• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • عمران خان اور پاکستان کی ناگفتہ بہ اقتصادی حالت۔۔۔(قسط1)عامر کاکازئی

عمران خان اور پاکستان کی ناگفتہ بہ اقتصادی حالت۔۔۔(قسط1)عامر کاکازئی

موجودہ حکومت نے جب سے حکومت سنبھالی ہے،سب سے بُر ااثر ملک کی معیشت پر پڑا ہے۔ اپنی ناتجربہ کاری، نکما  پن اور ضد سے یہ ملک کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاچکے ہیں۔صرف پندرہ ماہ میں معاشی نمو آدھی ہو کر 2.4 ہو چکی ہے۔معاشی شرح نمو پچھلے دس سال کے سب سے کم درجے پر ہے۔ اس کو یوں سمجھیے کہ عملاً فریز ہونے کی پوزیشن پر ہے۔ مہنگائی تقریباً بارہ فیصد کے لگ بھگ ہے۔ ڈالر کے سو سے ایک سو ساٹھ روپے پر آ نے کی وجہ سے ملک میں استعمال ہونے والی ہر چیز مہنگی ہوچکی ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق 2016میں بے روزگاری  کی شرح چار فیصد تھی جو کہ 5.9فیصد تک پہنچ گئی ہے رواں مالی سال ترقیاتی منصوبوں میں بڑی کٹوتیوں کے سبب ملک میں بے روزگاری بڑھتی جارہی  ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ ایک برس کے دوران پانچ لاکھ گریجوایٹ بے روزگار ہوئے ہیں۔ جبکہ اس وقت سرکاری اداروں میں ایک لاکھ 7ہزار اسامیاں خالی پڑی ہوئی ہیں جن کو پُر کرنے کا حکومت کا کوئی  موڈ نہیں۔ یہ ہی حال میڈیا کے ساتھ بھی ہوا۔ کئی ٹی وی چینلز اور نیوز پیپرز بند ہونے کے قریب پہنچ گئے ہیں، جس کی وجہ سے ہزاروں میڈیا کے لوگوں کا بے روزگار ہونے کے امکانات  ہیں ۔

پچھلی حکومت میں کئی انٹرنیشنل کمپنیز نے پاکستان میں گاڑیاں بنانے کے کارخانے لگانے کے بارے میں سوچا، کچھ نے آکر کام بھی شروع کیا۔ اس ایک سال میں اب حالت یہ ہے کہ ٹیوٹا اور ہنڈا کے کارخانے بند ہونے کے قریب ہیں۔ دونوں صرف اپنی انوینٹریز ختم کرنے کے چکروں میں ہیں۔دونوں کمپنیز کا اپنا 2020 کا ماڈل پاکستان میں لانچ کرنے کا کوئی  موڈ نہیں۔ سوزوکی سوائے آلٹو کے نئے ماڈل کے باقی کے ماڈل بنانا بند کر چکا ہے۔ گاڑیوں کے پارٹس بنانے والی فیکٹریز بھی بند ہونے کے قریب ہیں۔ جس کی وجہ سے تقریبا ًپچاس ہزار لوگ بیروزگار ہو جائیں گے۔

اسی طرح بڑی انڈسٹریز کا بھی بُرا حال ہے، فیصل آباد جو کہ کاٹن اور اس کی مصنوحات کا ہب ہے، اس میں پاور لوم فیکٹریاں بند پڑی ہیں۔بڑی صنعتوں کی بندش کی وجہ سے اپ سٹریم اور ڈاؤن سٹریم سے وابستہ انڈسٹریز بھی شدید متاثر ہو چکی ہیں۔

مشہور انڈسٹریالسٹ مرزا اختیار بیگ اپنی تحریر میں لکھتے ہیں کہ “ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ٹیکس ریونیو کامیاب معیشت کا ایک By Productہے، اگر ہماری معیشت پھلے پھولے گی تو ٹیکس ریونیو میں بھی اضافہ ہوگا۔”

موجودہ حکومت سمجھتی ہے کہ سارے بزنس مین، سارے صنعت کار اور سارے دکاندار ٹیکس چور ہیں۔اس لیے بجائے  کہ معیشت کو بحال کیا جائے، ان کی ساری توجہ بزنس مین طبقے  کو تنگ کرنے پر مرکوز کی ہوئی  ہے۔ کرپشن کرپشن اور چور چور کے نعرے لگاکر معیشت کی بد حالی کا ذمہ دار بزنس مین طبقے  کو ٹھہرایا جا رہاہے۔

ایک اخباری رپورٹ کے مطابق اگلے بجٹ سے پہلے پہلے تقریباً 30 ہزار سے زائد لوگوں کو 20 حکومتی اداروں سے نکالا جائے گا۔ اس کے علاوہ 10 کے قریب حکومتی اداروں کی نجکاری کی جائے گی

اخبار کے مطابق 4 ہزار ملازمین پی آئی اے سے، 3 ہزار آئل اینڈ گیس ڈیویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ سے، 3 ہزار پاکستان سٹیل ملز سے، 4 ہزار پاکستان ٹیلی ویژن سے، 3 ہزار ریڈیو پاکستان سے، 4 ہزار سوئی ناردرن گیس پائپ لائن لمیٹڈ سے، 3 ہزار سوئی سدرن گیس کمپنی سے، 10 ہزار واپڈا سے، 300 پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) سے، 6 ہزار 700 پمز، پولی کلینک، این آئی آر ایم ہاسپٹل / ایف جی ایچ چک شہزاد سے اور 150 ملازمین نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ سے فارغ کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن، پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل، ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان اور سول ایوی ایشن اتھارٹی کے تمام ملازمین کو گھر بھیجا جا سکتا ہے کیونکہ یہ ادارے ختم یا پرائیویٹائز کیے جا رہے ہیں۔

کچھ دن پہلے عمران خان کے ایک مشیر خاص نے فخر یہ بتایا کہ ان کے دور حکومت میں ملک سے باہر نوکری کے لیے جانے والوں کی تعداد، پچھلی حکومت کے مقابلے میں تقریباً دو لاکھ زیادہ ہوئی ہے۔ یہ پڑھنے والے فیصلہ کریں کہ یہ بات فخر کی ہے یا یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ملک سے برین ڈرین ہو رہا ہے۔

نوٹ:اس مضمون کے فگرز اور معلومات عارف نظامی صاحب اور مرزا اختیار بیگ کے ایک کالم، ڈان ، ڈیلی ٹائمز، نواۓوقت، دنیا نیوز، ڈی نیوز، فنانشل ٹائمز، اور ایکسپرس ٹریبیون سے لیے گئے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے!

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply