• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • یہ ایک سیاسی لڑائی ہے،کوئی مذہبی معاملہ نہیں۔۔۔اسد مفتی

یہ ایک سیاسی لڑائی ہے،کوئی مذہبی معاملہ نہیں۔۔۔اسد مفتی

سپین کے شہر لائٹرا کے مئیر اور اس کی کونسل نے کہا ہے کہ انہیں اس بات پر فخر ہے کہ لائٹرا سپین میں خواتین کے خلاف امتیاز کے خلاف برتے جانے سے متعلق برقعہ جیسی چیز کے خلاف انتظام کرنے کے لیے پہلا شہر بنا گیا ہے۔
انہوں نے سپین کے قومی ریڈیو اینڈ ٹیلی ویژن پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مردوں اور عورتوں کے درمیان پابندی ایک مساوی معاملہ ہے،ہم سپین میں غیر مساوی کام نہیں کریں گے۔
اس طرح لائٹرا شمالی سپن کے شہر کی میونسپل عمارتوں میں مسلم خواتین پر برقعہ پہننے پر لگائی گئی پابندی کی عمل آوری کے لیے ملک کا پہلا شہر بن گیا۔یاد رہے کہ لائٹرا کی کُل آبادی کا ۳ فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔
اُدھر کے دارالحکومت دمشق میں عام مقامات بالخصوص یونیورسٹیوں میں اب خواتین برقعہ استعمال نہیں کرسکیں گی،حکومت شام نے حجاب اور برقعہ کی پابندی کرنے والی لگ بھگ 1200خاتون ٹیچروں کو عہدے سے برطرف کردیا ہے۔اور انہیں ایسے سرکاری دفاتر اور اداروں میں منتقل کردیا گیا ہے۔جہاں طالبات سے ان کا ربط نہ قائم ہوسکے۔حکومت نے احکامات جاری کردیے ہیں کہ حجاب اختیار کرنے والی خواتین کو شام کی یونیورسٹیوں میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی جائے،کیونکہ شامی معاشرے کی اقدار،روایات،مزاج و اخلاق کے مغائر ہے،ایک اعلیٰ سرکاری عہدہ دار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے پر یہ بات بتائی کہ ہم اپنی دختران کو شدت پسندنظریات اختیار نہیں کرنے دیں گے۔شام وہ مملکت ہے جو ہمیشہ سے ہی شدت پسندی اور انتہا پسندی کا مخالف رہا ہے۔اس کی اپنی مخصوص تاریخ ہے،اس ملک میں تقریباً15فیصد خواتین حجاب اختیار کرنے والیوں میں شامل ہیں۔اسکارف کا استعمال بھی بہت کم ہوتا ہے۔شام میں اس وقت مذہبی شدت پسندی کی کوئی تحریک چلائی نہیں جارہی اور نہ ہی فوری طور پراس کا کوئی امکان موجود ہے۔
برطانیہ میں مسلم خواتین کے حجاب پر پابندی کی مہم چلانے والے ایک کنزرویٹیو ایم پی فلپ ہولو بون نے اپنے حلقہ انتخاب میں پردہ کرنے والی خواتین سے ملاقات کرنے سے انکار کردیا۔اخبار اینڈیپینڈنٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے فلپ ہولو بون نے کہا ہے کہ وہ اپنے حلقے کی سرجری میں برقع پہننے یا نقاب کے پیچھے چھپی خواتین سے ملاقات نہیں کریں گے،تاوقت کہ یہ اپنا نقاب نہ اتاردیں،ایم پی فلپ نے یہ بات زور دے کر کہی کہ میں نقاب پوش خواتین سے اسے اتارنے کے لیے کہوں گا،اگر خواتین انکا ر کریں گی توان سے کہوں گا کہ اگر تم میرا چہرہ دیکھ سکتی ہو تومیں تمہارا چہرہ کیوں نہیں دیکھ سکتا،؟چہرہ دیکھے بغیر میں یہ اطمینان نہیں کرسکتا کہ نقاب کے پیچھے کون ہے؟۔۔۔۔
میں ایسی خواتین سے ملاقات کرنے کے بجائے خط و کتابت کرنے کو ترجیح دوں گا،میرے حساب سے بھی ہر کسی کے لیے بعض مواقع ضرور آتے ہیں کہ کسی کا چہرہ دیکھنا ضروری ہوجاتا ہے،اس کاایک واضح ثبوت برطانیہ ہی کی ایک عدالت ہے کہ مجسٹریٹ نے نقاب پوش مسلم خاتون کی گواہی تسلیم کرنے سے انکار کررہا ہے،واقعات کے مطابق ایک 31سالہ مسلم خاتون جب لائیٹر مجسٹریٹ کورٹ میں چئیر مین بنچ اور لارنس فالکر کے روبرو اپنے شوہر پر مارپیٹ کرنے کے الزامات کی گواہی دینے کے لیے آئی تو جج نے کہا کہ وہ اس وقت تک اس کی گواہی تسلیم نہیں کریں سکیں گے جب تک وہ چہرے سے نقاب ہٹا کر بات نہیں کریں گی،کہ میں دوران گواہی تمہارے چہرے اور آنکھوں کے تاثرات کو نوٹ کرنا چاہتا ہوں،لیکن خاتون نے نقاب اتارنے سے انکار کردیا،
ابھی چند ماہ قبل مسلم ایجوکیشنل سنٹر آکسفورڈ کے چئیرمین ڈاکٹر ٹی ہارگی کا ایک بیان اخباروں میں شائع ہوا تھا،جس میں قرآن پر اتھارٹی اس ڈاکٹر ہارگی نے کہا تھا کہ قرآن میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ عورت کو برقعہ  پہناؤ،انہوں نے کہا کہ غیر ممالک کے عقائد تعلیمات سے متاثرہ مسلم مذہبی رہنما طویل عرصہ سے عورت کو بٹھانے اور اسے مرد کے  برابر رتبہ نہ دینے کی وکالت کررہے ہیں،یہ برین واشنگ عقائد و نظریات دراصل مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا سے مغرب میں آئے ہیں،جن کی کوئی قرآنی بنیاد نہیں ہے۔یہ نظریات دراصل اسلام کے وہابی،اکوافی،سلفی،خارجی اوردیوبندی جیسے بنیاد پرست اور سخت گیر مسلک کا پروپیگنڈہ ہے۔
یہاں یہ بات یاد رکھنے اور سمجھنے کے قابل ہے کہ یورپی یونین کے ممبر ممالک میں جہاں جہاں برقعہ  پر پابندی کا مطالبہ پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا ہے،اس بل کو بنیاد میں مذہب کے بجائے سکیورٹی وجوہات کو برقعہ  پر پابندی کی بنیاد بنایا گیا ہے،کہ برقعہ مذہبی عقیدہ کی علامت نہیں ہے،بلکہ یہ خواتین کی دوسرے درجہ زندگی “تابعدارانہ”کی زینت ہے۔
اکثر یورپین،ٹونی بلیئر کو چھوڑ کر، کے خیال میں برقعہ ایک طرح کی غلامی،محکومی اور پسماندگی کی نشانی اور علامت ہے۔یہی وجہ ہے کہ یورپی تمدن کی روایات کے مغائر مانا جاتا ہے اور یہی وہ بنیادی وجہ بھی ہے کہ مختلف ممالک میں حجاب،نقاب،جلباب،اور برقعہ کے استعمال پر پابندی بھی لگائی جارہی ہے،جبکہ مسلمان یہ سمجھتے ہیں مسلم خواتین کے تشخص،آزادی اورعقیدیت کی عظمت پر حملہ کرکے دنیا بھر کے مسلمانوں کو ذہنی اورروحانی اذیت سے دوچار کیا جارہا ہے۔
مسلم خواتین کے حجاب اور برقعہ  پر پابندی کے فیصلے کی یورپی عوام نے حمایت جبکہ امریکی عوام نے مسترد کردیا ہے۔واشنگٹن سے تعلق رکھنے والے پیو ریسرچ سنٹر کے گلوبل پروجیکٹ کے مطابق جرمنی میں 75فیصد،برطانیہ میں 62فیصد،اٹلی میں 71فیصد،سپین میں 73فیصد،ہالینڈ میں 58فیصد،اور بیلجئم میں 65فیصد عوام نے کہا ہے کہ و ہ اپنے ملکوں میں پبلک مقامات پر برقعہ  پہننے پر پابندی کی حمایت کرتے ہیں،جبکہ 9/11کے زخم خوردہ امریکیوں کی دوتہائی کا کہنا ہے کہ وہ اس منصوبے کو مسترد کرتے ہیں،پابندی کے حق میں فیصلہ دینے والوں کا کہنا ہے کہ برقعہ ایک خطرناک ہتھیار محسوس ہوتا ہے،کہ اس ٹینٹ نماشئے کے پیچھے کوئی بھی دہشت گرد یا سماج دشمن خود کو پوشیدہ رکھ سکتا ہے،اس لیے احتیاطی اور حفاظتی نقطہ نظر سے پابندی کو اہم اور ضروری خیال کرتے ہیں،اس لیے عوامی مفاد اور عوام کی حفاظت کی خاطر خاص وجوہات کی بنا پر پابندی لگادینی چاہیے۔
یہاں ایک طرف یورپئین ممالک کے لوگ اور حکومتیں برقعہ  پر پابندی لگانے پر مُصر نظر آتے ہیں،وہاں چند امریکیوں کا خیال ہے کہ چند درجن خواتین ہی برقعوں کا استعمال کرتی ہیں،تو کیا یہ برقعہ پر پابندی کا قانون محض چند خواتین کے لیے لاگو کیا جارہا ہے۔؟
اور پھر کیا آپ کسی فرد پر پابندی لگا سکتے ہیں کہ وہ کیا پہنے اور کہا نہیں پہنے؟
اس سلسلہ میں آپ کب تک حقوق انسانی کو پامال کرتے رہیں گے؟
اب آخر پر ایک سوال۔۔۔۔جس کا جواب ہنوز مجھے نہیں مل سکا کہ اگر مغرب اور مغربی تہذیب و ثقافت و سیاست باطل ہے تو کیا وجہ ہے کہ “باطل”نے ساری دنیا کواپنے قبضے میں لے رکھا ہے،اور یہ باطل اُمڈ اُمڈ کر کیوں آرہا ہے؟اس نے کیوں ساری دنیا کو غلام بنا لیا ہے؟
میں بھی سوچتا ہوں،آپ بھی سوچیے۔
جب نظم کائنات مکمل نہ ہوسکا
بڑھ کر خدائے وقت نے آواز دی مجھے!

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply