لمز کے شرارتی بچے/آغر ندیم سحر

گزشتہ ہفتے کی سب سے اہم خبر نگران وزیراعظم کا دورہ لاہور تھا،اس دورے کے دوران جناب وزیر اعظم لمز بھی گئے جہاں انھیں لمز LUMSکے طالب علموں کی طرف سے انتہائی سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔دوسرے روز پریس کانفرنس کے دوران جب وزیر اعظم سے ان سوالا ت کے بارے پوچھا گیا تو انھوں نے یہ کہہ کر بات ٹال دی کہ ‘‘لمز کے بچے شرارتیں کرتے رہتے ہیں،ہم بھی ایسے ہی تھے’’۔طالب علموں کی طرف سے اٹھائے جانے والے سوالوں میں ایک سوال انتہائی بنیادی نوعیت کا تھا،وزیر اعظم جناب کاکڑ سے ایک طالب علم نے لمز آنے کی وجہ پوچھی،اس نے حیرانی کا اظہار کیا کہ نگران وزیر اعظم کو لمز جیسی جدید ترین یونیورسٹی کا دورہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟حالانکہ نگران حکومت کا کام تعلیمی اداروں کے دورے کم از کم نہیں ہوتا،نگران حکومت گزشتہ حکومت کے گند کو صاف کرنے کے لیے نہیں آتی اور نہ ہی اداروں میں مداخلت نگران حکومت کا کام ہے۔نگران حکومت صرف نوے دن کے لیے آتی ہے،اس کا کام صاف شفاف الیکشن کروانا ہوتا ہے جو فی الوقت ناممکن ہے۔طالب علموں نے لمز آنے کی وجہ بھی پوچھی اور پاکستان میں ہونے والی قانون کی عمل داری پر بھی سوال اٹھائے،ایک طالب علم نے کراچی میں ہونے والے میئرشپ کے الیکشن پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا،اس کے بقول جب کراچی میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی جیت چکی تھی تو پیپلز پارٹی کا میئر کس قانون کے تحت بنایا گیا،ایک بچے نے وزیر اعظم کے دیر سے آنے پر بھی سوال اٹھایا کہ جناب کیا طالب علم آپ کو اتنے فارغ نظر آتے ہیں کہ آپ انھیں گھنٹوں انتظار کروائیں اور پھر آئیں بائیں شائیں کر کے چلے جائیں؟طالب علم افغان مہاجرین کی وطن واپسی پر بھی حیرانی کا اظہار کرتے رہے ،رجیم چینج کے بعد ایک سیاسی پارٹی کو دیوار سے لگانے کے لیے سیاست دانوں کو جس اذیت سے گزارا گیا،اس پر بھی سوالات ہوئے۔ہال میں بیٹھے طالب علموں نے سانحہ نو مئی کی مذمت بھی کی مگر اس کے ساتھ وابستہ ان ساری کہانیوں کے بارے بھی تشویش کا اظہار کیا،جنھیں منوں مٹی تلے دبا دیا گیا ۔
وزیر اعظم کے دورہ لمز پر ایک طرف طالب علموں کو سراہا جا رہا ہے اور دوسری جانب ایک مخصوص گروہ سوال کرنے والے بچوں کو بدتمیز اور بدتہذیب کہہ رہا ہے،بدتمیز کہنے والوں کو یہ لگتا ہے کہ اس سب کا ذمہ دار عمران خان ہے کیوں کہ اس نے طالب علموں کو یہ زبان دی ہے،کچھ میڈیائی دانشور ان سوالوں کو انتہائی غیر اہم کہہ رہے ہیں،ان کا خیال ہے کہ بچوں کو چاہیے تھا کہ وہ ملکی معیشت اور خارجہ پالیسی پر سوال کرتے۔اب یہاں میرا معصومانہ سوال یہ ہے کہ الیکشن نوے دن میں ہونے تھے اگر ایسا نہیں ہو سکا توپھر پنجاب،کے پی کے اور وفاقی حکومت کی قانونی حیثیت کیا ہو گی ؟اور اگر اس پر طالب علم نے سوال پوچھا ہے تو یہ غیر اہم کیسے ہو گیا؟کیا ہماری نئی نسل طاقت ور ہستیوں سے یہ سوال پوچھنے کی اجازت نہیں کہ پاکستان میں آئین کی پامالی کیوں ہوئی؟اگر ایک بچے نے کراچی میئر شپ کے الیکشن پر سوال اٹھایا تو کیا یہ سوال غیر اہم ہے؟کیا الیکشن جتوانے والوں سے یہ سوال نہیں ہونا چاہیے کہ وہ کس قانون کے تحت عوامی رائے پر ڈاکہ مارتے ہیں؟کیا جمہوریت کی آڑ میں آمریت کی آبیاری کرنے والوں سے ہمارے بچے سوال نہیں کر سکتے؟کیا نوجوانوں کو نگران حکومت سے پوچھنا نہیں چاہیے کہ جناب ملک ڈوب رہا ہے، معیشت تباہ ہو چکی ہے،ملک کنگال ہو چکاہے،مہنگائی سے عوام کی چیخیں نکل گئی ہیں،فلسطین ملیا میٹ ہوچکا ہے،اسرائیل اور امریکہ کے گٹھ جوڑ نے امت مسلمہ کے اتحاد پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے،ایسے میں نگران وزیر اعظم کا کردار کیا ہونا چاہیے تھا؟
جن لوگوں نے نگران وزیر اعظم کو نوجوانوں کی رائے جاننے کے لیے لمز بھیجا،انھیں سمجھ جانا چاہیے کہ آپ عمران خان کو گالی دیں یا کسی دوسرے سیاست دان کو،یہ سچ ہے کہ گزشتہ چھہتر سالوں سے جمہوریت اور الیکشن کے نام پر جو کچھ اس ملک میں ہوا،اس کا پردہ چاک ہو چکا ہے۔الیکشن کے نام پر سیاست دانوں کی بولیاں لگانے والوں اور آزادی اظہار کے نام پر سچ بولنے والوں کی زبانیں کاٹنے والوں سے نوجوان پوچھ رہے ہیں کہ اس ملک کے ساتھ ایسا کیوں کیا؟اس ملک کے پانچ کروڑ سے زائد نوجوان نگران وزیر اعظم سے نہیں بلکہ اس ملک کے ہر طاقت ور ادارے اور طاقت ور شخص سے یہ سوال کر رہے ہیں کہ اس ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے والوں سے کون حساب لے گا؟کیا طالب علموں کے سوال اتنے غیر سنجیدہ تھے کہ جناب وزیر اعظم نے انھیں ‘‘شرارتی بچے’’کہہ کر ٹال دیا۔یقین کریں لمز کے بچوں نے جو سوال کیے،یہ سوال اس ملک کا ہر شہری پوچھنا چاہ رہا ہے،جب گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں مریم نواز کے خطاب کی خبریں وائرل تھیں،انھیں دنوں میرا کچھ طالب علموں سے سامنا ہوا،ان کا کہنا تھا کہ ہم مریم نواز سے پہلا سوال ہی یہ کریں گے کہ ‘‘آپ کے بابا جان پاک صاف کیسے ہو گئے؟’’،یہ سوال اعلیٰ عدلیہ سے بھی بنتا ہے،یہ سوال نیب اور فوج سے بھی بنتا ہے کہ نواز شریف یا ذرداری اور فضل الرحمن صاف شفاف کیسے ہو گئے؟وہ ملزم یا مجرم جنھیں کل تک ہمارے ادارے غدار اور مفرور مجرم یا اشتہاری کہہ رہے تھے،انھیں دوبارہ لیول پلینگ فیلڈ کس قانون کے تحت دی گئی؟۔وہ لوگ یا سرکاری دانش ور جو لمز کے طالب علموں کے سوالات کو غیر سنجیدہ کہہ رہے ہیں یا اس بدتمیزی کا ذمہ دارے عمران خان کو ٹھہرا رہے ہیں،کاش وہ ایک دفعہ صرف ایک دفعہ ساٹھ فیصد نوجوانوں کی رائے جان لیتے اور پھر فیصلہ کرتے کہ ‘‘ووٹ کو عزت کیسے دی جاتی ہے؟’’عمران خان سے دشمنی کی وجہ سے نوجوانوں کے سوالوں کو بدتمیزی کہنا یا اسے پراپیگنڈا کہنا،یک طرفہ رائے ہے۔تعلیمی اداروں میں سیاست دان آئیں یا مذہبی شخصیات،انھیں اپنا سیاسی و مسلکی ایجنڈا پیش کرنے کی اجازت ہر گز نہیں ہونی چاہیے اور نگران حکومتوں کا کام صرف الیکشن ہے،افسوس یہاں نگران حکومتیں الیکشن پر بات ہی نہیں کرنا چاہتیں۔اب تو یوں لگ رہا ہے کہ نگران حکومتیں صرف اور صرف ایک خاص سیاسی مقصد کے تحت لائی گئیں ،ان کا آئین و قانون کی عمل داری سے کوئی تعلق نہیں۔اگر نگران حکومتیں اور طاقت ور ادارے پسندیدہ شخصیات کو نوازنے کے لیے ملکی ساکھ داؤ پر لگائیں گے اور قانون کی دھجیاں اڑاتے رہیں گے تو انھیں ہر تعلیمی ادارے میں لمز جیسے شرارتی بچوں کا سامنا کرنا پڑے گا،پھر چاہے عمران خان کو الزام دیں یا کسی دوسری پارٹی کو،سوال کرنا ہر طالب علم کا حق ہے،ان سے یہ حق چھیننا گناہ کبیر ہے۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply