چہرہ فروغ مئے سے گلستاں(قسط13)۔۔فاخرہ نورین

اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے سماج میں میاں بیوی کو ہنستے بولتے یا پیار کرتے دیکھنا قبول نہیں ۔البتہ وہ سرپھٹول کرتے، گالی گلوچ کرتے، لڑتے بھڑتے نظر آتے رہیں تو رشتے داروں اور ہمسایوں کے دل کافی ٹھنڈے رہتے ہیں ۔پہلے پہل سماجی رول نبھانے والوں کو پھر عادت ہو جاتی ہے۔ہماری عائلی زندگی خاص طور پر جائنٹ فیملی سسٹم کی مضبوطی کی پہلی بنیاد ہی فیملی کی نااتفاقی یعنی میاں بیوی کے جھگڑے یا اختلاف پر ہوتی ہے ۔
ون یونٹ کی خوشی، خوشحالی، اتفاق، محبت یا باہمی پسندیدگی کو جوائنٹ فیملی کا جائنٹ شدید خطرہ سمجھتے ہوئے ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔
میں اور زبیر ایک دوسرے کے محبوب ہی نہیں، کسی بھی تیسرے فرد کے مشورے یا صلاح یہاں تک کہ اطلاع کے بغیر ایک دوسرے سے رشتے میں بندھنے کے سبب جائنٹ فیملی سسٹم کے لئے ایک بڑا خطرہ سمجھے جانے لگے تھے ۔ہزار کوششیں اور قربانیاں، سمجھوتے اور سازشیں برداشت کرنے کے بعد بھی ایک حرف تعریف یا اعتراف تو کیا ملتا، الٹا گلے شکوے اور شکایتیں زیادہ ہونے لگیں ۔ ہمارے باہمی تعلق کو خراب کرنے یا رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے ۔ ایک ایسا ماحول تعمیر کیا جاتا ہے جس میں ہمارے ہر ہر اقدام کو اسی طرح تشویش کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جس طرح پاک بھارت ایک دوسرے کے اقدامات کو دیکھتے ہیں ۔ پہننے اوڑھنے سے لے کر، سونے جاگنے، کھانے پینے، ہنسنے بولنے اور آپس ميں مل بیٹھنے تک کو خوردبین کے ساتھ ملاحظہ کیا جاتا ہے ، برسوں سے قائم سسٹم پر دورونزدیک تاریں کھڑکا دی جاتی ہیں اور سینہ گزٹ کے ذریعے ذاتی مفروضوں کی روشنی میں تنقیدی جائزے لیے جاتے ہیں ۔ کسی نتیجے پر پہنچا جاتا ہے اور کوئی حکمت عملی ترتیب دے کر اجلاس برخاست کر دیا جاتا ہے ۔
ہم اس سارے معاملے سے بے خبر مہمانوں کی طرح چھٹی گزارنے جاتے ہیں اور واپس آ جاتے ہیں ۔ البتہ گھر کی روایات، ہماری اقدار، خاندان کی ناک، نامناسب حرکات پر بزرگوں کی تشویش ٹائپ الفاظ و تراکیب ہمارے کانوں میں کسی نہ کسی طرح آ جاتی ہیں اور ہم دونوں اپنا محاسبہ کرنے میں اگلا پورا ہفتہ گزار دیتے ہیں ۔
یہ تشویش اور تفتیش صرف اور صرف اچھے تعلقات والے میاں بیوی کے ضمن میں لاحق ہوتی ہے اور بزرگوں کے لئے خاصی پریشانی کا باعث بنتی ہے ۔ اس قسم کی تشویشناک سرگرمیوں میں میاں بیوی کا کمرے میں زیادہ دیر تک رکنایا دن کے وقت کمرے کا دروازہ بند ہونا بھی شامل ہیں ۔ جب عین لڑائی میں وقت نماز آ جائے اور آپ کے سسر دروازہ دھڑدھڑاتے ہوئے دن میں دروازہ بند کرنے کے بارے میں مذمتی فتوے جاری کر رہے ہوں تو کس کافر کو اطمینان سے کار محبت میں مگن ہونا نصیب ہو گا ۔
ذکر دروازے بجانے اور فتوے دینے کا آ گیا ہے تو ایک واقعہ بھی سنتے جائیے۔
سسرال قدم رنجہ فرمانے کے ابتدائی دنوں میں ابا جی کا ایک معمول میرے لئے بہت تکلیف دہ ثابت ہوا کہ وہ پانچ بجے اٹھ جاتے اور سیدھا ہمارے دروازے پر زور زور سے دستک دینے لگتے ۔میں شروع سے لیٹ سوتی ہوں اور نتیجے میں دیر سے اٹھتی ہوں ۔گاؤں عموماً ویک اینڈ پر ہی جایا جاتا تھا سو ہالیڈے موڈ میں ہوتی ۔ شادی کے بعد کے حالات و واقعات نے مجھے اس نہج پر پہنچا دیا کہ مجھے سونے کے لئے باقاعدہ نیند کی گولی کھانی پڑتی تھی ۔اگر نیند پانچ منٹ بھی کم ہوتی تو پورا دن بہت کوفت ہی نہیں ذہنی اذیت بھی ہوتی رہتی تھی ۔ زبیر تو دس بجے خراٹے لینے والا آدمی تھا وہ چھلانگ لگا کر بستر چھوڑ دیتا اور وضو کرنے جانے سے پہلے، آ کر، نماز سے پہلے اور بعد میں
بے بو اٹھ جائیں
پلیز فاخرہ اٹھ جائیں
ابا جی ناراض ہوتے ہیں جیسے جملے بول کر میرا دماغ خراب کرتا رہتا ۔ میں مارے باندھے اٹھ جاتی اور دل ہی دل میں سب کی تکہ بوٹی کر کے چیل کووں کو کھلا دیتی۔چونکہ زبیر پر وہی احساس جرم طاری تھا جو لو میرج کرنے والے ہر پاکستانی مرد پر طاری ہوجاتا ہے لہذا وہ میری تکلیف کو نظر انداز کیے ابا جی کے اصول اٹھائے جانے پر بضد رہتا۔
میرے اپنے ذاتی ابو نے زندگی بھر امی کو بھی یہ اجازت نہیں دی تھی کہ ویک اینڈ پر پڑھنے والے بچوں یا نوکری کرنے والی بیٹیوں کو ناشتے کے لئے بھی اٹھا سکیں ۔ یہ صبح زبردستی اٹھانے والے معاملات میرے لئے نیند خراب ہونے سے بھی زیادہ تکلیف دہ تھے ۔
مہینے کے زیادہ دن زبیر اٹلی ہوتا اور چند دن کے لئے آتا تو میں اس کے ساتھ رہنے کے لالچ میں زبردستی جگائے جانے کی اذیت بھی سہتی رہی۔ اس کی جدائی اور ملن کے نشیب وفراز، سسرال اور میکے کی طرف سے مسائل اور ملازمت کی نوعیت نے مجھے اعصابی مریض بنا دیا ۔ کلاس روم میں ہلکی سی آواز بھی مجھے ہزار گنا زیادہ سنائی دینے لگی تو ڈاکٹر نے دوا کے ساتھ ریسٹ کا نسخہ بھی لکھ دیا۔
زبیر نے اپنی سہولت دیکھی تو مجھے اٹھا کر گاؤں چلا گیا ۔ گھر میں عورتیں اونچی آواز میں ایک کونے سے دوسرے کونے تک بات کرتیں تو میرے سر پر بم دھماکے ہوتے ۔ دوا کھا کر بمشکل سوتی تو ابا جی کی دھڑ دھڑ شروع ہو جاتی ۔زبیر کو مجھے نماز پڑھا کر ابا جی سے بخشوانے کے لالے پڑ جاتے ۔ آخر تنگ آکر میں نے اسے کہا کہ میں میڈیکل لیو پر اباجی کو راضی کرنے نہیں بلکہ اعصاب کو سکون دینے کے لئے ہوں ۔انھیں سمجھاؤ کہ میں بیمار ہوں اور دوا کھا کر سوتی ہوں ۔
لیکن زبیر کو جوائنٹ فیملی کے غیر تحریر شدہ آئین کی فکر زیادہ تھی لہذا اس نے مجھے ایک بار جاگ کر کچن میں بیٹھ کر ابا جی کو منہ دکھانے اور ان کے جانے کے بعد سو جانے کی تجویز پیش کی ۔
میں نے بہتر سمجھا کہ میں اپنے فلیٹ پر ہی رک جاؤں اور زبیر کو گاؤں بھیج دیا کروں ۔ چنانچہ ابا جی کی خوشنودی اور فیملی کی روایات کی پاسداری کا نتیجہ یہ نکلا کہ مجھے ایک ہفتے بعد ہی دوبارہ پندرہ دن کی میڈیکل لیو دوبارہ لینی پڑی البتہ اس بار میں نے زبیر کو بھی اٹلی سے واپس بلانا مناسب نہیں سمجھا کیونکہ میں سمجھ گئی تھی کہ ان سب کے ذہنی فریم میں ذہنی صحت وغیرہ والی کوئی تصویر نہیں آئے گی۔پاکستان میں تو جسمانی صحت کا خیال کوئی نہیں رکھتا، ذہنی اور اعصابی امراض کون سمجھتا ۔ ہاں جن، بھوت چمٹنا، دورے پڑنا، تعویذ گنڈے اور بد اثرات کے لئے ہزار ٹوٹکے موجود تھے ۔
جاری ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply