• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ریپ اور عمران خان صاحب کی نرگسیت(2،آخری حصّہ)۔۔محمد وقاص رشید

ریپ اور عمران خان صاحب کی نرگسیت(2،آخری حصّہ)۔۔محمد وقاص رشید

٭کیا عمران خان 22 سالہ اپوزیشن لیڈر ہونے کے ناطے ایک ناقد ، ایک واعظ اور ایک زبانی جمع خرچ کے عادی بلند و بانگ دعوے کرنے والے کی چھاپ خود پر سے کبھی اتار پائیں گے ؟ کیونکہ وہ یہ چھاپ اتاریں گے تو ہی وہ ایک ایسے حکمران کی طرح سوچ سکیں گے جو Action speaks louder than words پر یقین رکھتا ہے۔۔۔۔

٭عمران خان صاحب کو کیا یہ احساس سرے سے ہے ہی نہیں کہ وہ اپنے بیانات سے قومی یکسوئی اور یگانگت کو غیر معمولی نقصان پہنچاتے ہیں جو کہ اس طرح کے قومی مسائل کے حل کرنے میں اشد ضروری ہے ؟ انہیں سیاسی نہیں تو سماجی و قومی معاملات میں تو اپنی طرزِ فکر کو بدلنا چاہیے کیونکہ یہ پوری قوم پر اثر انداز ہوتی ہے۔

٭موٹر وے ریپ سانحے کے بعد عمران خان نے فلور آف دی ہاؤس تقریر کرتے ہوئے پہلی بار اس معاملے میں ایک حکمران کی طرح عملی اقدامات کا تذکرہ کیا تھا۔ان اقدامات کا جواب دیں ناں کہ وہ کہاں تک پہنچے جیسا کہ وہ اپوزیشن میں تب کے حکمرانوں سے جواب مانگتے تھے ؟

٭خان صاحب نے اس تقریر میں جس سخت قانون لانے کی بات کی تھی وہ کیا ہوا کیونکہ سماجی ماہرین ریپ جیسے انسانیت سوز جرم کی روک تھام کے لیے دو تجاویز دے رہے ہیں ایک اسکے مواقع ختم کرنا اور دوسرا مجرم کے ذہن سے سزا سے بچ جانے کی بے خوفی دور کرنا ہیں۔۔۔پہلی تجویز کا تعلق یقینی طور پر پورے سماج سے ہے جس میں والدین کی ذمہ داری سرِ فہرست ہے جبکہ دوسری تجویز کا تعلق کلی طور پر ریاستی عملداری سے ہے جسکا خان صاحب سے سوال کیا گیا تھا ؟

٭مندرجہ بالا نقطہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ کیا خان صاحب جان بوجھ کر اپنے آپ کو  محض دیندار اور متقی کہلوانے کے لئے اپنی jurisdiction یعنی دائرہ اختیار پر بات کرنے کی بجائے ایک ایسی توجیہہ پیش کرتے پائے جاتے ہیں ایک تو جو منطقی نہیں دوسرا سماج میں ایک تقسیم کار خلیج کا باعث بنتی ہے ۔

٭ اصل مشکل یہ ہے کہ خان صاحب ریپ کی جس وجہ کو بیان کرنے کے باعث قوم میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا کیے ہوئے ہیں اس کے متعلق بھی عملی اقدامات کی بات نہیں کرتے ۔اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسکی وجہ انٹرنیٹ پر فحش مواد ہے تو یہ بھی تو انہی کے دائرہ کار میں آتا ہے کہ اسکو روکنے کے لیے انکی تین سالہ حکومت میں کیا اقدامات کئے گئے ہیں۔

٭ایک اور اہم کہی تھی کہ مغرب میں تو ایسے مجرموں کو بچوں تک پہنچنے سے دور رکھنے کے لیے بھی اقدامات کیے جاتے ہیں۔۔۔ ایک ڈیٹا بیس بنایا جاتا ہے ۔۔۔ماہرینِ نفسیات سے مدد لی جاتی ہے۔۔وغیرہ وغیرہ سوال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اب تک کوئی خصوصی اقدامات کیوں نہیں کئے گئے۔۔۔ کیا مبہم سی واعظانہ تقریریں ،باتیں ،خود کو مشرقی اور دینی ثابت کرنا حکومتی عملداری کا نعم البدل ہے ؟

٭معذرت کے ساتھ ،کیا عجیب منافقانہ طرزِ فکر و عمل ہے کہ پاکستان میں ایک رپورٹ کے مطابق روزانہ 8بچے جنسی استحصال کا شکار ہوتے آپ ہالی وڈ اور بالی وڈ فلموں کو اسکی وجہ سمجھتے ہیں اور یہ فلمیں پاکستان کے سینما گھروں میں لگتی ہیں اور تو اور بالی وڈ اداکار آپ کے شوکت خانم ہسپتال کی فنڈ ریزنگ تک میں شریک ہوتے ہیں۔۔۔ایک وقت تھا کہ لیڈی ڈیانا کو شوکت خانم ہسپتال میں بلانا آپ کے لیے ایک اعزاز تھا۔۔۔۔ تو کیا لیڈی ڈیانا پردہ دار خاتون تھی ؟

٭پاکستانی معاشرے کو آبادکاری کے اعتبار سے دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔۔۔ شہری آبادی اور دیہی آبادی۔۔۔ایک رپورٹ کے مطابق ریپ جیسا گھناؤنا جرم نسبتاً دیہی آبادی میں زیادہ ہے جہاں خواتین کی پردہ داری بھی زیادہ ہے اور بد قسمتی سے یہی وہ آبادی ہے جہاں طبقاتی تقسیم اور مکروہ جاگیردارانہ نظام بھی موجود ہے۔۔جہالت بھی زیادہ ہونے کے باعث victim blaming بھی زیادہ ہے جسکی وجہ سے یہاں ان سانحات کی پردہ پوشی زیادہ ہے۔۔ سوال یہ ہے کہ خان صاحب ان سرویز کے بر خلاف موقف اپنانے اور victim blaming میں شامل ہونے کی بجائے اسطرح کی سٹڈیز کو انتظامی امور کی بہتری اور قانون سازی کرنے کے لیے مدنظر کب رکھیں گے ؟

٭دور نہ جائیے خان صاحب کے اپنے حلقے کو ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر لیجیے جہاں پچھلے کچھ سالوں سے راقم الحروف موجود ہے کئی ایسے اندوہناک سانحات کے بارے میں سن چکا ہے جہاں کسی بے چارے خوب نو عمر نوجوان لڑکے کو محض اس لیے گولی مار دی گئی کہ اس نے “دوستی ” کرنے سے انکار کیا اور یہاں عورت با پردہ تو کیا بے پردہ بھی دکھائی نہیں دیتی۔۔۔

٭یہ بات کتنی عجیب بلکہ قابلِ نفرت ہے کہ ایک ملک میں روزانہ 8بچے اس استبداد کا شکار ہوتے ہیں خان صاحب اسے عورتوں کی بے پردگی سے جوڑتے ہیں اور خان صاحب ہی کے وزیر مشیر اور انصاف کی تحریک کے دست و بازو پارٹی ارکان پارلیمان میں بلاول بھٹو زرداری نامی ایک مرد پر بلو بلو جیسے زنانہ ناموں کے  آوازے کستے ہیں اسکی جنس کا مذاق اڑا کر حظ اٹھاتے ہیں ، اور پیچھے بیٹھی محترمہ زرتاج گل قہقہے لگاتی ہیں۔

آخر میں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ عمران خان صاحب جو 22 سال دوسروں پر ان تمام سماجی برائیوں پر حکومتی و ریاستی عملداری کے فقدان پر تنقید کرتے تھے اور 90دن میں ان تمام امور میں انتظامی ڈمھانچے میں بنیادی اصلاحات کی داغ بیل ڈالنے کے دعوے کرتے تھے آج قوم کے سامنے تین سال سے ہر روز تسبیح پکڑ کر تقریر کرتے پائے جاتے ہیں وعظ فرماتے نظر آتے ہیں لفاظی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔۔ ۔۔انہیں قوم میں پنجابی محاورے کے مطابق اپنے “گلِیں باتِیں” تاثر کے بارے فکر مند ہونا چاہئے اور کم از کم بچوں سے ریپ جیسے گھناؤنے اور اہم ترین ایشو پر ایک مربوط اور جامع حکمت عملی وضع کرنی چاہیے، جسکا کلیدی جزو قوم کو اکٹھا کرنا ہو نہ کہ منقسم کرنا۔۔ ۔کیونکہ میں اس جلسے میں موجود تھا جہاں انہوں نے مدینے کی اس ریاست کی تقلید کا اعادہ کیا تھا جہاں حاکم بھوک پیاس سے مرنے والے کتے کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے۔۔۔۔۔ یہاں تو انسانی جانوں کا حساس معاملہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یقین کریں آپ عدل و انصاف اور قانون کی عملداری کو یقینی بنائیں آپ کو کسی کو بتانا نہیں پڑے گا کہ آپ دیندار ہیں بلکہ عزت و ذلت کا مالک عادل و منصف خدا خود ہی دلوں میں آپ کے لیے عزت و منزلت لکھ دے گا۔۔۔۔ کیونکہ اس دین کا دوسرا نام عدل و انصاف ہی ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply