میرے پشتون ولی کے زندہ کردار۔۔۔عارف خٹک

ایک کرنل صاحب ہوا کرتے تھے۔ کرنل حبیب اللہ منڈوہ لتمبر کے رہنے والے تھے۔ انتہائی سادہ مزاج کے انسان تھے۔ ایک بار بنوں سے ایمرجنسی میں کوہاٹ جانا ہوا تو رستے میں ان کا گاؤں پڑ رہا تھا۔ سو ڈرائیور سے کہا گاڑی گاؤں کی طرف موڑ لو۔ دو تین گاڑیاں پروٹیکشن کیلئے بھی تھیں۔ سب کو گاؤں لیکر آگیا۔ گندم کٹائی کا موسم تھا اور کرنل صاحب کے والد کٹائی کررہے تھے۔ کرنل صاحب فورا ً بھاگتے ہوئے گئے اور درانتی پکڑ کر گندم کاٹنے لگے۔ فوجی جوانوں نے بھی بھاگ کر درانتیاں ڈھونڈنی شروع کردیں ۔۔تو کرنل صاحب دھاڑے۔
کہ خبردار آپ لوگ میرے مہمان ہو۔ ان سب جوانوں کو بیر کے درخت کے نیچے سائے بٹھایا،اور خود گندم کٹائی میں ابا کیساتھ مصروف ہوگئے۔
دوپہر حجرے میں سب سپاہیوں اور صوبیداروں کو اپنے حجرے  میں لیکر گئے ، سب کے ہاتھ دھلوائے اور پانی کا جگ پکڑ کر اپنے جوانوں کو کھانے کے دوران پانی پلاتے رہے ۔ کھانا کھانے کے بعد پھر سب کے ہاتھ دھلوائے۔
اگلے دن بنوں کینٹ میں سب کی کلاس لے لی کہ خبردار کوئی فری نہ ہو۔ اس وقت میں اپنے گاؤں کا حبیب شاہ تھا، مگر ابھی یونٹ کا کمانڈنگ آفیسر ہوں۔

کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل مظہر شاہین خٹک ایک نر پشتون اور درد مند دل رکھنے والا حساس بندہ ہے۔ ہمارے فیس بک کے دوست رضوان الله محسود کے والد کو اسلام آباد ائیرپورٹ امیگریشن سے جب اٹھایا گیا،تو میں نے اس وقت کے وزیر داخلہ شہریار آفریدی سے درخواست کی کہ یہ ظلم ہے۔ اگر رضوان پی ٹی ایم کا کارکن ہے تو اس کے والد کو غائب کرنا چہ معنی دارد؟۔۔ مظہر صاحب کو اپروچ کیا گیا، تو مظہر صاحب نے بذات خود رضوان اور حیات پریغال اور دوسرے پی ٹی ایم کے کارکنان کو بُلاکر روایتی پشتون ولی کا اعادہ کیا اور اگلے دن رضوان اور دوسرے چالیس لاپتہ افراد کو بنوں جیل سے رہا کردیا گیا۔

میجر جنرل شاکر خٹک

جرگہ پاکستان کیلئے مظہر صاحب نے ہم لوگوں کیساتھ جس طرح سے بھاگ دوڑ کی،وہ قابلِ تحسین ہے۔ وہ ہمیشہ کہتے رہتے ہیں کہ پی ٹی ایم گرچہ ناراض بچے ہیں۔ بس میں چاہتا ہوں کہ فاٹا میں تعلیمی انقلاب آجائے تاکہ نئی نسل یہ روز روز کی جنگوں سے آزاد ہوجائے۔ مظہر صاحب کا ہی خواب ہے کہ آج عابد آفریدی اور اس کی ٹیم سابقہ فاٹا میں “آپریشن بہار” کے تحت گاؤں گاؤں جاکر ٹینٹ سکول کھولنے کیلئے دن رات کوشاں ہیں۔

مظہر شاہین کا تعلق ضلع کُرک کے ایک غریب گھرانے سے ہے، جنہوں نے سرکاری سکول کے ٹاٹ پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کی اور فوج میں کمیشن حاصل کیا۔ اپنی سرزمین سے جڑے رہنا اور پشتون ولی کا اعادہ کرنا، مہمان نوازی کا شوقین اور خیبر پختونخوا میں زندگی کے مختلف شعبوں سے کامیاب اور غریب لوگوں کی مدد کرنا، جس میں معذور افراد کی بحالی بھی شامل ہیں۔۔ مظہر صاحب ذاتی دلچسپی لیکر ان افراد کی مدد کرتے رہتے ہیں۔

مظہر صاحب شاید پاکستان کے واحد کور کمانڈر ہیں جن کے دروازے ایک عام بندے کیلئے چوبیس گھنٹے کھلے رہتے ہیں۔ اگر آپ مظلوم ہیں یا فوج کے کسی نامناسب رویے کا شکار ہوچکے ہیں تو آپ بلاجھجھک جنرل صاحب کے پاس اپنی شکایت لیجا سکتے ہیں ۔ اور اُن کی مہمان نوازی کا عالم یہ ہوگا کہ وہ زمین پر بیٹھ کر،خود آپ کے لیے چائے بنائیں گے۔ ۔ مظہر صاحب نے فاٹا میں زیرِ قیادت فوجیوں کو سختی سے کہا ہے کہ کسی سویلین خصوصاً خواتین یا بزرگ افراد کیساتھ بدتمیزی کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ لہذا پشتون روایات کا مکمل طور پر احترام کیا جانا چاہیے۔

اس طرح کا ایک اور کردار جی او سی میرانشاہ میجر جنرل شاکر خٹک کا بھی ہے۔ جی او سی صاحب کیڈٹ کالج رزمک سے فارغ التحصیل ، اور شمالی وزیرستان میں تعنیات ہیں۔
میں نے فوج میں ایسے روایتی کردار بہت کم دیکھے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں نے مخالفین کو ڈیل کرنا مظہر صاحب سے سیکھا ہے۔ میرے مخالفین جب مجھے گالیاں یا کوسنے دیتے ہیں تو میں مسکرا کر خاموش ہوجاتا ہوں۔ یہی عادت مظہر صاحب کی ہے۔ کہتے ہیں کہ جو بندہ مظلوم ہو وہ باتیں سنا کر اپنا دل ہلکا کرسکتا ہے۔ یہ اس کا حق ہے۔ فاٹا کے مشیران، نوجوان اور سیاسی قیادت سب اس بات پر متفق ہیں کہ جنرل صاحب پہلے پشتون جنرل ہیں جس میں پشتون حجرے کے مشیر کی ساری خصلتیں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ دھیمے مزاج کا یہ ا فسر اتنا پروفیشنل ہے کہ فوجی قواعد کی خلاف ورزی پر کھڑے کھڑے فارغ کردیتا ہے۔ بھلے آپ کا تعلق اس کے اپنے خاندان سے کیوں نہ ہو۔
میری شہری بیوی مجھ سے بار بار پوچھتی ہیں کہ آپ شہر رہتے ہو۔ بچے یہاں شہر میں پڑھتے ہیں۔ مگر آپ مہینے میں ایک دو دفعہ گاوں جاتے ہو۔ تو جواب دیتا ہوں کہ ابھی جوان ہوں۔ جب مرجاونگا تو میرے لاشے کو کاندھا دینے والا میرے ہی گاوں میرصلی خان ماما ہوگا۔ تو میں جن لوگوں سے موت کے بعد بھی الگ نہیں ہوسکتا۔ تو زندہ ہوکر کیسے الگ رہوں۔ میں اپنا حجرہ نہیں چھوڑ سکتا۔ اپنی پشتون ولی نہیں چھوڑ سکتا۔ میں اپنے رسوم اور روایات کا اسیر ہوں
میری طرح غریب ماؤں کے یہ بچے یقیناً ہمارے پختونخوا کا سرمایہ ہیں ۔ مجھے ان کرداروں پر فخر ہے۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply