مینٹل فرسٹ ایڈ/محمد ثاقب(1)

  فرسٹ ایڈ سیکھناکیوں ضروری ہے؟

میرا چھوٹا بھائی فارماسسٹ ہے بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے اس نے فارم -ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ڈگری کی تکمیل کے بعد اس کے کچھ کلاس فیلوز جاب کی تلاش میں لاہور آگئے۔گرمیوں کا موسم تھا کچھ لڑکے مکان کی چھت پر سو جاتے تھے ایک دن ایک لڑکا چھت پر موجود لوہے کی چارپائی کو اٹھاتا ہے تو وہ چارپائی چھت کے قریب ہی موجود بجلی کی تاروں سے ٹکرا جاتی ہے تاروں میں ہائی وولٹیج کرنٹ دوڑ رہا ہوتا ہے وہ لڑکا چیخ مار کر نیچے گرتا ہے۔

نیچے موجود لڑکے بھاگ کر چھت پر آتے ہیں تو وہ لڑکا کرنٹ کے شدید جھٹکے کی وجہ سے بے ہوش ہو جاتا ہے اور اس کا سانس اکھڑ اکھڑ کر آرہا ہوتا ہے۔ وہاں موجود زیادہ تر لڑکے فارم – ڈی کی پانچ سالہ ریگولر تعلیم حاصل کر چکے تھے اور میڈیکل کے بارے میں اچھی خاصی معلومات رکھتے تھے وہ اس لڑکے کے پیروں کے تلوؤں کی مالش کرتے ہیں ایک لڑکا اس کا دل پمپ کرنے کی کوشش کرتا ہےایمبولینس بلائی جاتی ہے اس کو ہسپتال لے کر جاتے ہیں لیکن وہ اپنی جان کی بازی ہار جاتا ہے۔

ایمرجنسی پر موجود ڈاکٹر اس کے دوستوں سے پوچھتا ہے کہ آپ لوگ میڈیکل کے شعبے سے پانچ سال سے وابستہ ہو آپ نے اپنے دوست کو مصنوعی طور پر اس کے منہ کے ساتھ منہ لگا کر سانس دینے کا طریقہ کیوں نہیں استعمال کیا ؟اگر ایسا کیا جاتا تو اس کی جان بچ سکتی تھی۔ یاد رہے کہ کرنٹ لگنے کے بعد بھی وہ نوجوان لڑکا 30 منٹ تک زندہ رہا تھا ۔ڈاکٹر کی بات کے جواب میں لڑکوں نے بتایا کہ

انہوں نے تو علاج کے اس طریقے کے بارے میں آج پہلی بار سنا ہے۔

آہ ! ہمارا ناقص تعلیمی نظام !پانچ سال کی اس ڈگری کے اندر 15 دن کا فرسٹ ایڈ کا ایمرجنسی کورس شامل کیا ہوتا تو اس لڑکے کی جان بچ سکتی تھی۔

اعلیٰ تعلیم یافتہ کتابی علم کے ماہر لوگوں کا یہ حال ہے تو عام آدمی میڈیکل ایمرجنسی کے بارے میں کتنا شعور رکھتا ہوگا۔ جواب ہم سب جانتے ہیں۔اور مینٹل فرسٹ ایڈ کا کانسیپٹ تو بہت سے لوگوں نے آج پہلی بار سنا ہوگا اور فرسٹ ایڈ کاعلم رکھنا کتنا ضروری ہے یہ اوپر بیان کردہ سچے واقعے سے ہم نے سیکھا۔

پاکستان کی مشہور سائیکاٹرسٹ ڈاکٹر فضا یاسمین کے ساتھ اسی ہفتے ایک سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ ڈاکٹر صاحبہ فیصل آباد سے تعلق رکھتی ہیں آج کل کراچی میں پریکٹس کر رہی ہیں ۔ڈاکٹر فضا کو اس شعبے میں کام کرتے ہوئے تقریباً 37 سال ہو گئے ہیں والد صاحب اینٹی کرپشن میں جج کے عہدے پر تھے، فیض احمد فیض کے دوستوں میں سے تھے، فیض صاحب کا ایک شعر یاد آگیا

محبت کرنےوالوں کی تجارت بھی انوکھی ہے

منافع چھوڑ دیتے ہیں خسارے بانٹ لیتے ہیں

ڈاکٹر فضا یاسمین نے سٹیل ملز کراچی پورٹ ٹرسٹ اور مختلف پلیٹ فارمز پر کام کیا۔

پاکستان چیمبر آف کامرس کی مینٹل ہیلتھ کمیٹی کی کنونیئر ہیں اور ہزاروں مریضوں کی کونسلنگ کے ساتھ ساتھ سینکڑوں اساتذہ کو بھی ٹرینڈ کر چکی ہیں۔

پاکستان میں ذہنی امراض کو تسلیم کرنے کا رجحان موجود نہیں ہے لوگ گھبراتے ہیں کہ ڈاکٹر کے پاس گئے تو لوگ ہمیں پاگل یا نفسیاتی سمجھیں گے اسی سوال سے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحبہ سے پوچھا کہ کیسے پتہ چلے کہ ایک شخص نارمل ذہنی تھکاوٹ کا شکار ہے یا اسے کوئی ذہنی بیماری ڈپریشن، انزائٹی وغیرہ ہو گئی ہے۔؟

انہوں نے کہا ثاقب صاحب آپ نے ایک لفظ یاد رکھنا ہے

مشق= مدت، شدت، کلچر

اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ کوئی شخص اداس رہتا ہے کام کاج نہیں کرتا ،تنہائی پسند ہو گیا ہے نیند نہیں آتی بھوک نہیں لگتی ہے ،اس قسم کی کوئی اور علامت ہے تو سب سے پہلے اس کی مدت دیکھیں، کتنے عرصے سے وہ اس مسئلے کا شکار ہے ،کبھی اداس رہتا ہے پھر نارمل ہو جاتا ہے تو کوئی ذہنی بیماری نہیں ہے، پھر مسئلے کی شدت دیکھی جائے ،بھوک بالکل نہیں لگ رہی یا بہت زیادہ کھانا کھا رہا ہے ،کمرے سے باہر ہی نہیں نکلتا تو الارمنگ سچوئیشن ہے، اس کے بعد کلچر سے مراد اس کا رہن سہن فیملی بیک گراؤنڈ فنانشل پوزیشن وغیرہ ہے، یعنی بہت زیادہ غریب ہے تو گھبرایا ہوا رہے گا ،فیملی میں جھگڑے ہوتے رہتے ہیں تو اس کا اثر پڑے گا ،جس ذات قبیلے سے تعلق ہے اس کے اثرات بھی شخصیت پر ہوتے ہیں۔ حاصل ِگفتگو یہ ہوا کہ مرض (علامات) پرانا ہے پریشان کر رہا ہے فیملی نارمل ہے صرف وہ شخص بیمار ہے تو اسے چاہیے کہ کسی ماہر ڈاکٹر سے رجوع کرے دوستوں سے مشورہ نہ کرے ،کسی ماہر بندے کے پاس جائے۔

اس نے تپتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا

روح تک  آ گئی تاثیرمسیحائی کی

آپ کے کسی قریبی عزیز کی ڈیتھ ہو گئی ،جاب چلی گئی ،شادی ٹوٹ گئی، محبت میں ناکامی ہوگی اور شدید ترین اداسی نے آپ کو گھیر لیا ،یہ کیفیت تین گھنٹوں سے زیادہ رہی تو اس بات کے امکانات ہیں کہ انزائٹی کے مرض کی علامات آپ کے جسم کے اندر نمودار ہو جائیں۔

یہ کیفیت دو دن تک رہے یعنی اگلے 48 گھنٹے آپ مستقل اسی صدمے کی کیفیت میں رہیں تو یہ مرض اگلی سٹیج میں چلا جاتا ہے، جس کو ہم ٹینشن کے نام سے جانتے ہیں اور یہ کیفیت اگر سات دن تک رہے تو آپ ڈپریشن کے مرض کا شکار ہو سکتے ہیں۔

ڈاکٹر فضا یاسمین سے پوچھا پریشان مایوس شخص یا اس سے ملنے والا کیا ترکیب استعمال کرے کہ وہ اس کیفیت سےنکل جائے۔

انہوں نے بتایا 16 منٹ کی سلو جوگنگ آپ کو اس کیفیت سے نکال دیتی ہے

اپنی کیفیت کو رجسٹر پر لکھا جائے

سانس لینے کی آسان خاص ترکیب بتائی۔ چار سیکنڈ تک آکسیجن کو ناک کے ذریعے کھینچا جائے پھر سات سیکنڈ اس کو ہولڈ کریں اور اگلے آٹھ سیکنڈ میں سانس باہر نکالیں۔

اس کام سے دور ہٹ جائیں جس سے آپ کو تکلیف پہنچ رہی ہے۔

پودے لگانا

پینٹنگ کرنا

لکھنا پڑھانا

جم میں جانا

یا کوئی بھی فزیکل ایکسرسائز کرنا آپ کو اس کیفیت سے باہر نکال دیتا ہے۔

ڈپریشن کی خاص علامات یہ ہیں

*مستقل اور شدید اداسی محسوس کرنا۔

*وہ سرگرمیاں جو پہلے خوشی دیتی تھیں، ان میں دلچسپی ختم ہو جانا۔

*ہمیشہ تھکاوٹ اور کمزوری محسوس کرنا۔

*نیند نہ آنا یا زیادہ سونا۔

*وزن میں تبدیلی: بھوک کم ہو جانا یا زیادہ کھانے کی عادت، جس سے وزن میں تبدیلی آ سکتی ہے۔

*خود کو بیکار یا قصور وار سمجھنا۔

*توجہ مرکوز نہ کر پانا یا فیصلے کرنے میں مشکل۔

*مستقبل کے بارے میں نا امیدی محسوس کرنا۔

*موت کے بارے میں سوچنا یا خودکشی کے خیالات آنا۔

اگر آپ یا آپ کے کسی عزیز میں ان میں سے پانچ علامات موجود ہیں تو براہ کرم کسی ماہر نفسیات یا ڈاکٹر سے رابطہ کریں۔ ڈپریشن ایک قابل علاج بیماری ہے اور مدد حاصل کرنا اہم ہے

یاد رکھیں یہ قابل علاج ہے موت اور بڑھاپے کے علاوہ ہر بیماری کا علاج ہے۔

بچوں میں اے ڈی ایچ ڈی اور دوسری بیماریاں ان کی گروتھ پیرنٹنگ فیملی لائف مینٹل فرسٹ ایڈ کو تفصیل سے ہم اس کالم کے اگلے حصے میں ڈسکس کریں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

محمد ثاقب
محمد ثاقب ذہنی صحت کے ماہر کنسلٹنٹ ہیں جو ہپناتھیراپی، لیڈرشپ بلڈنگ، مائنڈفلنس اور جذباتی ذہانت (ایموشنل انٹیلیجنس) کے شعبوں میں گذشتہ دس برس سے زائد عرصہ سے کام کررہے ہیں۔ آپ کارپوریٹ ٹرینر، کے علاوہ تحقیق و تالیف سے بھی وابستہ ہیں اور مائنڈسائنس کی روشنی میں پاکستانی شخصیات کی کامیابی کی کہانیوں کو دستاویزی شکل دے رہے ہیں۔ معروف کالم نگار اور میزبان جاوید چودھری کی ٹرینرز ٹیم کا بھی حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply