ریاست مدینہ اور ناچنے گانے والے لوگ/سلیم زمان خان

اس کا شمار مکہ کی بد زبان ترین اور فحش گو عورتوں میں تھا بلکہ پورے مکہ میں اس سے زیادہ مردوں سے بے حیائی کی باتیں کرنے والی بے باک اور بدکلام خاتون شائد کوئی بھی نہیں تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک مرتبہ حضور صلی اللّٰه علیہ وسلم کے پاس سے گزری حضور صلی اللّٰه علیہ وسلم ایک اونچی جگہ بیٹھ کر ثرید کھا رہے تھے اس پر عورت نے کہا انہیں دیکھو ایسے بیٹھے ہوئے ہیں جیسے غلام بیٹھتا ہے ایسے کھا رہے ہیں جیسے غلام کھاتا ہے۔یہ سن کر حضور صلی اللّٰه علیہ وسلم نے فرمایا کون سا بندہ مجھ سے زیادہ بندگی اختیار کرنے والا ہو گا
پھر اس عورت نے کہا یہ خود کھا رہے ہیں اور مجھے نہیں کھلا رہے حضور صلی اللّٰه علیہ وسلم نے فرمایا تو بھی کھا لے اس نے کہا مجھے اپنے ہاتھ سے عطا فرمائیں حضور صلی اللّٰه علیہ وسلم نے اُسے دیا تو اُس نے کہا جو آپ کے منہ میں ہے اس میں سے دیں حضور صلی اللّٰه علیہ وسلم نے اس میں سے دیا جسے اس نے کھا لیا۔ اس نوالے کے منہ میں رکھنے کی دیر تھی وہ مکہ کی فحش گو ،بدنام ،بے باک صحابیہ بن گئی( رضی اللہ عنہا) کوئی عمل صالح نہی تھا بدنام زمانہ تھی شائد محفلوں میں ناچتی گاتی بھی ہوں گی۔ اور جس دن وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آئیں تب بھی ان کا ارادہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تنگ کرنے کا تھا تاکہ بدکلامی کر سکے ستا سکے۔۔ لیکن رحمت تو بہانہ مانگتی ہے۔۔ وہ کرم ہوا کہ اس کھانے کی برکت سے ان پر شرم و حیا غالب آگئی اور اس کے بعد اس نے اپنے انتقال تک کسی سے بے حیائی کی کوئی بات نہ کی. ( المعجم الکبیر)
• اس کا نام *سارہ* تھا،کنیز تھی اور محفلوں میں گا بجا کر داد طلب کرتی۔ یہ وہی خاتون ہیں جو اسلام کی مخبری کا خط لے کر مدینہ سے مکہ جا رہی تھیں،اسے حضرت علی کرم اللہ وجیہ نے پکڑ کر خط برآمد کیا، یہ مکہ کے رئیسوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اشعار اور گانے سناتی تھی۔ سرداران مکہ کی محفلوں میں اسے خصوصیت سے مدعو کیا جاتا کیونکہ یہ بےباکی سے حضور کی شان پاک میں گستاخی کرتی اور خوب داد اور مال سمیٹتی۔جب سرکار پاک صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے آئے تو ایک دن یہ ریاست مدینہ میں حاضر ہوئی اور آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی تنگ دستی اور غربت کا شکوہ کیا اور امداد کے لئے درخواست کی،سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم گانے گاتی ہو،لوگ تم پر انعام و اکرام کی بارش کر دیتے ہیں، کیا وہ تمہارے لئے کافی نہیں جو تم یہاں مانگنے آ گئی ہو۔اس نے عرض کی جب سے بدر کی جنگ ہوئی ہے ،مکہ والوں نے سوگ میں گانا بجانا بند کر دیا ہے۔۔ اور جو سردار میری کفالت کرتے تھے وہ بدر میں مارے گئے۔ اب میری فاقوں کی نوبت ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ایک اونٹ سامان سے لدا ہوا عطا فرمایا،اور اس کے علاوہ اس کی مالی امداد فرمائی۔ لیکن *سارہ* مکہ پہنچتے ہی تمام احسان فراموش کر بیٹھی اور ابن خطل کے گستاخانہ اشعار گا کر پھر مشرکین کی محافل کو رونق بخشنے لگی۔ جب مکہ فتح ہوا تو ڈر کے مارے چھپ گئی کیونکہ اسکے اور اس کے آقا (ابن خطل) کے نظر آتے ہی قتل کا حکم صادر فرما دیا گیا۔۔ کیونکہ اس کی بے باکی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید دلآزاری کی تھی۔ لیکن قران پاک کی اس آیت کے مصدق وہ رحمت کے دروازے پر آ گئی۔
“اگر یہ لوگ جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، تیرے پاس آ جاتے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) بھی ان کے لئے استغفار کرتے تو یقیناً یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو معاف کرنے والا مہربان پاتے۔ [النساء : 64] ”
وہ جان گئی تھی کہ اگر کہیں آمان ملے گی تو در مصطفی پر، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی ساری زندگی جس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی ،جب ان کی نظر کرم پڑی تو صحابیہ ہو گئیں۔۔ تا مرگ اسلام پر سختی سے کاربند رہیں ( رضی اللہ عنہا) ( ضیا النبی از کرم شاہ الازھری )
• مکہ میں دستور تھا کہ بدکار اور کسبی عورتیں اپنے گھروں پر جھنڈا لگاتیں تاکہ لوگوں کو بروقت عیاشی میسر ہو سکے اور وہاں جانا عیاشوں کے لئے معیوب بھی نہ تھا۔ ایسی ہی ایک پری وش حسینہ کی ذلفوں کے اسیر ایک نوجوان *فضالہ بن عمیر* تھے۔۔ تمام رات اس کے کوچے میں بسر کرتے،ساری رات راز و نیاز دادو عیش میں گزرتی۔۔ جب فتح مکہ ہوئی تو یہ نوجواں اپنے گرم خون کے جوش میں آ کر ایک دن ایک خنجر اپنے کپڑوں میں چھپا کر بیت اللہ کے قریب اس طرح سے کھڑا ہو گیا جیسے دعا مانگ رہا ہو مناجات کر رہا ہو کیونکہ اسے معلوم تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم طواف کرتے ہوئے یہاں سے گزریں گے تو یہ خنجر کا وار کر کے پورے عرب کا ہیرو بن جائے گا۔۔ آقائے رحمت صلی اللہ علیہ وسلم جب اس کے قریب آئے تو اس کا ارادہ بھانپ گئے،قریب ہونے پر پوچھا تم فضالہ ہو؟ انہوں نے اکھڑ انداز میں کہا “ہاں فضالہ ہوں” پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکرا کر پوچھا “تم اپنے دل میں کیا بات کر رہے تھے” تو اس نے بے دھڑک کہا کچھ نہیں میں تو اپنے معبودوں کا ذکر کر رہا تھا۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور فرمایا فضالہ اللہ سے مغفرت مانگو۔۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قریب کیا اور اس کے سینے پر اپنا دست رحمت رکھا اور دعا دی۔۔۔ اس کا سینہ کھل گیا وہ کلمہ پرھ کر صحابی کے درجے پر فائز ہو گیا، (رضی اللہ عنہ)
حضرت فضالہ فرما تے ہیں جب میں حرم پاک سے ایمان کی دولت لے کر گھر کی طرف جا رہا تھا تو میرا گذر اسی نازنین کے پاس سے ہوا۔۔ میں سر نیچے کر کے گزر گیا کیونکہ میرے دل کی دنیا روشن ہو چکی تھی اور اس خاتون کی کوئی جگہ یا خواہش دل میں نہ رہی۔ اچانک اس عورت نے مجھے آواز دی کہ” فضالہ آو نا باتیں کریں” میں نے سختی سے اسے جھڑک دیا کہ “ہرگز نہیں ۔ میرا سینہ اب اسلام سے روشن ہے اس میں ظلمت کی کوئی جگہ نہیں” (ضیا النبی از کرم شاہ الازہری)
حضرت فضالہ دنیاوی تمام اعمال بد کا شکار تھے اور قتل کے ارادے سے گئے تھے،نہ اسلام نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی لگاو تھا۔۔ جب نظر رحمت پڑی تو ایک نظر میں صحابی ہو گئے۔
ان واقعات کے لکھنے کا مقصد صرف ان دوستوں تک یہ پیغام پہنچانا ہے۔ کہ ہر وقت ہر مذاق اور ہر طوفان بدتمیزی پر ریاست مدینہ کا طعنہ نہ دیا کریں۔۔ اگر مدینہ والے کی رحمت کو جوش آگیا تو یہ سب آج جو ناچ گا رہے ہیں جن کی ویڈیوز آپ شئیر کر کے بطور مذاق “ریاست مدینہ” کی ہیڈنگز دیتے ہیں ولی ہو جائیں گے اور یہ سب جو اپنے اعمال پر نازاں ہیں شائد خود نہیں تو اپنے پیاروں کو اسی عذاب میں پڑا جب تک نہ دیکھ لیں شائد موت نہیں آئے گی ۔کیونکہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ
جو شخص اپنے مسلمان بھائی کو ایسے گناہ پر عار دلائے اور اس گناہ کا طعنہ دے جس گناہ سے وہ توبہ کرچکا ہے تو طعنہ دینے والا شخص اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک وہ خود اس گناہ کے اندر مبتلا نہیں ہو جائے گا۔
(ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي صِفَةِ أَوَانِي الْحَوْضِ،باب منہ،حدیث نمبر۲۴۲۹)
خدا کے لئے لوگوں کے اعمال پر اللہ میاں بننا چھوڑ دیں۔ آپ آج جو غلاظت ہوتے دیکھتے ہیں چاہے وہ موٹر وے میں گاڑیوں میں ہونے والی بے حیائیوں کی ہو یا کسی بھی ذاتی پارٹی کی فحاشی کی ۔۔۔ اسے ریاست مدینہ کے نام سے فیس بک پر دے دیتے ہیں۔۔ یاد رکھیں اللہ کریم مدینہ پاک کے نام پر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر بہت زیادہ حساس ہیں کہیں ایسا نہ ہو جو آج آپ لبرل بن کر شئیر کر رہے ہیں کل اپنی ماں بہن بیٹی میں دیکھنا نہ پڑ جائے۔۔ کیونکہ مستند احادیث میں یہ بات مروی ہے کہ خبیث زمانہ دجال بھی مدینہ میں داخل نہی ہو سکے گا۔
ترجمہ: مدینہ کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں اس میں نہ تو طاعون اور نہ ہی دجال داخل ہو سکتا ہے ( بخاری)
ایک اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ہے جو شخص میرے پڑوسیوں (یعنی مدینہ والوں) کو احترام کی نظر سے دیکھے گا تو میں قیامت کے دن اس کاگواہ اور شفاعت کرنے والا رہوں گا اور جو میرے پڑوسیوں کی بے حرمتی کریگا تو اسکو (دوزخ کے ایک حوض سے پیپ اور لہو) پلایا جائیگا۔
کیا معلوم رب کب کسے کیسے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے اپنے رنگ میں رنگ لے۔۔ غازی علم دین شہید بھی ایک عام مستری تھے مزدوری کرنے شہر آئے داڑھی بھی مونڈھتے تھے ، اسلام بھی مفتیوں والا نہی تھا۔۔ لیکن قسمت میں کیسی عزت لکھی تھی کہ آج تک اور تا قیامت ان کا نام عاشقان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں لیا جائے گا۔ خدارا لوگوں کے اعمال اور ان کے افعال میں جھانکنے کی بجائے اپنا گریبان ٹٹولیں۔۔ شائد بھلا ہو جائے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply