پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار تحریک انصاف کے عام امیدواروں نے عوام سے باری اکثریت میں اعتماد کا ووٹ لے کر اس تاثر کو غلط ثابت کر دیا ہے کہ انتخابات میں الیکٹیبلز کے علاوہ کو ئی بھی سیاسی جماعت انتخابات نہیں جیت سکتی ، تحریک ِ انصاف کے بانی قائد عمران خان ،پہلی صف کے راہنما جیل میں ہونے یا زیر زمین ہونے اور انتخابی نشان نہ ہونے کے باوجود پاکستان کی عوام نے آدھی صدی کے بعد پہلی دفعہ موروثی سیاست دانوں اور الیکٹیبلز کو قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں سے باہر کر دیا ، جو مغربی درباری، 55 سال سے کہہ رہے تھے کہ عوام نہیں جرنیل فیصلہ کُن قوت ہیں اس تاثر کو، 2024 میں دفن کر کے عوام نے دنیا پر ثابت کر دیا کہ ” طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں “، آدھی صدی سے جرنیل قومی سیاست کے ڈرائیور تھے۔ لیکن عمران خان نے قومی سیاست کا رخ تبدیل کر کے جرنیل کو قومی سیاست سے باہر کرنے کے لئے راستہ ہموار کر دیا ہے ۔
تقسیم پاکستان سے قبل ا س وقت کے آمر کو اس کے مشیروں نے مشورہ دیا تھا ، کہ جرنل انتخابات میں کوئی بھی سیاسی جماعت انتخابات میں واضح اکثریت نہیں جیت سکے گی ، مخلوط حکومت بنے گی ، جو آپ کی غلام ہو گی ، اور فوجی وردی اُ تارنے کے بعد آپ صدر ِ پاکستان بھی بن سکتے ہیں ، لیکن مشور ہ دینے اور لینے والے نہیں جانتے تھے ، کہ وہ 1970,کا دور تھا ، جس میں سوشل میڈیا کا شور نہیں تھا آج 2024، ہے ، پاکستان کی عوام پہلے بھی قومی مجرموں کو نہیں ، بلکہ پاکستان دوست امیدواروں کو ووٹ دیا کر تی تھی لیکن وقت کے جرنیل نقاب پوش تھے ، وہ عوامی مینڈیٹ چور ی کر لیا کرتے تھے ، جنہیں عمران خان نے کمال حکمت عملی سے بے نقاب کر دیا ۔
مقبوضہ پاکستان کے سلطان مانے یا مانے لیکن یہ حقیقت ہے کہ عمران خان نے جیل میں بیٹھ کر اس کی سلطنت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
8، فروری کو جنرل الیکشن سے قبل ، مقبوضہ پاکستان کی قیادت کو جو غلط فہمی تھی وہ پاکستان کی عوام نے دور کر کے ان کو دن میں تارے دکھا د یئے ، لیکن جرنیل نے اپنی شکست کو تسلیم نہیں کیا ، 8، فروری کو پولنگ سٹیشن میں کئے جانے والے عوام کے فیصلے کو دوسرے دن اپنے غلام آراوز کے دفاتر میں تبدیل کر کے مینڈیٹ چوری کر لیا پولنگ سٹیشن میں ، 1,26000،ہزار سے زائد ووٹ لینے والا ہار گیا اور 27،000، ووٹ لینے والا جیت گیا۔
نیا نے تسلیم کیا کہ پاکستان کے جرنیلوں نے عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا ہے , پاکستان بھر کی عوام آج سڑکوں پر سراپا احتجاج ہے ، بیلٹ کی طاقت کو بلٹ کی طاقت سے دبایا جارہا ہے ، اور نظام عدل کی آنکھیں بند ہیں ، قانون گونگا ہے ،آج تخت ِ اسلام آباد پر ،پی ڈی ایم ، کے ان مردہ ضمیروں کو بٹھایا جارہاہے ، جو رجیم چینج میں ایک تھے ۔
آج وقت کا تقاضا ہے شعوری غلاموں اور مقبوضہ پاکستان کی خلائی مخلوق سے نجات کے لئے ، پاکستان تحریکِ انصاف ، وحدت المسلمین ،پاکستان ،تحریک ِ لبیک ، جماعت اسلامی ، پاکستان نیشنل پارٹی ، جی ڈی اے سندھ ، پشتون خوا ملی عوامی پارٹی ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی ، ہزار ہ ڈیموکریٹک پارٹی ، کے قائدین جانتے ہیں کہ ان کی دھرنیوں اور احتجاجی جلسیوں سے کچھ حاصل نہیں ہو گا ، انہیں ایک ساتھ بیٹھ کر پی ڈی ایم کے مقابلے میں ، پی کیو ایم ،( پاکستان قومی مومنٹ) تشکیل دیں اور ایک پلیٹ فارم سے حقیقی آزاد پاکستان کے لئے جدو جہد کا آغاز کریں ، مقبوضہ پاکستان کی عدالتوں سے انصاف کی امید خود فر یبی کے سوا کچھ نہیں۔
مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی، نے پاکستان کے انتخابات کا موازنہ کشمیر میں ہوئے 1987 کے انتخابات سے کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’پاکستان میں جس طرح عمران خان سے ان کی انتخابی جیت چھینی جا رہی ہے وہ مقبوضہ کشمیر میں 1987، میں ہوئی شرمناک دھاندلی کی یاد دلا رہا ہے جب انتخابی نتائج کے ساتھ فراڈ کیا گیا۔’ یہ غیرمعمولی مماثلت ہے کہ ا س وقت مقبوضہ کشمیر میں جماعت اسلامی پر کریک ڈ اؤن کیا گیا، آج پاکستان میں پی ٹی آئی پر کیا گیا۔
التجا مفتی نے پاکستانی فوج سے کہا ہے کہ وہ ’جمو کشمیر کی خون میں ڈوبی تاریخ سے سبق لیں کیونکہ انتخابی نتائج میں دھاندلیوں کی وجہ سے یہاں مسلح تشدد شروع ہوا ،جس کا خمیازہ کشمیری ابھی تک بھگت رہے ہیں۔
پاکستانی انتخابات نیشنل کانفرنس کی دہائیوں پر مبنی ا س جدوجہد کی یاد دلاتی ہے جو پراکسی پارٹیوں کے خلاف کرنا پڑی تھی۔ 1989 میں انڈین حکومت کے ا سوقت کے وزیرداخلہ مفتی سید (محبوبہ کے والد) نے نیشنل کانفرنس کے اعتراض کے باوجود جگموہن ملہوترا کو کشمیر میں تعینات کیا جس سے تشدد کا طویل سلسلہ شروع ہوا۔‘
سابق میئر اور اپنی پارٹی‘ کے ترجمان جنید عظیم متو نے بھی ایکس پر لکھا: ’پاکستان میں فوج، عدلیہ، پولیس اور الیکشن کمیشن سمیت سبھی اداروں کو بکھرتا ہوا دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ پاکستان خود اپنے لیے شرمندگی کا باعث ہے۔ شکر خدا کا ہم نے 1947 میں پاکستان کو نہیں بلکہ ہندوستان کو چُن لیا تھا۔‘
سعدی ؒ کہتے ہیں جس شخص کے عقیدے کے کا بہرے ہوں وہ نصیحت سنے اور دیکھے بھی تو کیو نکر ،، اللہ والوں کی اندھیری رات بھی روز روشن کی طرح کامیاب ہوتی ہے اور یہ سعادت تو خدا کی دین ہے جسے پرور دگار دے ۔
نوٹ:تحریر میں بیان کردہ خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، مکالمہ ویب کا ان سے اتفاق ضروری نہیں اور نہ ہی یہ خیالات ادارے کی پالیسی کا اظہار ہیں
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں