کرونا میں کچھ تو کرو نا۔ ۔ ۔ ۔رمشا تبسم

ہم ایک عجیب کیفیت سے گزر رہے  ہیں، گو کہ ہمارے ملک میں کرونا کے کیسزز ابھی اتنے سامنے نہیں آئے،مگر سوشل میڈیا اور میڈیا پر دکھائی دینے والی عالمی  صورتحال نے ہمیں بے حد پریشان کر رکھا ہے۔اور ہمیں موت کا شدید خطرہ لاحق ہے۔

ایسی فضا قائم ہو گئی ہے کہ جیسے کسی شخص کو محض آنکھ بھر کر دیکھنے سے بھی کرونا وائرس منتقل ہو جائے گا۔لوگ کشمکش کا شکار ہیں۔خطرے سے زیادہ، خطرے کے متعلق افواہیں خوف کی وجہ ہیں۔۔
ایک طرف دنیا سے آنے والی خبریں اور دوسری طرف حکومتِ وقت کی نا اہلی، درحقیقت ہمیں ہیجانی کیفیت میں مبتلا کر رہی ہے۔ہم حکومت وقت کی بات کر رہے ہیں ، تو لازمی نہیں عمران خان سے بغض رکھ رہے  ہیں، بلکہ ظاہر سی بات ہے جو حکومت ہے سوال ان سے ہی کیا جائے گا۔ جہاں تمام ممالک نے اپنی زمین میں داخلہ ممنوع کر دیا ،وہیں پاکستان میں گزشتہ دس دن سے پہلے ہر کوئی بہت آرام سے داخل ہو رہا تھا۔حتی کہ کرونا وائرس کا شکار افراد بھی سرحد سے اور ایئرپورٹ سے بہت آرام سے داخل ہوتے رہے۔ بغیر علاج اور جانچ پڑتال کے تمام افراد کو ملک میں آزاد چھوڑ دیا گیا۔لہذا حکومت وقت کی نا اہلی کہ کسی قسم کا ٹھوس اقدام اٹھاتی نظر نہیں آ رہی۔ایک طرف پوری دنیا لاک ڈاؤن پالیسی اختیار کر رہی ہے تو دوسری طرف وہ اپنے افراد کی بہبود کا بھی بھرپور خیال رکھ رہی ہے۔مگر پاکستان میں بہبود تو ایک سراب ہے ،ہاں لاک ڈاؤن کر کے ہمیں کرونا کے خلاف کھڑا کرنے والی پالیسی اپنانے کے لئے حکومت تیار ہے اور ہمیں مجبور کر رہی ہے ۔ہمیں گھروں میں رہنے کی ہدایت کرنے والوں نے ہمیں گھر میں رکھ  کر کیا کرنا ہے؟کیسے کرنا ہے؟ریاست کتنی مدد فراہم کرے گی؟کچھ بھی معلومات فراہم نہیں کیں اور نہ ہمیں آگاہ کیا گیا۔

ایسے میں اگر لوگ روزگار کی تلاش میں باہر نکل رہے ہیں تو یہ انکا حق ہونے سے  زیادہ انکی مجبوری ہے۔کیا کریں کرونا کا شکار ہونے سے پہلے ذریعہ معاش کی فکر میں جان بحق ہو جائیں؟

تحریک انصاف کی حکومت آتے ہی معیشت کا پہیہ جام ہو چکا ہے۔لوگ تین وقت کی روٹی سے دو وقت کی روٹی پر آگئے ہیں۔اب اگر کرونا سے بچاؤ میں انہیں ایک وقت کی روٹی کھانی پڑے تو بیشک وہ اس پر بھی گزارا کر لیں گے، مگر حکومت وقت وہ ایک وقت کی روٹی کی ذمہ داری لینے سے بھی قاصر ہے۔
تو ایک عام آدمی کیا کرے؟
گھر بیٹھے؟ تاکہ چار دن بعد راشن ختم ہونے پر فاقہ کرے۔اور فاقہ کے بعد ویسے ہی کمزور ہو کر مرنے کا انتظار کرے؟بھوک بڑی ظالم ہے بھوک حملہ آور ہو تو ماں مایوسی سے بچے مار دیتی ہے۔فاقہ ہو تو والد خود کو آگ لگا لیتا ہے کہ بچوں کی ضرورت پوری نہیں کر پا رہا۔
تو لوگ گھر بیٹھ کر بچوں کو بھوک سے سسکتا ہوا، مرتا ہوا دیکھیں، اور ضرورت پڑے تو چوہے مار گولیاں  دے کر اپنے جگر گوشوں کو چپ کروا دیں؟

بچپن میں ایک فلم دیکھی تھی نام یاد نہیں۔فلم میں کچھ لوگوں کو بہت دور سزا کے لئے قید کر دیا جاتا ہے۔وہ لوگ کسی طرح وہاں سے بھاگ کر سمندر کے راستے ہوتے ہوئے ایک جزیرے پر پہنچ جاتے ہیں۔وہ کچھ نوجوان کچھ دن بھوک افلاس پر گزارا کرتے ہیں کوئی مر جاتا ہے کوئی بیمار ہو جاتا ہے۔اور پھر بھوک سے تنگ آ کر ایک شخص دوسرے کو مار کر اسکا خون پینے لگ جاتا ہے پھر تنگ آ کر وہ اسکا گوشت کھا جاتا ہے۔
اور اسی طرح یہ سب ختم ہو جاتے ہیں۔آپ سب کو  زبردستی گھروں میں قید ہونے کی تلقین کر رہے ہیں۔انکے روزگار بند کر رہے ہیں تو بتائیں کیا ریاست اتنی آبادی کو اپنے بچے سمجھ کر پال سکتی ہے؟ کیا ریاست گھر بیٹھی عوام کو ایک وقت صرف ایک وقت کی روٹی دے سکتی ہے؟
بالکل نہیں۔

ریاست پاکستان کا ایک حصہ” تھر” آج تک بھوکا ہے۔جہاں بھوک روزانہ کئی  جانیں نگل جاتی ہے۔اور  پارلیمنٹ میں پالیمنٹیرینز کی تنخواہوں میں اضافے کے بل پاس ہو سکتے ہیں مگر تھر کے افراد کی روٹی کا بندو بست نہیں ہو سکتا۔

یہاں ایک عرصے سے سندھ میں کتے کے کاٹنے سے مر رہے افراد ویکسین کو ترس رہے ہیں۔ریاست ان کو مرتا ہوا دیکھ رہی ہے۔۔مذمت والا تماشا بھی بخوبی کیا جاتا ہے۔مگر نتیجہ صفر۔

یہاں کراچی میں پینے کا پانی ایک عذاب کی صورت اختیار کر چکا ہے۔مگر آج تک ریاست اس مسئلے پر قابو پانے میں ناکام ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جو سب کے سامنے ہیں۔اور جن پر کوئی بھی حکومت آج تک قابو نہیں پا سکی۔۔

تو کیا ہم امید کر سکتے ہیں ہم گھر بیٹھیں  گے اور ریاست ہماری تمام تر ذمہ داری اٹھا کر ہمیں محفوظ بنائے گی۔؟ بالکل نہیں۔
یہ ریاست پاکستان ہے۔یہاں سرحد تک بھوکے مرتے کتے کی موت کا جواب حاکم وقت نہیں دے گا۔بلکہ اس کتے کو اسکی موت کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوتے اسکو مرنے کے بعد بھی کوئی سزا سنائی جائے گی۔

ہمارے لئے کوئی ماڈل اہم نہیں، نہ  سعودی ماڈل، نہ  اٹلی  اور نہ ہی چائنہ ماڈل ۔ہمارے لئے ایک ہی ماڈل ہے فقیری ماڈل۔ہمیں کرونا میں عملی طور پر کچھ کرنا تھا تو ہم نے کشکول دکھا دیا ۔دیکھ لو دنیا والوں ہمارے قرضے معاف کر دو وگرنہ ہم رو پڑیں گے۔

ریاست اس وقت ایک بھی ٹھوس قدم اٹھانے میں کامیاب نظر نہیں آئی۔روزگار آہستہ آہستہ بند ہو رہے ہیں۔لوگ گھروں تک محدود ہو رہے ہیں۔مکمل لاک ڈاؤن کی صورتحال شروع ہو جائے گی۔تو جب لاک ڈاؤن ختم ہو گا ۔گھروں کے دروازے کھلیں گے تو یقین جانیں اندر سے بھوک ناچتی ہوئی ملے گی مگر انسان مر چکے ہونگے۔کچھ بھوک سے اور کچھ لاک ڈاؤن ختم ہو کر زندگی کو صفر سے شروع کرنے کی پریشانی میں۔آپ لوگوں کو قید کر کے مسلسل ایک اذیت میں مبتلا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں مگر اس اذیت میں لوگ کرونا سے کم مریں گے مگر تنگ آ کر خود کشی ضرور کریں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مجھے کسی قسم کا خوف نہیں یہ بات کہتے ہوئے کہ ریاست پاکستان کی نا اہلی کی وجہ سے پاکستان میں کرونا داخل ہوا۔انکی سرحدوں اور ایئر پورٹ نے کرونا کے لئے راستہ آسان کیا۔اور اب بھی ریاست پاکستان ہمیں کرونا سے محوظ رکھنے کی بجائے کرونا کو پھیلنے میں  زیادہ مددگار ثابت ہو رہی ہے۔تاکہ دنیا کو دکھایا جا سکے ہم کرونا سے کس حد تک متاثر ہیں اور کس حد تک ضرورت مند بھی۔لہذا ہمیں جھولی بھر بھر کر امداد دی جائے۔وگرنہ ہم کرونا کو  زبردستی پیدا کر کے دکھائیں گے۔افسوس صد افسوس
ریاست کچھ کرے نہ کرے ہمیں خود بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
1۔اپنے اہل خانہ کو صفائی کی تلقین کریں
2.بچوں کی صفائی کا خاص خیال رکھیں
3.صاف اور گھر میں پکی ہوئی غذا کھانا شروع کر دیں اور ہوٹلوں یا ٹھیلوں سے کچھ بھی لیکر مت کھائیں۔
4.احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے خود کو ٹھنڈے مشروبات اور اشیاء سے دور رکھیں۔تاکہ آپ کو زکام اور کھانسی کی شکایت نہ ہو
5.گھروں میں زکام,بخار اور کھانسی کی کچھ ضروری ادویات محفوظ کریں
6.پھلوں کا استعمال کریں
7.بغیر ضرورت گھر سے باہر نہ جائیں۔اس لئے نہیں کہ آپ سے کسی کو بیماری نہ لگ جائے بلکہ اس لئے بھی کہ کہیں آپ کو کسی سے بیماری نہ لگ جائے اور آپ اپنے اہل خانہ کو کسی مصیبت میں مبتلا نہ کردیں۔
8.باہر جا کر منہ کو مت چھوئیں۔کچھ بھی کھانے سے پرہیز کریں۔گھر آتے پہلے ہاتھ دھوئیں اور کوشش کریں کپڑے بھی تبدیل کر لیں۔
9۔ورزش کریں یا کچھ دیر چہل قدمی ضرور کریں۔
10.بچوں کو بار بار چومنے اور اپنی سانسوں کے قریب کرنے سے گریز کریں
11.گھر کا فرش ایک دو دن بعد فرنائل اور ڈیٹول سے ضرور صاف کریں
12.گروہ کی صورت میں بیٹھنے سے گریز کریں۔
13.کسی دوست احباب کی معمولی طبیعت خراب ہے تو اسکو ڈرانے کی بجائے اسکو ہمت دیں کہ وہ علاج کروائے۔چیک اپ کروائے۔اس سے نفرت کی بجائے احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے اسکا خیال رکھیں اور ضرورت محسوس ہو تو کرونا ٹیسٹ کی تجویز دیں
14.کسی بھی قسم کی پارٹی منعقد نہ کریں
15.اپنے آس پاس نظر رکھیں۔ضرورت مندوں کا خیال رکھیں۔ اشیاء خوردو نوش پہنچائیں۔ہم تین وقت پیٹ بھر کر روٹی کھائیں اور کوئی بھوکا رہ جائے اس سے بہتر ہے کہ ہم دو وقت روٹی کھا لیں اور اپنی ایک وقت کی روٹی سے کسی کا پیٹ بھرنے کی کوشش کریں
16. جگہ جگہ جہاں ممکن ہو ہاتھ دھونے کا انتظام کریں۔اگر صاحب حیثیت ہیں تو اشیاء کو بلا ضرورت ذخیرہ صرف اپنے لئے کرنے کی بجائے کسی مجبور اور بے بس کو یقین دلائیں کے ضرورت پڑی تو آپ اسکو بھی اشیاء فراہم کریں گے۔
17.اپنے آپ کو,اپنے گھر کو صاف رکھیں۔اور صفائی میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کریں۔
18.مثبت باتیں کرنے کی کوشش کریں۔لوگوں کی ڈھارس بندھائیں۔ان کو ہر صورت حال سے لڑنے کے لئے ہمت دیں۔خوف کی فضا میں ایک دوسرے کا سہارا بنیں نا کہ ایک دوسرے سے دور ہو کر شدید الجھن پیدا کریں
19.محلے یا ایک علاقے کے لوگ مل کر ارادہ کریں کہ وہ آس پاس موحود کچھ ضرورت مند افراد کی مدد کریں گے۔اور مل کر ان کے ںاس جائیں انکو بتائیں کے آپ ہر صورت انکی مدد کریں گے۔اور کسی ایک پورے محلے کے لیے  مشکل نہیں کہ  کچھ گھرانوں کے لئے اشیاء کا بندوبست کر سکیں۔مل کر مدد کرنے کا ارادہ کریں۔تاکہ  زیادہ امداد ہو سکے۔
یہ اور اس طرح کے کئی اقدامات ہیں جو بحیثیت شہری ہم خود کر سکتے ہیں۔
اور کچھ اقدامات اب ریاست بھی کرے۔
1.فوری طور پر اشیاء خوردو نوش کی فراہمی یقینی بنائے۔وافر مقدار میں اشیاء تیار کروا کر اپنی تحویل میں لے اور اپنی نگرانی میں ہر جگہ پہنچائے
2.وافر مقدار میں ادویات بنانے کے لئے کمپنیوں کو نوٹیفکیشن جاری کرے۔
3کرونا کا علاج ممکن نہیں مگر اسکی علامات کا علاج ممکن ہے۔مثلاً گلا خراب,زکام,بخار وغیرہ لہذا ہر علاقے کے میڈیکل اسٹور پر بہترین ادویات کے سیٹ بنا کر فراہم کر دیئے جائیں جو کہ کسی شخص کو معمولی بھی مسئلہ درپیش ہو تو وہ فوراً ادویات حاصل کر کے استعمال کرے۔اور میڈیکل اسٹور کو ہدایت دے کہ جو شخص قیمت ادا نہ کر سکے اسکو بلا معاوضہ ادویات فراہم کر دی جائیں۔
4۔ماسک اور صابن کو ہر جگہ سڑکوں پر وافر مقدار میں پہنچا دے۔لوگ کس حد تک لوٹ مار کر لیں گے؟ آخر کار جب وہ دیکھیں گے ہر چیز حکومت پہنچا رہی ہے تو یقیناً ذخیرہ اندوزی سے پرہیز کریں گے۔
5۔کاروباری حضرات سے مدد کی اپیل کرے
6نوکری کرنے والے افراد کو انکی تنخواہوں کی یقین دہانی کروائے اور پبلک اور پرائیویٹ کمپنیوں کو اس سلسلے میں ہدایت دے۔
7بل اور ٹیکس میں کمی کرے تاکہ لوگوں پر بوجھ کم ہو سکے
8.ریاست بخوبی جانتی ہے کون مافیا ہے۔کون کڑوڑ پتی ہے تو کون ایک وقت کی روٹی کو پریشان ہے۔لہذا ریاست تمام مخیر حضرات سے رابطہ کرے کہ وہ حکومت وقت کا ساتھ دے
9.ڈاکٹروں کو حفاظتی کٹ فراہم کی جائے۔انکی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔اور اگر پھر کوئی ڈاکٹر مشکل کی اس گھڑی میں کام کرنے سے پرہیز کرتا ہے تو اسکے خلاف ایکشن لیا جائے
10.طالب علموں کی مدد کی ضرورت ہے تو ریاست حفاظتی اقدامات کر کے ہمیں بتائے۔ہمیں تربیت دے۔تاکہ نوجوان طبقہ ریاست کا ستون ثابت ہو۔ہم گھروں تک رسائی حاصل کرکے اشیاء پہنچا سکتے ہیں۔ضروری ادویات پہنچا سکتے ہیں۔لوگوں کو حفاظتی تدابیر سے آگاہ کر سکتے ہیں۔ کوئی کرونا کا مریض ہے تو اسکو بحفاظت ہسپتال پہنچا سکتے ہیں۔نوجوان نسل شانہ بشانہ حکومت کے ساتھ کھڑی ہو گی۔مگر حکومت پہلے ہر شخص کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔
11.تمام  سکول,کالج,یونیوسٹیاں بند ہیں۔ ان میں عارضی ہسپتال قائم کر دیئے جائیں۔
12.کرونا ٹیست کو فری یا کم قیمت پر کروانے کی سہولت فراہم کی جائے۔تاکہ ہر شخص خرچے کے ڈر کے بغیر اس ٹیسٹ کو کروا سکء
13.جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر ختم کئے جائیں۔14.پھل اور سبزی فروش کے ساتھ ساتھ ہر دکاندار کو کم سے کم دس گھنٹے حفاظتی انتظامات کے ساتھ کام کرنے کی اجاذت دی جائے۔ریاست انکی مدد کرے۔تاکہ وع اپنی کمائی کر سکیں اور ریاست کا بوجھ کم ہو سکے۔
15.ریاست تمام پارلیمنٹ ممبران اور سیاست دانوں کو بڑھ چڑھ کر امداد کرنے کی تلقین کرے۔تاکہ ریاست کا بوجھ کم ہو سکے۔
16.ریاست زکوت کی ادائیگی کا حکم دے یا ویسے ہی امداد کی اپیل کرے ۔اور اس ضمن میں ٹھوس اقدامات کرے۔تاکہ لوگوں کی طرف سے دی جانے والی امداد کا صحیح استعمال کیا جا سکے۔
17.۔ریاست عوام کو ریاست کا بوجھ نہیں بلکہ ریاست کا اہم جزو سمجھتے ہوئے انکا خیال رکھے تاکہ کرونا کے خلاف جنگ بہادری سے لڑی جا سکے۔
کرونا کے دنوں میں کچھ تو کرنا پڑے گا۔کچھ ہم کریں گے۔کچھ ریاست کرے گی۔اور مل کر ہم یہ جنگ جیت سکیں گے۔اگر صرف ریاست سے امید رکھی جائے تو بھی ناکام رہیں گے۔اور اگر صرف عوام سے امید رکھی جائے تو بھی ناکامی سامنے ہے۔ریاست اور عوام مل کر ہی اس وبا سے لڑ سکتے ہیں عوام اپنے طور پر اقدامات کرے نہ صرف اپنے لئے بلکہ اپنے آس پاس کے لوگوں کے لئے۔اور ریاست ہن سب کی بھلائی کے اقدامات کرے اور ہمارے اقدامات میں ہمارا ساتھ بھی دے۔تو یقیناً کرونا سے جنگ ہم جیت جائیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply