پیڈوفیلیا۔۔ محمد منیب خان

پیڈوفیلیا ایک نفسیاتی عارضہ ہے۔ اس عارضے کا حامل شخص بچوں کی طرف جنسی کشش رکھتا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی بیماری ہے۔ اس جیسی مختلف انواع کی کئی اور بیماریاں بھی موجود ہیں جو سائنسی تحقیق میں وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آ رہی ہیں۔ پاکستان دنیا میں آبادی کے لحاظ سے چھٹا بڑا ملک ہے۔ جہاں میرا اس بات پہ یقین ہے کہ ہمارے پاس دنیا میں چھٹے نمبر کا ٹیلنٹ ہونا چاہیے۔ اسی طرح آبادی کی تناسب سے نفسیاتی بیماریاں بھی ہمارے معاشرے میں ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ میں ملک میں موجود دماغی امراض کے ہسپتالوں کو شاید ہاتھ کی انگلیوں پہ گن سکوں۔ اس پہ مزید المیہ یہ ہے کہ اگر ہم معاشرے میں موجود اپنے کسی تعلق والے کو یہ کہہ دیں کہ کسی “سائیکالوجسٹ” یا “سائیکیٹرسٹ” سے ملو تو وہ سیدھا سا جواب دے گا کہ “میں کیوں ملوں، میں کوئی پاگل ہوں؟” گویا نفسیاتی عارضہ صرف پاگل پن ہی ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کا اجتماعی رویہ ہے۔

ہم دنیا کی خوشحال قوم نہیں ہیں۔ ہمارا ملک ترقی پذیر ممالک میں شامل ہے ۔ اداروں کا حال ابھی تک ابتر ہے۔ عدالتیں انصاف بیچتی ہیں۔ پولیس روپے پیسے پہ چلتی ہے۔ ہسپتال مریضوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ ان سب باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میں سوچتا ہوں کہ لوگوں کے ساتھ ذہنی عوارض کا ہونا معاملہ ہونا معمولی ہے۔ گو ڈیپریشن وغیرہ تو لوگ فیشن کے طور پہ تسلیم کر لیتے ہیں ۔ لیکن کئی امراض کا ہمیں پتہ تک نہیں اور نہ ہی ماننے کو تیار ہیں۔ تو ان کا علاج کیونکر ممکن ہو سکے گا؟

میں یہ نہیں کہتا کہ زینب کے قاتل کو نفسیاتی مریض قرار دے کر چھوڑ دیا جائے۔ لیکن میں یہ بات ضروری سمجھتا ہوں کہ ہم بحیثیت معاشرہ اس بات کو اپنی ذمہ داری میں شامل کریں کہ ہم نے اپنے بچوں کو ان جیسے نفسیاتی بیماروں سے کیسے بچانا ہے۔ گویا یہ صرف والدین کا فرض نہیں یہ ہم سب کا فرض ہے۔سب سے بڑھ کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا فرض ہے کہ وہ قانون کا ایسا خوف پیدا کریں۔ اس کے لیے یہ بات بھی ضروری ہے کہ استغاثہ ایسے شواہد جمع کرے جو عدالتوں سے سزا دلوا سکیں۔ ہم کب تک دائروں کا سفر کرتے رہے گے۔ افسوس ہوتا ہے یہ اب دیکھ کر کہ اس حادثات کو بھی سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ سیاستدان عدالتوں کو مورد الزام ٹہراتے ہیں اور عدالتیں کمزور شواہد کا بہانہ بناتی ہیں۔

زینب اس دنیا سے رخصت ہو چکی ہے۔ اس کے ساتھ جو بربریت ہوئی اور وہ جس اذیت سے گزری وہ اس کا رب جان چکا ہے۔ لیکن اب کرب و بلا کی جس کیفیت سے اس کے والدین گزر رہے ہیں یہ ہم سب “آن لائن” دانشور نہیں جان سکتے۔ موت ایک حقیقت ہے۔ نومولود سے لے بوڑھے تک اس دنیا سے جاتے رہتے ہیں لیکن حادثاتی موت بہت تکلیف دہ ہوتی ہے یہ جدائی کی زخم پہ نمک اور مرچ کا کام کرتی ہے اور اگر یہ حادثہ کوئی سانحہ نما ہو تو آہ۔۔۔۔۔۔ میں سوچ بھی نہیں پا رہا کہ زینب کے والدین کس کرب سے گزر رہے ہیں۔

اس ایک واقعے اور اس سے ملتے جلتے واقعات میں اتنے لوگوں کی غلطیاں شامل ہیں کہ کسی ایک کو قصور وار ٹھہرانا مشکل ہے۔ لیکن میں صدق دل سے سمجھتا ہوں کہ زینب کا اصل مجرم یہ معاشرہ ہے۔ زینب کا اصل مجرم میں ہوں۔ جو اپنے آس پاس کے لوگوں کی وہ تربیت نہ کر سکا۔ جو ان کو ایک اچھا فرد بناتی۔ وہ والدین مجرم ہیں جو اپنی اولاد کو اس قسم کے نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہونے کی نشاندہی نہیں کر سکے۔ وہ لوگ مجرم ہیں جنہوں نے مہذب جنسی تعلیم کو عام نہیں ہونے دیا۔ یہ ایک الگ المیہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں نوجوان ہونے والا لڑکا اور لڑکی بنیادی جنسی تعلیم کہاں سے حاصل کرتے ہیں۔ جب تک انہیں ہوش آتی ہے معاشرے کی حوانیت ان کو کہیں نہ کہیں ڈس چکی ہوتی ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ رحم کی سب اپیلیں مسترد کر کے صرف سفاکانہ سزا دی جائے تاکہ اصلاح کا پہلو نکلے۔زینب کے قاتل کو، طیبہ پہ تشدد کرنے والوں کو، اور ان گمنام بچوں کے قاتلوں کو پکڑا جائے کہ جن کی خبر اخبار کے اندر کے صفحے پہ لگی ہوتی ہے اور متعلقہ تھانے کے رجسٹر کا کچھ حصہ اس رپورٹ سے بھرا ہوتا ہے۔
محترمہ حمیدہ شاہین صاحبہ کی ایک پرانی نظم اسی کرب کو بیان کرتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

“تین سالہ بچی جاب ریپ “
دِل کہتا ہے اُس وحشی کےنے میں اِک خنجر مارو
ہاتھوں کی اِک اِک اُنگلی توڑوں
نوچوں اور کُتّوں کے آگے ڈالُوں
ہڈّیاں توڑو
سینہ چیرو
ٹھوکر
مار مار کے
میرے بس میں
اُس وحشی کے
بال بال کی
گاڑ کے زندہ دفن کراتی
لیکن ایسے ہی
عدم ثائدہ
کر

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”پیڈوفیلیا۔۔ محمد منیب خان

Leave a Reply