میں اپنے کالم کاعنوان یہ ہرگز نہ دیتا اگر پنجاب ٹیچرز یونین کے ایک رہنما نے نشاندہی نہ کی ہوتی کہ نقل مافیا کے ذریعے ہم صرف لمحہ موجود ہی کی کرپشن نہیں کر رہے ہوتے بلکہ ایک ایسی نسل پروان چڑھا رہے ہوتے ہیں جو سمجھتی ہے کہ زندگی کے ہر امتحان کو بورڈ کے امتحانات کی طرح دھوکہ دے کر، نقل لگا کے اور رشوت کے ذریعے پاس کر سکتی ہے۔ ہم ایک شخص کی ایسی بنیاد رکھ دیتے ہیں جو چاہے پھر ایسی ڈگریوں کے ذریعے جج بن جائے یا بیوروکریٹ، وہ حقیقت میں غاصب، چور اور ڈاکو ہی رہتا ہے۔
اساتذہ تنظیموں کے رہنما متفق تھے کہ نقل مافیا نے پچھلے پانچ، چھ برسوں میں ایک بار پھر اپنا راج قائم کر لیا ہے۔ پنجاب کا نوجوان وزیرتعلیم، جو کہ ایم ایس ایف کارہنمابھی رہ چکا ہے، پچھلے پانچ چھ دنوں سے مسلسل چھاپے ما رر ہا ہے۔ چیئرمین اور کنٹرولر لاہور بورڈ سمیت بہت ساروں کی معطلیاں ہو رہی ہیں اور نقل کروانے والوں کو رنگے ہاتھوں پکڑ کے جیل بھجوایا جا رہا ہے۔ رانا سکندر حیات بتا رہے تھے کہ ان پر دباو بھی بہت ہے اور سفارشیں بھی بہت آ رہی ہیں مگر وہ وعدہ کرتے ہیں کہ وہ نہ جھکیں گے اور نہ ہی بکیں گے۔ وزیراعلیٰ مریم نواز ان کی سپورٹ کر رہی ہیں تاکہ اس نقل کے جن کو دوبارہ بوتل میں بندکیا جاسکے جسے سب سے پہلے ان کے چچا شہباز شریف نے اپنی پہلی وزارت اعلیٰ میں قابو کیا تھا۔
نویں جماعت کے امتحانات میں ہرطرح کی نقل ہور ہی ہے۔ پنجاب ٹیچرز یونین کے صدر کاشف شہزاد چوہدری بتا رہے تھے کہ ان کے ٹیچروں کے ایک لائق سٹوڈنٹ کو نقل مافیا نے ڈرایا دھمکایا کہ تم ایک نالائق بچے کا پیپرحل کرواو ورنہ تمہارا پیپر خراب کر دیا جائے گا۔ اس نے رشوت دینے والے بچے کی مدد کی مگر جب وہ خود پیپر کرنے لگا تو دیدہ دلیری کی انتہا یہ تھی کہ اسے وقت دینے سے انکا رکر دیا گیا۔ اس سٹوڈنٹ نے گھر آ کے اعلان کر دیا کہ وہ نہ پیپر دینا چاہتا ہے اور نہ ہی پڑھنا چاہتا ہے بلکہ وہ اس نظام پر ہی لعنت بھیجتا ہے۔
اس پر پنجاب ٹیچرز یونین نے احتجاج کیا، پہلے وزیر تعلیم اور پھر وزیراعلیٰ کو بھی میسج کئے۔ وزیراعلیٰ کے حکم پر یہ کریک ڈاون شروع ہوا تو سامنے آیا کہ ایک پیپر کے دوران ایک ہزار سے لے کر دس ہزار روپے لے کر نقل کروائی جا رہی ہے۔ کچھ ادارے ایسے ہیں جو پورے کے پورے سنٹرز ہی خرید رہے ہیں۔ دوسرے شہروں سے مخصوص نگران منگوائے جا رہے ہیں، کچھ عملہ ایسا ہے جس نے کبھی کوئی امتحان ڈیوٹی کے بغیر چھوڑا ہی نہیں، جعلی امیدوار بٹھانے سمیت امتحانات میں جعلی کامیابی کا ہروہ طریقہ استعمال کیا جا رہاہے جو شرمناک ہے اوریہ سب کچھ پچھلے پانچ، چھ برس میں ہوا ہے۔
میں یہ سب باتیں سن کر حیران ہوا کہ پچھلے دور کے وزیر تعلیم مُراد راس خود کو نوجوانوں کی نمائندہ سیاسی جماعت کا رہنما کہتے تھے مگر ان کی جماعت نے خود نوجوانوں کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔ کرونا کے دوران امتحانی نظام اور نوجوان طالب علموں کے ساتھ نان پروفیشنل ازم کے ساتھ جو کھلواڑ کیا گیا اس کی المناک داستان الگ ہے کہ اس دور کے کامیاب ہوئے بچے شائد دنیا کے کسی بھی دفتر اور کسی بھی کاروبار میں کامیاب نہ ہوسکیں کیونکہ انہیں بغیر محنت کے کامیاب ہونے کاچسکا لگا دیا گیا۔
شفقت محمود اور مراد راس کے دور میں جو بچے میٹرک اور انٹر کرکے اگلی کلاسوں میں پہنچے وہ یونیورسٹیوں کے لئے ایک عذاب بن گئے کیونکہ انہیں الف بے کا بھی علم نہیں تھا۔ سرونگ سکولز اینڈ کالجز ایسوسی ایشن کے سربراہ رضا الرحمان بتا رہے تھے کہ اس دور کے بچوں کی پڑھائی کے حوالے سے نفسیات اور عادات ہی بدل گئیں، سب کچھ تباہ کرکے رکھ دیا گیا۔
اساتذہ تنظیموں کے رہنماوں مزمل محمود، عبدالوحید یوسفی، رانا لیاقت اورکاشف ادیب جاودانی تک جس کی بھی باتیں سن لیجئے وہ نقل مافیا کے ہاتھوں نالاں ہے۔ خرابی کی جڑیں گہری ہیں۔ مُراد راس کے دور میں کئی برس تک پنجا ب میں اسی طرح ٹیچرز کی بھرتی نہیں کی گئی جس طرح یاسمین راشد نے ایم بی بی ایس کرنے والے ڈاکٹروں کو بے روزگاری دی۔ اس وقت بھی پنجاب کے سرکاری سکولوں میں ایک لاکھ سترہ ہزار ٹیچرز کی کمی ہے۔ کئی سکول ایسے ہیں جو ایک اور دو اساتذہ کے ساتھ چل رہے ہیں ایسے میں جواز بنایا گیا ہے کہ اساتذہ امتحانات کی ڈیوٹی کے لئے دستیاب نہیں لہٰذا پرائیویٹ بندے ہائر کرنے دئیے جائیں۔
رانا لیاقت اس سلسلے میں بورڈ کی کنڈکٹ برانچ کی ہوشیاریاں، چالاکیاں اور دو نمبریاں بیان کر رہے تھے۔ اساتذہ رہنماؤں کاکہنا تھا کہ چونکہ پرائیویٹ بندوں پر نہ کوئی چیک اینڈ بیلنس ہوتا ہے اور نہ ہی انہیں اپنی نوکری جانے کاڈر ہوتا ہے اور وہ آتے بھی مخصوص ذرائع سے ہیں لہٰذا وہ ڈٹ کے نقل کرواتے او رحرام کماتے ہیں۔ دوسرا مسئلہ امتحا نی مراکز ہے جس کے بارے خود رانا سکندر حیات بتا رہے تھے کہ ایم اے او کالج کے پیچھے کوٹھیوں تک میں بنائے گئے۔
ہونا تو یہ چاہئے کہ امتحانی مراکز دوسری شفٹ میں خالی سکولوں میں بنائے جائیں اور اس وقت اساتذہ بھی فارغ ہوں گے تو ان سے ڈیوٹیاں کروائی جائیں۔ کاشف ادیب جاودانی، رانا سکندر حیات سے مطالبہ کر رہے تھے کہ انہوں نے پرائیویٹ سکولوں کے سنٹرز خریدنے والے مافیا کا ذکر کیا ہے تو وہ ایسے سکولوں کے نام لیں جو یہ گندا دھندا کرتے ہیں۔ وہ یہ بھی پیشکش کر رہے تھے کہ رجسٹرڈ پرائیویٹ سکولوں کے ٹیچرز کا بھی بطور نگران امتحانات ڈیٹا بیس بنایا جا سکتا ہے۔
اساتذہ رہنما بتا رہے تھے کہ جب معاملات بگڑ رہے تھے تو وہ مسلسل اس وقت کے وزیرتعلیم مراد راس کو آگاہ کر رہے تھے مگر وہ صرف ٹوئیٹر کے وزیر تھے اور ویسی ہی ان کی سرگرمیاں۔ ایک ذاتی واقعہ یاد آ گیا کہ محکمہ تعلیم کی طرف سے پائلٹ سکول کے ساتھ ٹریننگ سنٹر میں غالبا انصاف آفٹر نون سکولز، کے پراجیکٹ کا افتتاح تھا (یہ نام بھی سیاسی بدنیتی پر مبنی تھا) جس میں مجھے بلایا گیا۔
مجھے تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ میں خصوصی دلچسپی ہے سو میں وہاں چلا گیا مگر وزیر موصوف نے بلانے کے باوجود بریفنگ دینا تو کجا ہاتھ تک ملانے کی زحمت نہ کی اور خود فنکشن کے بعد تمام وقت خوبرو لڑکیوں کے ساتھ سیلفیاں بنوانے میں مصروف رہے۔ میں ان کی مصروفیات پر لعنت بھیج کے واپس آ گیا۔ اب بھی انہیں کوئی نہیں پوچھ سکتا کیونکہ موصوف پی ٹی آئی چھوڑ کے آئی پی پی جوائن کرچکے ہیں لیکن انہوں نے پنجاب کے سکولز ایجوکیشن کے شعبے ساتھ جو کچھ کیا ہے اس پر اللہ رب العزت کی ذات تو ان سے پوچھ ہی سکتی ہے۔
اب اگر میں نے یہاں پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن یعنی پیف سمیت دیگر معاملات کھول دئیے تو بات بہت دور تلک جائے گی مگر نقل مافیا کا دوبارہ آنا ان کے بڑے جرائم اور کوتاہیوں میں سے ایک ہے۔ اللہ کرے رانا سکندر حیات نقل مافیا کو نتھ ڈالنے میں کامیاب ہوجائے۔ آمین
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں