• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • یہ دنیا ان شعلہ ساماں لوگوں نے آپس میں تقسیم کرلی ہے۔۔اسد مفتی

یہ دنیا ان شعلہ ساماں لوگوں نے آپس میں تقسیم کرلی ہے۔۔اسد مفتی

ایک بین الاقوامی امریکی ویب سائٹ سروے کے مطابق افغانستان میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد تین ملین سے زیادہ ہے۔
ادھر پینٹاگون کا کہنا ہے کہ ان کے علاوہ اعداد و شمار کے مطابق عراق میں ہلاک ہونیوالوں کی گنتی ایک ملین 90ہزار ہے،جبکہ عراق میں لقمہ اجل بننے والے امریکی فوجیوں کی تعداد لگ بھگ 9ہزار اور افغانستان میں 8ہزار ہے۔
اب تک عراق و افغانستان کی بے مقصد جنگ پر امریکہ کا 10کھرب ڈالرز خرچ ہوچکا ہے،جبکہ کانگریس کے بجٹ آفس کی رپورٹ کے مطابق عراق جنگ پر اب تک سات کھرب آٹھ ارب ڈالر اور افغانستان میں ایک امریکی فوجی پر دس لاکھ ڈالر سالانہ خرچ ہوتے ہیں۔
دوسری طرف عراق جنگ میں 8394امریکی فوجی،1471امریکی شہری، 141صحافی،450نمایاں شخصیات ہلاک ہوچکی ہیں۔
ادھر ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس ڈینس بلیٹر نے بتایا ہے کہ امریکی حلوکت،اندرون ملک اور بیرون ملک سرکاری و فوجی انٹیلی جنس سرگرمیوں میں سالانہ80ارب خرچ کرتا ہے۔یہ بجٹ امریکہ کے سالانہ دفاعی بجٹ جو کہ 850ارب ڈالر ہے،کا دس فیصد سے زائد بنتا ہے۔امریکی نیشنل انٹیلی جنس سٹریٹجی 2019 میں امریکہ کی 16انٹیلی جنس ایجنسیوں کے علاوہ فوجی انٹیلی جنس اداروں کے سالانہ پروگرام کی تفصیلات جاری کی گئی ہیں۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ امریکی حکومت نے انٹیلی جنس سرگرمیوں پر ہر سال خررچ کیے جانے والے تمام تر اخراجات منظرِ عام پر لائی ہے۔
شایدیہ بات آپ کے علم میں نہ ہو کہامریکہ بہادر کے دنیا بھر میں 740فوجی اڈے ہیں،جن کی قیمت لگ بھگ 131ارب ڈالر ہے(قیمت سے مراد یہ ہے کہ اگر ان فوجی اڈوں کی دوبارہ تعمیر کرائی جائے تو لاگت کم از کم 131ارب آئے گی)۔جو کہ بہت سے ممالک کی ڈی جی پی(گروپ ڈومیسٹک پروڈکٹ) سے بھی زیادہ ہے۔علاوہ ازیں امریکی افواج نے ان میں مزید 21527عمارتیں لیز پر لے رکھی ہیں،
یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ فوجی اڈوں کی مندرجہ بالا تعداد کلی طور پر درست نہیں ،اور وہ یوں کہ پینٹاگون نے اس تعداد میں سربیا،کوسوہ۔اسرائیل،کرغستان،،قطر اور ازبکستان کے فوجی اڈوں کو شامل نہیں کیا۔
سابق صدر اوبامہ نے جنگ کے نام پر جو خطیر رقم کانگریس سے منظور کروائی تھی،وہ رقم چین،روس،برطانیہ اور بھارت کے مجموعی فوجی بجٹ سے بھی کہیں زیادہ تھی۔
امریکہ نے 1945سے 2005تک ناپسندیدہ حکومتوں کے تختے اُلٹنے کے لیے ایشیاء ،افریقہ اور لاطینی امریکہ کے 40ممالک پر حملے کیے اور ان عظیم جنگوں کے نتیجے میں ان ممالک میں اپاہج(افغانستان میں 25لاکھ اور عراق میں 14لاکھ)کی نئی افواج ہوگئی،ان ساٹھ برس میں امریکہ نے 40غیر ملکی اور 23قوم پرست حکومتوں کا تختہ الٹ دیا،یا اُلٹنے کی کوشش کی،جو اپنے ممالک کے عوام میں انتہائی مقبول تھیں۔لیکن وہاں امریکہ کے مفادات محفوظ نہیں تھے،امریکہ نے اپنے مفادات کی تعمیل کے لیے پچیس ممالک میں بموں کی بارش کی جس کے نتیجہ میں لاکھوں لوگ لقمہ اجل بنے،امریکہ کی طرف سے خود مختار حکومتوں کے خلاف جنگ کے بعد ان تباہ شدہ ممالک میں کئی طرح کی افواج “پیدا”ہوگئیں،ان میں اپاہجوں،یتیموں،بیواؤں،اور سوگواروں کی فوجیں شامل ہیں،یہی نہیں خود امریکی افواج میں تقریباً 20فیصد سے ائد فوجی دماغی یا ریڑھ کی ہڈی کی سنگین بیماریوں میں مبتلا ہیں۔
نوبل انعام یافتہ امریکی ماہر معاشیات جوزف اسگلٹر نے کہا ہے کہ عراق افغانستان جنگ میں کم ازکم 20کھرب ڈالر خرچ آئے گا،اور یہ جنگ امریکہ کو سرکاری اندازوں سے کہیں زیادہ مہنگی پڑے گی،
جوزف کے تحقیقی مقالہ کے مطابق چھ فیصد فوجیوں کے اعضاء ضائع ہوئے ہیں،انہوں نے فوجی اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ جولائی2007تک جنگ سے واپس آنے والے فوجیوں میں سے 30فیصد میں دماغی بیماریاں پیدا ہوگئی ہیں۔
پروفیسر جوزف نے اپنے مقالہ میں یہ بھی کہا ہے کہ ان فوجیوں کو ملازمت سے نکال باہر کرنے کا عمل شروع ہوچکا ہے،جو عراق و افغانستان میں اپنی ڈیوٹی پر حاضر ہونے سے انکار کررہے ہیں،امریکہ میں ایسے فوجیوں کی تعداد کافی ہے،جنہیں ضرورت پڑنے پر کبھی بھی بلایا جاسکتا ہے،ان میں بعض ریگولر آرمی میں رہ چکے ہیں۔ایسے 80فوجیوں کے خلاف مقدمے قائم کرنے کی کارروائی شروع کرنے والی ہے،جنہوں نے اب تک افواج کے احکامات پر عمل نہیں کیا۔
ادھر امریکہ کی جانب سے 150ممالک میں سفارتخانوں کے لیے 5ارب ڈالر مختص کیے جانے کے باوجود ان کی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں،محکمہ خارجہ نے کانگریس سے 10ارب ڈالر طلب کیے ہیں،امریکہ محکمہ خارجہ کی طرف سے کانگریس کو 450صفحات پر مشتمل دستاویز ارسال کی گئی ہے۔جس میں سفارش کی گئی ہے،کہ بیرون ملک میں سفارتی مشن کی سلامتی کے لیے مختص 4ارب ڈالر کی رقم ناکافی ہے۔
2018تک 50ممالک میں سفارت خانوں کی نئے سِرے سے تعمیر 40ممالک میں سفارت خانوں کے ڈیزائن میں بڑے پیمانے پر ردّوبدل اور 60سفارت خانوں کی محفوظ مقامات پر منتقل کیے جانے کی ضرورت پڑی ہے،جس کے لیے مزید 17ارب ڈالر کی ضرورت پڑے گی۔
یاد رہے کہ امریکہ کے پوری دنیا میں 265اہم مقامات بشمول پاکستان،افغانستان اور عراقی سفارت خانے غیر محفوظ ہیں۔
دنیا بھر کے متعدد ممالک میں امریکی سفارت کار سکیورٹی کی پابندیوں سے بُری طرح متاثر ہونے کے ساتھ اپنے سفارت خانوں تک محدود ہوکر رہ گئی ہے،اور اس کے نتیجہ میں انہیں امریکہ مخالف جذبات کی روم تھام کے لیے ہونے والء ٹرمپ انتظامیہ کی کوششیں ناکام ثابت ہورہی ہیں،امریکہ سفارت خانوں اور قونصل خانوں کے سفارتی عملے پر دنیا کے کم از کم28ممالک میں سفر پر پابندیوں سمیت مختلف اقسام کی حفاظتی پابندیاں عائد ہیں،گزشتہ چند سالوں میں امریکہ سفارت خانوں کی ایسی خطر نا آسامیوں اور عہدوں کی تعداد 10 سے بڑھ کر 21 ہوگئی ہے،جن پر فرائض کی ادائیگی کے دوران وہ اپنے افراد خانہ کے ساتھ نہیں رہ سکتے،یا ان کو اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتے۔
اسی طرح اپنے ملازمین کو خطرے کا الاؤنس دینے والے امریکی مشنوں کی تعداد ود سے بڑھ کر 26 ہوگئی ہے،امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جن ممالک میں امریکی فارن سروس کے افسروں پر سکیورٹی کی پابندیاں عائد ہیں،ان میں ہمارا پیارا ملک پاکستان اور ہمارا ہمسایہ برادر ملک افغانستان کے علاوہ اور ممالک جن میں عراق،یمن، الجزائر،انڈونیشیا،لنبان اور فلطین شامل ہیں۔
یہاں مجھے امریکی پالیسیوں کے مطابق گرو ہنری کسنجر یاد آرہے ہیں،انہوں نے کہاتھا،فی الحال امریکہ کو عراق و افغانستان سے نہیں نکلنا چاہیے،کہ ایساکرنے سے پوری دنیا میں امریکی منصوبوں کو نقصان پہنچے گا،(چلیے اب فائدہ پہنچ رہا ہے)فوجی اور فوری انخلا ہزیمت کی طرف مختصر ترین راستہ ہے۔
شاید ہنری کسنجر یہ بات نہیں جانتے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ طریقہ علاج دیسی ہے یا ولائتی،ایلوپیتھی یا ہومیوپیتھی،یونانی ہے یا آیورویدک،سارے راستے قبرستان ہی کی طرف جاتے ہیں۔
کہیں بھی پانی کا نام و نشاں نہیں موجود
وہ بیٹھے بیٹھے مگر کشتیاں بناتا ہے

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply