رودادِ سفر (32) ۔۔شاکر ظہیر

ہماری محفل کو اڑھائی گھنٹے ہو گئے تھے ۔ ( HE TONG JUN ) اور ان کی بیوی بھی بہت اطمینان سے ایک ایک بات سمجھا رہے تھے اور ساتھ ساتھ میرے سوالات کی وضاحت بھی کرتے جائے ۔ ان کےلیے بھی یہ ایک حیرت اور خوشی کی بات تھی کہ میں ایک غیر ملکی اتنے شوق سے ان کی ہسٹری جاننا چاہتا ہوں ۔ میری اپنی بیوی کو اس ہسٹری سے زیادہ واقفیت نہیں تھی اس لیے مجھے ان سے ہی جو معلومات ملنی تھیں وہی میرے لیے قیمتی تھیں ۔ اور یہ موقعہ بھی اس مصروف شہر میں کم ہی دوبارہ ملنا تھا اس لیے میں نے بھی پوری کوشش کی کہ جو علم حاصل کر سکتا ہوں کر لوں ۔
شام کے پانچ بج چکے تھے دو بار میری بیوی ماریا کا فون بھی آیا تھا کہ کب واپس آؤ گے ۔ میں نے اسے بتایا کہ دوست کے پاس کسی کام سے آیا ہوں کچھ وقت لگے گا ۔ خیر وہیں ان کے دفتر میں میں میں نے عصر کی نماز پڑھی جس کےلیے ایک چھوٹی سی کپڑے کی جانماز میں اپنے ساتھ رکھتا تھا ۔ پھر کھانے کا وقت ہو گیا تھا ہم تینوں اور چوتھا ان کا چھوٹا سا بیٹا باہر نزدیک ہی لانزو ( Lanzhou ) نوڈلز کھانے آ گئے ۔ یہ مسلمانوں کے ریسٹورنٹ ہیں اور ان کے نوڈلز پورے چائنا میں مشہور ہیں ۔ مسئلہ ان دونوں کا نہیں میرا تھا کہ یہی حلال کھانے کے رسٹورنٹ ہر جگہ آسانی سے مل جاتے تھے ۔ میرا خیال کرتے ہوئے وہ میرے ساتھ یہاں کھانے کےلیے آئے تھے ۔ کھانے کے بعد ہم دوبارہ واپس ا کر ان کے دفتر بیٹھ گئے اور بات وہیں سے شروع کی ۔
اس کے ساتھ ساتھ 1927 سے 1949 تک کیمونسٹ ( CPC ) اور نیشنلسٹ ( KMT ) کے درمیان سول وار رہی ۔ اس کی بنیادی وجہ نظام حکومت تھا ۔ کیمونسٹ عناصر یہ چاہتے تھے کہ چائنا پوری طرح ایک سوشلسٹ ملک بنے اور جن شہروں میں وہ طاقت میں تھی وہاں اس نے کوشش بھی کی کہ ایک سوشلسٹ ریولوشن (Revolution ) آ جائے ۔ حالانکہ نیشنلسٹ پارٹی ( KMT ) بھی سویت یونین سے مدد لے رہی تھی لیکن اس کے باوجود ان کی اور کمیونسٹ پارٹی ( CPC ) کی سوچ میں فرق تھا ۔ پہلی بات جمہوریت تھی ، دوسرے جب چن کائی شک ( Chen Kai chik ).حکومت میں آئے تو وہ کیمونزم کے بالکل خلاف تھے ۔ انہوں نے ناردرن آپریشن سے کامیابی کے بعد کیمونسٹ کے خلاف مورچہ کھول دیا اور اپنی نیشنلسٹ پارٹی ( KMT ) سے سبھی ممبرز کو جو تھوڑی سی بھی کیمونسٹ سوچ رکھتے تھے یا تو مروا دیا یا ہٹا دیا گیا ۔ یہیں سے سول وار کی ابتداء ہوئی ۔ پہلے شہروں میں جہاں کیمونسٹ پارٹی مقبول تھی وہاں سے بھگا دی گئی اور پھر کیمونسٹ پارٹی نے دیہی علاقوں میں خود کو مضبوط کرنا شروع کر دیا ۔ ان دیہی علاقوں میں ذرائع مواصلات نہ ہونے کی وجہ سے حکومت کےلیے ان علاقوں سے کیمونسٹوں کو ہٹانا بہت ہی مشکل کام تھا ۔ دوسرے کیمونسٹوں نے گوریلا جنگ شروع کر دی ۔ 1934 میں اس کیمونسٹ ریڈ آرمی کو ہر طرف سے گھیر لیا گیا لیکن یہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے ۔ اور ایک سال میں لانگ مارچ کے ذریعے دس ہزار کلومیٹر کا سفر طہ کیا ۔ چائنا میں اسے بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اسی کی وجہ سے کیمونسٹ ریولوشن ہوا ۔ اسی لانگ مارچ میں کیمونسٹ ریڈ آرمی چیرمین ماؤ کو بچا کر ( Yan’an ) کے پہاڑوں میں لے گئے جو سانشی ( shanxi ) اور کانسو ( Gansu ) کے بارڈر پر ہے اور یہیں انہوں نے دس سال کےلیے اپنا بیس کیمپ بنائے رکھا ۔ اس لانگ مارچ میں صرف لوگ ہی پیدل سفر نہیں کر رہے تھے بلکہ ان کے ساتھ مشینری بھی تھی کیونکہ مختلف دیہی علاقوں میں انہوں نے اپنی حکومت قائم کی ہوئی تھی ۔ اس لانگ مارچ میں چیرمین ماؤ ایک اہم لیڈر کے طور پر سامنے آئے اور ان کے ساتھ دوسرے دو چن ہو ان لائی ( Zhou Enlai ) اور تن شاؤ پن ( Deng Xiaoping ) ۔ یہ وہی تن شاؤ پن ( Deng Xiaoping ) جو 1970 میں چائنا میں معاشی ریفارمز لے کر آئے تھے ۔ 1931 میں چاپان نے حملہ کرکے منچوریا ( Manchuria ) کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا منچوریا میں تین صوبے شامل ہیں ( Heilongjiang, Jilin, Liaoning) ہیلونگجیانگ ، لیوننگ اور جیلنگ ۔ یہ بہت زرخیز علاقہ ہے اس کے علاؤہ یہاں قدرتی ذخائر بہت زیادہ ہیں ۔ 1937 میں چابان نے دوسرا بڑا حملہ کر کے بیجنگ ، شنگھائی ، نانجنگ جیسے اہم شہروں پر قبضہ کر لیا ۔ اسے دوسری چائنا جاپان وار ( second sino Japan war ) کہا جاتا ہے جبکہ پہلی جنگ 1894 میں ہوئی تھی ۔ اس کے خلاف اس وقت نیشنلسٹ حکومت کچھ نہ کر پائی کیونکہ یہ کیمونسٹوں سے لڑائی میں مصروف تھی ۔ اس کے بعد نیشنلسٹ اور کیمونسٹ پارٹی نے یہ فیصلہ کیا کہ ہمیں ایک دوسرے سے جنگ کی بجائے باہر سے آئے دشمن سے مل کر لڑنا ہے ۔ نیشنلسٹ حکومت اس دوران ایک تو جاپان سے لڑ رہی تھی اور دوسری طرف کیمونسٹ گوریلوں سے ، اس وجہ سے یہ انتہائی کمزور ہو گئی اور اس کے کئی کمانڈر مارے گئے اور یہ دیوالیہ ہونے کے قریب ہو گئی ۔ لیکن مغربی ممالک اس کی پشت پر کھڑے تھے اس حکومت کو ہتھیار اور پیسہ دیتے رہے ان میں اہم سپورٹر امریکہ تھا ۔ جاپان نے پہلے نیشنلسٹ حکومت کے درالحکومت نانجنگ پر قبضہ کیا تو انہوں نے اپنا دارلحکومت اوہان ( Wuhan ) کو بنا لیا لیکن جاپانیوں کے اوہان ( Wuhan ) پر قبضے کے بعد حکومت نے چھونگ چھن ( Chong Ching ) کو درالحکومت بنا لیا ۔ جاپان کے اس نانجنگ ( Nanjing ) قبضے کو نانجنگ قتل عام ( Nanjing Massacre ) کہا جاتا ہے کیونکہ اس دوران بہت بڑی آبادی کو قتل کیا گیا اور آج تک اسی وجہ سے جاپان کے چائنا کے ساتھ تعلقات میں گرمجوشی نہیں ہوتی حالانکہ جاپان نے اس پر چائنا سے معافی مانگی ہے ۔ نیشنلسٹ آرمی جس شہر سے شکست کھا کر پیچھے ہٹتی تو اس شہر کو آگ لگا دیتی فصلیں جلا دیتی اور پانی میں زیر ملا دیتی تاکہ یہ چیزیں فاتح جاپان آرمی کے بھی کام نہ آ سکیں ۔ لیکن اس کے ساتھ وہاں کے رہنے والے باشندوں کےلیے بھی یہ باتیں نقصان دہ ثابت ہوئی اور وہ ان کے خلاف یو گئے ۔ ایک شہر سے پسپا ہوتے آگ لگائی گئی جس سے تقریبآ بیس ہزار لوگ ذندہ جل مرے ۔
جاپان کے خلاف کیمونسٹ اور نیشنلسٹ دونوں لڑ رہے تھے لیکن جاپان ہمیشہ اپنے آرمی نیشنلسٹ کے خلاف لے کر جاتا کیونکہ اصل حکومت وہی تھی ۔ اس بات کا اصل فائدہ کیمونسٹوں کو ہوا ۔ کیونکہ اس دوران چیرمین ماؤ نے اپنی کتب لکھی اور غریب کسانوں میں اسے پھیلایا ۔ چیرمین ماؤ نے ان کسانوں کو بتایا کہ اگر ہم کامیاب ہو گئے تو یہ زمین جس پر آپ کام کر رہے ہیں یہ بڑے جاگیر داروں سے لے کر آپ کے حوالے کر دی جائے گی ، آپ کے بچوں کےلیے فری تعلیم ہو گی ۔ ان وعدوں سے لوگ چیرمین ماؤ کی حمایت میں کھڑے ہو گئے ۔ دوسرے ریڈ آرمی یعنی کیمونسٹ آرمی جاپان کے خلاف گوریلا جنگ لڑتی تھی جس کی وجہ سے سویلینز کی اموات بہت کم ہوتی تھیں ۔ اس طرح عام لوگوں کے دلوں میں ریڈ آرمی کی حمایت بڑھتی گئی ۔
دوسری جنگ عظیم میں جاپان کی شکست کے بعد کیمونسٹ اور نیشنلسٹ کے درمیان پھر سے لڑائی چھڑ گئی ۔ منچوریا جس پر جاپان کا قبضہ تھا پر روس نے حملہ کر دیا ۔ تو چائنا کی نیشنلسٹ حکومت نے روس سے مطالبہ کیا کہ جاپان کے فوجی اور ہتھیار ہمارے حوالے کیے جائیں ۔ لیکن یہ سب کچھ روس نے کیمونسٹ پارٹی کی ریڈ ارمی کے حوالے کر دیا جس کی وجہ سے ریڈ آرمی یک دم بہت مضبوط ہو گئی ۔ اس ریڈ آرمی نے ایک کے بعد ایک شہر پر قبضہ کر لیا ۔ اور نیشنلسٹ حکومت کو بھاگ کر تائیوان جانا پڑا ۔ تائیوان کی حکومت آج بھی یہی کہتی ہے کہ ہم اس چائنا حکومت کے اصل نمائندے ہیں جسے الیکشن میں چائنیز عوام نے چنا تھا ۔ دوسری طرف چیرمین ماؤ نے ایک اکتوبر 1949 کو پیپلز ریپبلک آف چائنا کا اعلان کر دیا ۔ لیکن دونوں طرف ایک ہی حال رہا چیرمین ماؤ بھی مطلق العنان حکمران رہے اور چن کائی شیک بھی تائیوان میں اپنی موت 1975 تک مطلق العنان حکمران رہے ، کوئی جمہوریت لے کر نہیں آئے ۔
نیشنل حکومت کی ناکامی کی پہلی وجہ حکومت کی ساری طاقت کو مرکز کے پاس رکھنا تھا ۔ دوسرے جاپان کے خلاف لڑائی میں نیشنلسٹ حکومت کا بہت نقصان ہوا ۔ تیسرا نیشنلسٹ حکومت کے اہل کار بہت کرپٹ تھے ۔ اتنی لمبی لڑائی کےلیے حکومت نے عوام پر ٹیکسز کا بوجھ بہت بڑھا دیا ۔ تیسرے کمیونسٹوں کا پروپگنڈا بہت مضبوط تھا اور ان کی لیڈر شپ میں اتحاد تھا ۔ پروپیگنڈا کمپین میں ہر ہر گروپ کو وہی کچھ کہا جو کچھ وہ سننا چاہتے تھے ۔ جسے خودمختاری کا وعدہ چاہیے تھا وہ بھی اپنی حمایت کے بدلے وعدہ دے دیا ۔ حالانکہ بعد میں وہ وعدے ایفا نہ ہوئے ۔
اپنے چائنیز دوست سے یہی معلومات مجھے چاہیں تھیں ۔ اب ایک ایک پہلو رہ گیا تھا کہ کیمونسٹ ریڈ آرمی اور نیشنلسٹ کی حکومت کی جنگ کے دوران مسلمان علاقوں کے وار لارڈز نے کس کا ساتھ دیا ۔ اور پھر کیمونسٹ پارٹی کی فتح کے بعد اس علاقے کے مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا ۔ یہ معلومات مجھے اس دوست سے نہیں مل سکتی تھی ان معلومات کےلیے کوئی مسلمان دوست جو مجھ پر اعتماد بھی کرے اور اس علاقے کا بھی ہو مجھے ڈھونڈنا تھا ۔ کیونکہ جس کی کہانی تھی وہی سنائے ، جس پہ گزری وہی اپنی داستان سب سے بہتر سنا سکتا تھا ۔
وقت کافی ہو گیا اپنے دوست ( HE TONG ) اور ان کی بیوی سے اجازت لی اور موٹر سائیکل پر گھر کا رخ کیا جہاں میری تھانیدار بیوی تفتیش کےلیے تیار ہو کر بیٹھی تھی ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply