دل سے، درد سے/فرزانہ افضل

” آج کل آپ کے آرٹیکلز میں گیپ آ گیا ہے؟” “آپ کی تحریریں اس باقاعدگی سے نہیں آ رہیں؟” یہ سوالات ان دنوں مجھ سے کئی لوگ پوچھ رہے ہیں ۔ یوں تو اصولی طور پر ایک لکھاری کو بغیر وقفہ دئیے معمول کے مطابق لکھتے رہنا چاہیے مگر جو لوگ مجھے ذاتی طور پر جانتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ میں جو کام کرتی ہوں اور جب بھی کرتی ہوں دل سے کرتی ہوں، اس میں وقت اور فاصلے کی کوئی پابندی نہیں ۔ اس بار چند ہفتوں کے وقفے سے لکھنے کی دو بڑی وجوہات ہیں پہلی یہ کہ کچھ عرصے سے کاروباری معاملات میں الجھی رہی۔ جس کی وجہ سے وقت نہیں ملا اور جب شام کو فراغت ہوتی تو ذہنی تھکاوٹ کی وجہ سے یکسوئی نہ حاصل  ہو پاتی۔

دوسری وجہ ، چونکہ میں زیادہ تر حالات حاضرہ پر تجزیہ لکھتی ہوں اور مقصد اپنی کمیونٹی کو اپنی زبان میں آگاہی اور معلومات فراہم کرنا ہوتا ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں گزشتہ ماہ سات اکتوبر سے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان کشمکش نے آگ پکڑی جو ایک خطرناک جنگ میں تبدیل ہو گئی ہے، اور اس جنگ کے دل خراش مناظر ، معصوم بچوں کی خون میں لت پت لاشیں، زخمی عورتوں ،جوانوں ، بوڑھوں کی دردناک چیخیں، فلسطینیوں کے گھر سے بے گھر ہونے کے تکلیف دہ تجربات ، ریسکیو ٹیموں کے ملبے میں دبی  ہوئی  لاشوں کو نکالنے ، اسرائیلی فوجوں کے غزہ پر حملے کی  ویڈیو کلپس، اُجڑے ہوئے غزہ کا سیٹلائٹ ویو، یہ سب ہر روز ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پہ دکھائی دیتا ہے۔ جس کو دیکھ کر ہر درد مند انسان کا دل خون کے  آنسو روتا ہے۔ اس بارے میں لکھنے کے ارادے سے جب بھی قلم اٹھایا، سینے میں غم کا گولا بن جاتا ، آنکھیں دھندلا جاتیں ، ہاتھ بھاری ہو جاتا، ایسی عجیب کیفیت زندگی میں پہلے کبھی نہیں ہوئی ۔ آج بہت دن بعد ہمت کی ہے۔ نہ جانے مشرق وسطیٰ  میں کب امن ہوگا۔ اسرائیلی فوج جس کو اب اسرائیلی ڈیفنس فورسز کا نام دے دیا گیا ہے، یعنی اسرائیلی دفاعی فوج مطلب یہ کہ اسرائیل یہ لڑائی اپنے دفاع کے لیے لڑ رہا ہے۔ حق کے مقابل میں تمام باطل قوتیں متحد ہو گئی ہیں برطانیہ کا پرائم منسٹر رشی سناک اور لیبر پارٹی کا لیڈر سر کیئر سٹارمر امریکہ کے ساتھ مل کر اسرائیل کی پوری حمایت کر رہے ہیں اور بیانیہ یہ اپنایا ہے کہ ‘اسرائیل کو اپنے دفاع کا پورا حق حاصل ہے”۔

سب جانتے ہیں کہ اسرائیل فلسطین پر ناجائز قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ اور حماس کے سات اکتوبر کے حملے کی اسرائیل، امریکہ اور تمام خفیہ ایجنسیوں کو خبر تھی مگر اس کے باوجود اس حملے کو ہونے دیا گیا۔ تاکہ بعد میں اس کا فائدہ اٹھا کر اور دفاعی جنگ کا نام دے کر فلسطین کو برباد کر دیا جائے اور زمین پر قبضہ کر لیا جائے۔ اسرائیلی فوجیں انتہائی بے رحمی اور سفاکی سے غزہ میں آباد مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں اور ہوائی حملوں اور اب تو زمینی حملوں سے بھی فلسطین میں انسانیت کا قتل اور املاک کو ملیا میٹ کر رہے ہیں ، معصوم بچوں اور عورتوں کو موت کی بھینٹ چڑھا کر فلسطین کے مسلمانوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے ۔ خاندان اُجڑ گئے ۔ والدین زندہ بچ گئے تو ان کے بچے ان کی آنکھوں کے سامنے قتل کر دیے گئے اور جو بچے بچ گئے ان کے والدین شہید ہو گئے ۔ خوراک بجلی پانی کی ترسیل تک بند کر دی گئی ۔ ظلم کی انتہا کہ ہسپتال اور فلسطینی پناہ گزین کیمپ پر بھی حملہ کیا گیا ۔ اسرائیل جو کھلم کھلا جنگی  جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے انٹرنیشنل ہیومینٹیرین لاء ( بین الاقوامی انسانی قانون) کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اس الزام کو قبول نہ کرتے ہوئے اب ایک نیا لائحہ عمل اپنا لیا گیا ہے، غزہ کے باشندوں کو وارننگ دی جا رہی ہے کہ ایک ہفتہ کے اندر خالی کر کے چلے جائیں اس کے بعد اس جگہ پر ان کا قبضہ ہوگا اور بموں سے اُڑا دیا جائے گا یعنی جو لوگ بچ کر نکل جائیں گے وہ بچ گئے، اور جو نہ نکل پائے وہ ان کے حملوں کی زد میں آ کر جانیں گنوا بیٹھیں گے۔ دنیا بھر کے ممالک کی عوام جنگ بندی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ برطانیہ کے تمام بڑے شہروں، یورپی ممالک اور امریکہ میں بھی عوام پُرزور احتجاجی مظاہرے کر رہی ہے کہ فوری جنگ بندی کی جائے اور فلسطین کو آزاد کیا جائے۔ مگر اسرائیلی پرائم منسٹر بنجمن نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ اگر اس نے جنگ بندی کر دی تو حماس کو اپنی طاقت جمع کرنے کے لیے وقت مل جائے گا، اور وہ اس وقت میں مزید تیاری کر لے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اسرائیل کے اس فیصلے میں برطانیہ اور امریکہ اس کی پوری سپورٹ کر رہے ہیں کہ جنگ بندی کا مطالبہ منظور نہیں کیا جائے گا۔ لہٰذا اسرائیل کا موقف ہے ، مارتے چلے جاؤ اڑاتے چلے جاؤ۔ صاف لفظوں میں بات یہ ہے کہ ان مظاہروں کا کوئی مثبت نتیجہ نکلنے والا نہیں ہے ۔ خدا نہ کرے کہ یہ جنگ بڑھتے بڑھتے دوسرے ملکوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے ۔ خدا کرے کہ پبلک پریشر بااثر ثابت ہو اور جلد سے جلد جنگ بندی ہو، جو فیصلہ کن ہو اور فلسطین کو اسرائیل کے چنگل سے آزادی مل جائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply