی قوم کی عظمت کو سلام جس نے بھوک ننگ،جبرظلم سب کے کڑے وار سہے۔

چینی عوام کی تحریک آزادی جو ٹکڑوں کی صورت شروع ہوئی تھی۔اس میں ہوئیHuiقبیلے کے مسلمان فوجی دستوں نے جو کردار ادا کیا وہ تاریخ میں ایک خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔
دلیران گانسوGansu Bravesکے نام سے مشہور یہ فوجی دستے جن کا تعلق صوبہ گانسو سے تھا ۔دس ہزار جیالے اور جنگ جو مسلمانوں کے دستوں پر مشتمل تھا۔انہوں نے بہت سے محاذوں پر آٹھ ملکی اتحاد جس میں برطانیہ،امریکہ،فرانس،روس،جرمنی،اٹلی،اسٹریا،ہنگری اور جاپان شامل تھے کو شکست دی۔اس وقت چین پر ملکہ شی کی حکمرانی تھی۔ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ملکہ شی بھی انہی کی پناہ میں آگئی ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بے شمار مقامات پر یہ لوگ بہت بے جگری سے لڑے۔تاہم اسلحے کی کمی اور کچھ درمیان کے لوگوں کی غداری کی وجہ سے شکست کھاگئے۔اب جو اتحادیوں نے لوٹ مار کا بازار گرم کیا وہ ایک لمبی داستان ہے۔عورتوں کی بے حرمتی کے بے شمار المناک واقعات رونما ہوئے۔
جب میں اُن کی باتیں سننے میں محمو تھی۔عمران نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
‘‘آپ فاتحہ پڑھ آئیے۔ظہر کا وقت بھی قریب ہے۔’’
اب معذرت کرنا اور اٹھنا ضروری تھا۔

پھر ہم دونوں ماں بیٹی گلابی پینٹ سے سجے خوبصورت محرابی دروازوں سے گزر کر مزار مبارک کی طرف گئیں۔کمرہ چھوٹا سا تھا۔ہاں البتہ تعویز بڑا لمبا چوڑاجو آف وائٹ شنگھائی سائن سے ڈھنپا ہواتھا۔ اردگردکھڑا خاندان سلام و درود پڑھنے میں دل وجان سے مگن تھا۔درود کا کچھ حصہ چینی زبان میں تھا۔عورتوں کے ہاتھوں میں ایک یو آن نوٹوں کی گڈیاں تھیں جنہیں وہ مزار پر لٹانے میں مصروف تھیں۔میرے اورسعدیہ پر بھی نوٹوں کی بارش ہوئی۔
واہ بے اختیار ہی ہنسی ہونٹوں پرآگئی تھی۔محبت کا یہ اپنا اپنا سا جٹکا برّ صغیری انداز۔

ظہر کا وقت قریب تھا۔مسجد جانے کا سوچا۔سبحان اللہ ۔راستہ خوبصورت سبزے سے گھرا ہواایک موہ لینے والے تاثرکا حامل تھا۔بانس کے پکے ہوئے قدآور درختوں کے جھنڈوں نے کچھ یاد دلایا۔مسجد تک جانے کے لئے آرام دہ سیڑھیوں کا ایک لمبا چوڑا سلسلہ اس کی خوبصورتی کو چارچاند لگاتا تھا۔قدآوردروازوں کا حُسن ،انہیں انفرادیت دے رہا تھا۔انہی شاندار دروازوں سے اندر تاحد نظر بیچھے نیلے قالینوں کے منظر دل لبھانے والے تھے۔دیواریں عربی کتبوں سے بھری ہوئیں۔غربی برآمدہ بھی اپنی پچھلی اوراگلی محرابوں کے ساتھ خوبصورت نظر آتا تھا۔
مسجد کی چھت اپنے غیر معمولی اچھوتے پن سے فی الفور توجہ کھنچتی تھی۔نیلی اور سبز ٹائلیں بہت دل کش لگتی تھیں۔یہ اظہار ہے اُس گرم جوشی اور محبت کا جوگونگ چونے مسلمانوں کی اس عبادت گاہ کو دی۔اندر ایک تختی بھی دیکھی “Jiao chang xiyu” مطلب عمران نے بتایا ۔
‘‘ اسلام مکہ سے آتا ہے۔’’

کندہ کاری کا یہ تحفہ 1901 میں کن Qinکے شاہی گھرانے کے ایک شہنشاہ نے دیاتھا۔سچ تو یہ ہے کہ میرا دل چین کے ان تمام شہنشاہوں کی اعلیٰ ظرفی کا احسان مند تھا کہ جنہوں نے جب جب یہ کبھی آگ میں جلی ،کبھی زلزلوں اور کبھی سیلابوں کی بھینٹ چڑھی انہوں نے اِسے از سر نو زندگی دی۔آج یہ اسی وسعت قلبی کی عکاس ہے۔
پتہ چلا تھا کہ اندر خواتین کا الگ سے حصّہ ہے۔ آرام دہ کرسیاں بوڑھی عورتوں کے لئے تھیں۔پہلے نماز پڑھی۔ شیلفوں میں سجے قرآن پاک کے نسخے تھے۔پھولا پھرولی کی۔پھرایک منتخب آیات کا نسخہ تھاما۔سورہ توبہ پڑھی۔سورہ یٰسین کو دہرایا۔

اب ذرا اپنے گردوپیش بیٹھی خواتین کو نظروں میں جانچا۔قریب ترین والی آبنو سی رنگت پر بنفشی ساڑھی پہنے گود میں چھ ماہ کا بچہ لئے زیر لب کچھ پڑھ رہی تھی ۔ مگر نگاہیں چہارجانب رقصاں تھیں۔بات کی تو جانا ہانگ کانگ سے آئی ہے۔ یوں تعلق انڈیا کے شہر پٹنہ سے تھا۔گود کی بچی کچھ مضطرب سی تھی۔قالین پر لوٹنیاں لیتی پھرتی تھی۔
آناًفاناً بچی نے منہ بھر کر اُلٹی کر دی۔ایسی اوندھی عورت کہ پاس کوئی ٹشو یارومال تک نہ تھا۔فوراً بیگ سے چھوٹا تولیہ نکالا۔سعدیہ اُسے گیلا کر کے لائی۔قالین کو صاف کیا۔ماں اور بچی کو باتھ روم میں لے جاکر صفائی ستھرائی کروائی۔بچی کو تیز بخار تھا۔
میرے جیسی نے کہا۔‘‘تو آنے کی کیا ضرورت تھی؟’’
‘‘ارے پھپھیاساس آئی ہوئی ہے انڈیا سے۔برصغیر کی عورت پھٹ پڑی تھی۔ انہیں ادھر آنے کا بہت شوق تھا۔اب اس دودھ پیتی کو کیسے چھوڑ آتی؟’’
پھوپھی سا س سے بھی علیک سلیک ہوئی۔ایک کونے میں بیٹھی اپنا پنج سورہ پڑھ رہی تھی۔شامت اعمال سے ہندوستان کے حالات بارے پوچھ بیٹھی۔وہ تو گویا آتش فشاں کے دہانے پر بیٹھی تھی پھٹ پڑی۔
‘‘ارے بھائی تمہیں ہم سے کیا لینا دینا۔بڑی تڑپ تھی نا تمہیں پاکستان بنانے کی۔لولوٹ لو مزے ۔ہماری خیر خواہی تم لوگوں نے خاک کرنی ہے؟تم لوگوں سے تو اپنا آپ نہیں سنبھل رہا۔چلو ساتھ ہوتے تو ہماری طاقت کا ان بدبختوں کو بھی کچھ احساس ہوتا۔اب تو یہ من مانیاں کرتے پھررہے ہیں۔ ’’

دل گرفتہ سی اٹھ کھڑی ہوئی۔رخ پھیرا تو ایک حجاب میں لپٹی نوجوان لڑکی نے نگاہیں چار ہوتے ہی مسکراہٹیں چہرے پر بکھیریں۔یہ نتاشا تھی کوئٹہ بلوچستان سے ۔ چندوchengduشہر کی Sichuan Normal University کی طالبہ تھی۔چینی زبان میں ماسٹرز کررہی تھی۔سکالر شب پر ڈائریکٹ منتخب ہوکر آئی تھی۔یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ کوئی پچاس کے قریب پاکستانی سٹوڈنٹ ہیں۔ہندوستانی بھی ہیں۔
اِس سوال کے جواب نے بھی عجیب سی طمانیت دی کہ عام چینی خواہ وہ طالب علم ہوں یا شہری سب پاکستان سے محبت ہی نہیں کرتے بلکہ اگر کبھی انڈین اور پاکستانی طلبہ کے درمیان کوئی متنازعہ مسئلہ کھڑا ہوجائے تو اکثریت ہمیشہ پاکستانی طلبہ کو سپورٹ کرتی ہے۔

ملائشیا کا ایک پورا ٹولا جس کی اکثریت نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں پر مشتمل تھی اچانک برسنے والی بارش کی طرح نمودار ہوا تھا۔لڑکیوں کی اکثریت حجاب اور عباؤں میں لپٹی ہوئی تھی ۔جنہیں دیکھتے ہی میں محبت و بھائی چارے کے شدید قسم کے جذباتی احساسات کے ساتھ آگے بڑھی۔انگریزی انہیں آتی تھی مگر ایسا سرد رویہ ۔سچی بات ہے ایک جھٹکا کھا کر پیچھے ہٹی تھی۔ہکا بکا ہونے والی تو بات تھی۔دنیا میں کہیں بھی بالعموم ملت اسلامیہ سے جڑے ہونے کا سن کر جو رونق چہروں پر پھیلتی،آنکھوں میں چمکتی اور لبوں کو مُسکاتی ہے وہ یہاں سرے سے ہی مفقود تھی۔ ایک دو نہیں کمبخت مارے سبھوں نے اسی سرد مہری کا اظہار کیا تھا۔ شرمندہ سی ہوکر میں نے خود کو لتاڑا۔
‘‘چلو تم بھی ذرا لگام ڈالو اپنی اس اسلامی چاہت و محبت کے اظہار کو۔’’

معلوم ہوا تھا کہ مسجد کی عقبی سمت ریڑھیوں پر انجیر،سیاہ کشمش اور خوبانیاں بک رہی ہیں۔‘‘دیکھتے ہیں’’ والا سفر ی تجسّس  کشاں کشاں وہاں لے گیا۔یہاں تو بہار آئی پڑی تھی۔یہ کاشغری ، یارقندی اور قازق لوگ تھے۔کچھ ریڑھیاں مقامی لوگوں کی بھی تھیں۔ کمال کی ذائقے سے بھری خوبانیاں تھیں ، سیاہ کشمش، اخروٹ بادام سب چیزیں خریدیں ۔

واپس مسجد میں آئے۔ابھی قبرستان دیکھنا باقی تھا۔تاہم تھوڑی دیر مسجد کے اسی کشادہ صحن میں بینچوں پر بیٹھ کر اِن خریدی گئی سوغاتوں سے منہ ماری کو دل چاہنے لگا تھا۔اور جب ایسا کرتے تھے اور ساتھ ساتھ فی پیکٹ بیس 20یو آن کو پاکستانی روپے سے ضرب اس کے مہنگا یا سستا ہونے کے حسابی چکروں میں تھے۔

دفعتاً میری نظریں مسجد کے مینار پر پڑیں۔میں تو دیکھتی رہ گئی تھی۔یہ کسیِ حسین نازنین کی صندلی پیشانی پر جگمگاتے جھومر کی طرح لشکارے مارتا تھا۔جس کے بالا خانے سے فلاح کے لیئے آؤ کا وہ سرمدی نغمہ جسے اذان کہتے ہیں ابھی تھوڑی دیر قبل جسے سنتے ہوئے میرے وجود میں ارتعاش کی برقی لہریں سی دوڑی تھیں اپنایت کا سریلا پیغام میرے وجود نے سنا تھا۔

اب جب میں جذبات کی ایک نئی گھمن گھیری میں اُلجھی اِس کے روایتی اور اسلامی طرزِ تعمیر کے حسین سنگم کو محبوبانہ نظروں سے دیکھے چلی جا رہی تھی۔ مجھے آسمان کے قدموں کو چھوتا یہ سفید براق گویااُن قدیم کاروانوں کے ہدی خوانوں کی کہانیاں سُناتا محسوس ہوا تھاجو جزیرہ نمائے عرب کے صحراؤں سے اِس شہراہ ریشم پر گامزن ہوئے تھے ۔جو اپنے ساتھ نہ صرف اشیائے تجارت لائے بلکہ ایک نئے فلسفہ حیات کا خوبصورت تحفہ بھی اُن کی دین تھی۔ جانے کتنی دیر اِس محبوب دنیا میں کھوئی رہتی جب عمران کی آواز سے چونکی۔وہ کسی سے تعارف کروا رہا تھا۔

درمیانی عمر کی طرف بڑھتا ہوا یہ پاکستانی محمد بخش جس کی زندگی کا ایک حصّہ چین کے اِس بے حد اہم تجارتی شہر کی صحرا نوردی میں گزرا تھا۔قیمتی موتیوں اور پتھروں کا بیوپاری جسے چودہ ملین آبادی والے اس شہر کے چپے چپے کا علم تھا۔
‘‘کچھ شہر بارے بتائیے۔’’
میرے کہنے پر گویا ہوئے۔
یہ آج یا چالیس (40)سال میں ترقی کرنے والا شہر نہیں بلکہ زمانوں سے چین کا ایک اہم کاروباری مرکز رہا ہے۔تاریخی طور پر بھی تیسری صدی عیسوی سے بیرونی دنیا کے اثرو نفوذ کو کھینچ کر یہاں لانے میں کلیدی کردار ادا کرتا رہا ہے۔یہ چین کی واحد پہلی بندرگاہ ہے جہاں یورپی اقوام کا باقاعدہ آناجانا لگا رہتا تھا۔
بیسویں صدی کے اوائل کی دوسری اور تیسری دہائیوں میں تو باقاعدہ پروگرام اور جامع منصوبہ بندی کے تحت اِسے ماڈرن شہر کی صورت دی گئی۔وسیع وعریض گلیاں ،جدید سیوریج سسٹم ،دکانوں کے ساتھ راہداریاں ،جگہ جگہ پارک ،سیلاب سے بچاؤ کے لیے بند تعمیر ہوئے۔اِس کے یورپی سرپرست اِسے کینٹن cantonکہتے تھے۔علم کا مرکز،سیاست کا گڑھ، چینی انقلاب کو پروان چڑھانے والا شہر۔
محمد بخش نے شہر کی اہم جگہوں کی وضاحت بھی کی کہ ہمارے لیے اِس مختصر وقت میں کن کن کو دیکھنا بہتر رہے گا۔

یہاں دیکھنے والی آخری چیز بس اب قبرستان تھا۔ اٹھے کہ اسے دیکھیں اور آگے بڑھیں۔ سچی بات ہے قبرستان کیا تھا؟ یہ وسیع و عریض ٹکڑے پر مشتمل سبز پودوں اور جھاڑیوں میں گھرا واقعی حیران کن منظر پیش کرتا تھا۔اس میں مہکتا باغ کیا تھا؟جیسے حسن اور خوشبوئیں اکٹھی ہوکر خوشیاں منا رہی ہوں کہ ہم بہت مقدس اور اہم ہستیوں کا لطیف سا بار اپنے اوپر اٹھا کر بہت مسرور ہیں۔ اُن کی زندگیاں اوپر والے کی محبت اور اس کی مخلوق کی خدمت میں گزری تھیں۔
اس ماحول میں ڈاکٹر عمر یاد آئے۔جن جذبات کا اظہار انہوں نے کیا تھا۔میں وہی کیفیت اِس وقت اپنے اوپر طاری ہوتے محسوس کرتی تھی۔دعائیں
پڑھیں۔ دعا ئیں مانگیں۔اور دھیمے سے کہا۔
‘‘میں کب اِس قابل تھی کہ چین کے اِس ثقافتی ورثے کے تحفظ کی اِس خوبصورت اکائی کو دیکھتی جو دراصل میرا بھی عظیم سرمایہ ہے۔’’

کھانے کی ذرا طلب نہیں تھی۔بھائی چارے کی محبت میں لتھڑی چکن پائیز دہی کے دو ڈبوں اور خیر سے ڈرائی فروٹ کے پھکّوں نے ذرا بھی گنجائش نہیں رہنے دی تھی۔پائیز تو خیر سے ڈنر کے لیے بھی بچ گئی تھیں۔چائے یا کافی کا ایک کپ اور فقیروں کا شاندار ڈنر۔سبحان اللہ۔ اب شہر میں گھومنا تھا اور کسی ہوٹل کو بھی دیکھنا تھا۔
میری تجویز پر کہ ہم کسی بھی بس میں سوار ہوجائیں۔گھومیں پھریں ۔شام ڈھلے ٹیکسی والے سے کسی ہوٹل میں لے جانے کا کہیں۔
عمران ہنسا اور بولا ۔‘‘آپ اِسے اتنا آسان سمجھتی ہیں۔یہ بہت بڑا شہر ہے۔’’ اس بات پر تھوڑا غصہ تو آیا دل نے کہا۔
‘‘لو یہ تو میری عمر بھر کی سیاحتی مہارت کو چیلنج کرنے والی بات ہوگئی ہے۔ ایسے میں چپ تو نہیں رہوں گی۔رشتہ گو نازک ہے مگر اب پرانا بھی ہوگیا ہے۔ خیر ہے۔’’
‘‘ارے بیباکیا ماسکو سے بھی بڑا ہے۔روم،میڈرڈیا استنبول بہت سارے نام گنوا دئیے۔میرا تو طریقہ کار ہی یہی ہوتا تھا۔ماسکو مشکل ترین شہر تھا کہ روسی نہیں آتی تھی اور وہ لوگ انگریزی نہیں بولتے تھے۔ میرے خیال میں شہر سے واقف ہونے کا بہترین طریقہ یہی ہے۔پاس نقشہ ہو ۔ ہوٹل کا کارڈ سنبھالا ہوا ہو۔بس تو پھر ڈر کس بات کا۔
خود ستائی ہرگز نہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ جب میں ماسکو سے واپس آرہی تھی اس کی میٹرو سے میری شناسائی کا کچھ یہ حال تھا کہ میں ایک عام روسی شہری سے زیادہ ماسکو سے واقف ہوگئی تھی۔ اور یہاں تو مقام شکر ہے کہ تم چینی تھوڑی بہت بول لیتے ہو۔’’
تاہم دونوں میاں بیوی نے اِس رائے سے اتفاق نہیں کیا۔

ہائے دل مسوس کر رہ گئی۔ہوتی نہ میری کوئی سہیلی ساتھ اور ہوتیں ہم دونوں ۔کیا مزے آنے تھے۔
بہرحال ٹیکسی میں گھومتے پھرے ۔کیا شہر تھا۔عمارتوں پارکوں سے سجا۔دفعتاً مجھے خیال آیا کہ ہم نے رات تو یہاں گزارنی ہی ہے۔ ہوٹل بھی کوئی ڈھونڈنا ہے تو کیوں نہ Shamian چلے جائیں۔ کل اُن لوگوں سے ملیں۔رات کی فلائٹ سے واپسی ہے۔بہتیرا وقت ہے۔مزہ آئے گا۔
اور جب اِس تجویز کا ذکر دونوں سے کیا تو شکر ہے کہ تجویز انہیں بھی اچھی لگی۔ عمران نے نور بحزی کو فون کیا اور کسی مناسب سے ہوٹل کا پتہ پوچھا۔
نور بحزی نے بتایا تھا Swanفائیو کیا سکس سٹار سے بھی آگے کا ہوٹل ہے۔مگر Aiqun Hotelبھی ٹھیک ہے۔بکنگ کے لیے کہہ دیتا ہوں۔
تعاون بڑا بھرپور تھا کہ کمرے کا کرایہ بہت مناسب تھا۔ہوٹل آنے کے لیے دونوں طریقے سمجھا دئیے کہ میٹرو سے بھی آسکتے ہیں۔ فیری سے بھی۔میٹرو اسٹیشن اور فیری گھاٹ دونوں جگہوں سے ٹیکسی مل سکتی ہے۔

یہاں میں نے زبان کھولنے اور فیری کے لیے اپنی خواہش ظاہر کرنے سے گریز کیا۔اب سچی بات ہے فیری میں سوار پانیوں پر تیرتے ایک اور نئے جہاں کو دیکھنا تو بڑا پُر لطف تجربہ تھا ۔چلو چھوڑو جوڑی اگر اِن منظروں سے محظوظ ہونا نہیں چاہتی تو پھر بھئی اُن کی مرضی۔
بس میں نے تو ذرا اوپر والے کو رجھانا تھا۔ظاہر ہے دھرتی کے منظروں کا حسن دیکھ کر بے اختیار ہی اس پر پیار آنا شروع ہوجاتا ہے۔ صدقے قربان ہو جانے کو جی چاہتا ہے۔اور بھئی کیسے نہ چاہے گا کہ اِس مہم جوئی کا تو کہیں گمان بھی نہ تھا۔ اس کی محبت ہی ہے
ناکہ وہ یکایک نئے دروازے کھول رہا ہے۔پر پھردل کو تسلی دی۔جزیرے پر جتنا جی چاہے واری صدقے ہوجانا کسی نے روکنا ہے تمہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply