مرشد مینوں گل سمجھائی/سلیم زمان خان

یہ لڑکا کافی دنوں سے میرا پیچھا کر رہا تھا۔ خدا خدا کر کے ایک آدھ نماز مسجد میں کبھی کبھار پڑھنے چلا جاتا ہوں وہ بھی اس دن جس دن پینے پلانے کا پروگرام دو تین دن ملتوی ہو جائے۔۔ ایسے ہی کچھ پچھلے دن ہوا کہ یاران بلکہ رندان مختلف کاموں کے سلسلے میں مصروف ہوئے اور شام کی محفلیں نہ جم سکیں تو مغرب کے وقت واک کے بعد مسجد جانے لگا کہ سنا ہے مسجد میں بھی اچھے لوگ ہوتے ہیں تو احساس ہوا کہ واقعی ہمارے محلے کی مسجد میں لوگ نماز ہی کے لئے آتے ہیں۔ ماشاءاللہ کوئی دنیاداری نہیں، روشن چہرے، نماز پڑھی نگاہوں نگاہوں میں سلام دعا لی اور گھروں کی راہ لی۔۔تو ایسی مسجد میں جا کر کچھ وہی کیفیت بنتی ہے جو رندوں کی محفل کے اول اول دور میں ہوا کرتی ہیں، لیکن یہ لڑکا میرے رنگ میں بھنگ ڈال رہا تھا۔ جماعت ختم ہوتے ہی میرے قریب قریب ہونے کی کوشش کرتا۔۔ اور میں پکا سا منہ بنا کر نماز پڑھتا رہتا اور پھر کسی نئے ریٹائرڈ بیوروکریٹ کی طرح گردن میں سریہ لگائے بغیر کسی کو دیکھے مسجد سے نکل جاتا۔

آج یہ لڑکا میرے پیچھے پیچھے آگیا اور مجھے میرے گھر کے قریب پارک میں پکڑ لیا ۔۔ بولا السلام علیکم انکل۔۔ آپ سے کچھ بات ہو سکتی ہے۔۔
میں نے اپنے جسم کو ہلاتے جلاتے کہا بیٹا ! یہ وقت میری ایکسرسائز کا ہے۔۔
وہ بولا خیر ہے سر۔۔ میں انتظار کر لیتا ہوں،بہت دن سے آپ سے کچھ جاننا چاہتا ہوں۔
میں جو اس سے جان چھڑانے کو ورزش کا بہانہ کر رہا تھا ۔۔ اسے بضد ہوتا دیکھ کر  رُک گیا اور اس سے پوچھا کہ وہ کیا چاہتا ہے۔۔
تو وہ بولا ، انکل ! آپ مسجد میں آتے ہیں پہلی صف میں پھر جو بھی بعد میں آتا جاتا ہے آپ اس کے لئے جگہ چھوڑتے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ  بعض اوقات تو آپ دوسری صف میں چلے جاتے ہیں۔ کیا آپ کو پہلی صف اور پھر امام کے قریب کھڑے ہونے کا اجر و ثواب معلوم نہیں؟؟ جبکہ پہلی صف میں کھڑا ہوکر نماز پڑھنے کا ثواب سب سے زیادہ ہے، حدیث میں ہے کہ ”مردوں کی صفوں میں سب سے بہتر پہلی صف ہے“ ایک روایت میں یہ ہے کہ ”اگر لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ اذان دینے اور پہلی صف میں نماز پڑھنے کی کیا فضیلت ہے پھر وہ (اس فضیلت کو حاصل کرنے کا موقع) بجز قرعہ اندازی کے نہ پائیں، تو وہ قرعہ اندازی کرکے اس فضیلت کو حاصل کریں“ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی صف والوں کے لیے تین مرتبہ استغفار کرتے تھے اور دوسری صف والوں کے لیے ایک مرتبہ“ ان روایات سے معلوم ہوگیا کہ پہلی صف کی فضیلت سب سے زیادہ ہے اور یہ فضیلت پہلی صف میں کہیں بھی کھڑے ہوجانے سے حاصل ہوجائے گی۔۔ تو آپ ایسا کیوں کرتے ہیں جبکہ اگر کوئی غلام بھی پہلے آکر پہلی صف میں جگہ بنا لے تو وقت کا بادشاہ بھی اسے اس جگہ سے نہیں ہٹا سکتا۔۔ پھر آپ ایسا کیوں کرتے ہیں۔۔
میں نے اس بچے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا ۔۔ یار گنہگار ہو ں۔۔تو پکے نمازیوں کو جگہ دے دیتا ہوں ۔۔ میں تو کبھی کبھی آتا ہوں نا۔
لڑکا تنک کر بولا، اگر آپ کو اتنا احساس ہے کہ آپ گنہگار ہو تو پھر تو آپ کو کوئی موقع پہلی صف یا امام کے قریب کا ضائع نہیں کرنا چاہے۔۔ اگر آپ مجھے نہیں بتائیں گے تو میں یہیں بیٹھا رہوں گا۔۔ کیونکہ بات کچھ اور ہے آپ گنہگار ہو سکتے ہیں مگر پاگل نہیں دکھتے۔
اس کی اس بات پر مجھے ہنسی آگئی اور قہقہہ مار کر میں نے کہا ۔۔ اگر بتاؤں گا تو تمہیں بھی یہ کرنا ہو گا ۔۔ اگر وعدہ کرتے ہو تو بتاتا ہوں ۔۔
اس نے جلدی سے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ اگر میرے بس میں ہوا تو ضرور کروں گا۔۔

ہم دونوں بینچ پر بیٹھ گئے، میں نے کہا سن یار، ایک حدیث پاک تم نے بہت سنی ہو گی کہ “ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ منبر پر تشریف فرما تھے، اور آپ ﷺ نے صدقے اور دوسروں سے سوال کرنے سے بچنے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: ”اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے،اور اوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا ہاتھ ہے اور نیچے والا ہاتھ مانگنے والا ہاتھ ہے”( بخاری )
جی جی۔۔ بالکل ۔۔ دیکھو ہر بات کے ایک خاص لوگوں کے لئے مطلب ہوتا ہے اور ایک عوام کے لئے۔۔ تو اس حدیث پاک کا عمومی مطلب ہے کہ دینے والا ہاتھوں صدقہ وخیرات دے وہ اوپر ہوتا ہے اور لینے والا اور محتاج ہاتھ نیچے! ایسا ہی ہے نا؟
جی جی بالکل۔۔ لڑکے نے حیرانی سے مجھے دیکھا۔۔
میں نے کہا ،سن بیٹا ! میرے ایک استاد ہوا کرتے تھے ۔ انہوں نے مجھے ایک ہی نصیحت کی تھی کہ بیٹا!! کسی سائل حاجتمند کی جب کچھ دیا کرو تو اپنا ہاتھ نیچے رکھا کرو اور اسے اوپر سے اٹھانے دو۔اور اپنے ہاتھ کو کشکول بنا کر اس میں پیسہ رکھ کر ضرورت مند کو موقع دو کہ وہ اوپر ہاتھ کر کے تم سے لے۔
لڑکا بولا یہ تو حدیث کے منافی بات کر دی آپ نے !! جب نبی کا حکم ہے تو اس میں کیا قباحت۔۔ میں مسکرایا اور کہا بیٹا!! یہی بات سمجھتے سمجھتے میری داڑھی سفید ہو گئی۔۔
دیکھو یہ بات ان کے لئے ہے جن پر اللہ کا خصوصی کرم ہوتا ہے۔ وہ یہ بات جانتے ہیں کہ اوپر والا ہاتھ سائل کا مانگنے والے کا ہونا چاہیے۔ کیونکہ اگر ان مانگنے والوں کا دل اس عزت و تکریم سے خوش ہو گیا تو ان کی دعا تمہاری تقدیر بدل دے گی۔۔ تو تم مانگنے والے ہوئے اور وہ حاجتمند دراصل تمہیں چند پیسوں کے عیوض ایک نہ ختم ہونے والی دنیا کا اجر دے کر جا رہا ہے۔ تو مانگتا پھر کون ہوا۔۔ اور ویسے بھی جب آپ اپنا ہاتھ اوپر رکھ کر کچھ دیتے ہیں تو آپ میں تکبر اور فخر آنے کا خطرہ ہے جس سے خیرات ضائع ہو جاتی ہے، کیوں تم نے قران میں نہی پڑھا کہ ” بھلی بات کہنا اور درگزر کرنا بہتر ہے اس خیرات سے جس کے بعد اذیتّ پہنچائی جائے اللہ تعالیٰ غنی ہے اور حلیم ہے۔اے اہل ایمان ! اپنے صدقات کو باطل نہ کرلو احسان جتلا کر اور کوئی اذیت بخش بات کہہ کر” ( البقرہ)

اسی طرح سے بیٹا! پہلی صف کا اجر امام کے قریب کھڑے ہونے کا اجر اتنا زیادہ ہے کہ اگر لوگ جانتے تو پہلی صف کے لئے لڑتے قرعہ اندازی کرتے۔۔ لیکن میرا بابا کہتا تھا۔۔ بیٹا پہلی صف کے اجر سے دگنا اجر تم کمایا کرو۔۔ اپنی جگہ کسی دوسرے مسلمان کو دے کر ۔۔ اس کی تکریم کرو۔۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا: (اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہیے۔‘‘

اب جب میں اپنی جگہ خالص اللہ کی رضا کے لئے کسی دوسرے مسلمان بھائی کے لئے چھوڑتا ہوں نا  کہ اسے زیادہ اجر ثواب ملے تو اللہ کریم اس تکریم انسانیت میں مجھے ایک تو پہلی صف کا اجر عطا فرماتے ہیں دوسرا ایک مومن کی حرمت کا تیسرا اپنے مسلمان بھائی کی خیر چاہیے کا چوتھا نماز کو ریا سے پاک کرنے کا اور پانچواں اجر جو دنیا میں ملتا ہے لوگ آپ کے دوست بنتے ہیں بیگانگی ختم ہوتی جاتی ہے ۔ جانتے ہو؟ نبی کریمﷺ نے کسی بھی مسلمان کے لئے کسی جگہ محفل میں اپنی جگہ مخصوص کرنے کو تکبر قرار دیا۔۔ اب بتاؤ۔۔ کہ میرا بس نہیں چلتا کہ لوگوں کو بہتر جگہ دیتے دیتے بھلے میں جوتیوں کے پاس نماز پڑھوں۔۔ مجھے ہر اس شخص کے لئے جگہ چھوڑنے کا اجر ملتا جائے گا ۔

قرآن کہتا ہے نا کہ ” اے مسلمانو! جب تک اللہ کی راہ میں تم اپنی محبوب چیزوں کو خرچ نہ کرو گے، نیکی کو نہ پہنچ سکو گے“ (ال عمران ) تو ہمیں تو اپنے ثواب کی نیت سے پہلی صف مولوی صاحب کے ساتھ نماز پیاری ہے تو اسے جب اللہ کے لئے اپنے مسلمان بھائی پر قربان کر دو گے تو دوہرا اجر ملا نا؟
تمہیں ایک راز کی بات بتاؤں؟؟؟ میں نے سرگوشی سے اس بچے کو کہا۔۔ وہ غم ضم میرے قریب ہوا تو میں نے کہا ۔۔ یار۔۔ جب حضرت موسی علیہ السلام اور جادوگروں کا مقابلہ ہو رہا تھا نا۔۔ تو سب سے پہلے وہی جادوگر ایمان لائے جانتے ہو انہیں اللہ کریم نے کیوں ایمان نصیب کیا؟
بچے نے صرف آنکھوں سے پوچھا ” کیوں”۔۔

اس لئے کہ انہوں نے ازروئے تعظیم مقابلہ شروع کرنے سے پہلے حضرت موسی علیہ السلام سے عرض کی کہ پہلے آپ شروع کرتے ہیں یا ہم شروع کریں۔۔ بس اتنی سے تعظیم نے انہیں ایمان کی دولت سے سرفراز کر دیا۔۔ دیکھو تم “خاتم ” کا مطلب جانتے ہو ۔۔؟ بچے نے کہاں جی ۔۔” آخری ” ۔میں نے کہا نہیں ، یہ آخری نہیں اس کا مطلب ” مہر” sealed یا stamped ہے۔۔ جیسے کسی سرکاری خط یا کسی کاغذ کو کسی سرکاری آفیسر سے تصدیق کرا کر بھیجا جائے ۔۔ یا پرانے زمانے میں تمام خط اگر سرکاری نوعیت کے ہوتے تھے تو انہیں بند کر کے ان کے اوپر مہر seal لگا دی جاتی تھی جس کا مطلب یہ اب مکمل ہو گیا۔۔ اسی طرح تم آج کے دور میں بند بوتلوں یا دوائیوں پر پڑھتے ہو نا کہ اگر seal ٹوٹی ہو تو استعمال نہ کریں   کہ اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ اسی طرح سے نبی کریمﷺکو خاتم النبین اس لئے کہا جاتا ہے کہ جب انبیاء کرام سے اللہ نے اطاعت کا حلف لیا تھا تو ان تمام انبیاء کرام کی نبوت کی تصدیق تب ہوئی جب انہوں نے معراج کی رات آقاﷺ کی اطاعت فرمائی اور نماز اطاعت ادا کی۔۔ اسی طرح آپ کریمﷺ اپنی امت پر شاہد یعنی گواہ ہیں تو ہر امتی ان کہ مہر سے جنت میں داخل ہو گا اب چاہے جسم کے کسی بھی حصے کو ان کی اطاعت کی مہر سے سجا لے۔۔اللہ کو عبادت کی ضرورت نہیں۔ وہ بے نیاز ہے اور اس کی تخلیق کے چپہ چپہ پر فرشتے عبادت کر رہے ہیں۔ اسے تو اپنے حبیب کریمﷺ کی اداوں سے پیار ہے۔۔ بس جو ان کی کوئی بھی ادا لے کر آئے گا اللہ کے قریب ہوتا جائے گا اب جتنا قرب کوئی چاہے۔
بچہ بولا یہ بات سمجھ نہیں آئی۔؟؟
میں نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا دیکھو فجر کی نماز 2 رکعت فرض ہے ۔۔ یہ کس نے بتایا ؟ اور اگر کوئی 4 رکعت فرض پڑھے تو قبول ہو گی یا گنہگار ہو گا؟؟
وہ بولا قبول نہیں ہو گی۔۔

میں نے کہا بس یہی اللہ چاہتا ہے کہ جو اس کے نبی کریمﷺ نے کہ دیا کر دیا ۔ بس وہی قبول ہے اور انہی کے طریقے سے قبول ہے۔۔ یہ کائنات روز اول سے لیکر روز حشر تک نبی کریمﷺکے مہر و تصدیق کے لئے ہی قائم ہوئی جو ان کا نہیں اللہ کو وہ چاہئے ہی نہیں۔۔
ایک روز میں اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ گاڑی میں جا رہا تھا۔۔ تو قوالی لگی تھی ” میں کنیو کنیو دساں اے راز دیاں گلاں” مطلب میں کس کس کو بتاؤں یہ راز کی باتیں۔۔ تو اس میں ایک شعر آیا کہ ” مینوں مرشد غلط سمجھائی لا الہ تو آگے دی” یعنی مجھے مرشد نے بات سمجھائی لا الہ سے آگے کی” تو میرے چھوٹے بھائی نے پوچھا کہ بھائی آپ کو اس کا مطلب معلوم ہے کہ لا الہ الا اللہ سے آگے کی بات کیا ہے؟؟؟

تو میں نے کہا اس سے آگے تو معراج ہے۔۔ تو وہ بولا نہیں ، بھائی ایسا نہیں۔ وہ معراج نبی کے لئے تھی۔۔ ہمارے لئے تو اس سے آگے کی بات “محمد الرسول اللہ ﷺ ہے ۔۔ اتباع نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کامل انسان بناتا ہے۔ اور نبی کریمﷺ نے ہمیشہ اپنے ساتھیوں ،صحابہ اور دوسرے انسان کو خود پر فوقیت دی ۔۔ خود بھوکے رہے ان کو کھلایا۔۔ خود پیوند لگے پہنا ان کو اپنا نیا کپڑا پہنایا۔۔ اپنی جگہ چھوڑ کر غریب مسکین اور اپنے پہلو کے ساتھی کو بٹھایا۔

اسی لئے تو اللہ نے قرآن میں قیامت تک یہ اصول بنا دیا کہ “تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو ، اور جس سے روکے رک جاؤ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو ، یقیناً اللہ تعالیٰ سخت عذاب والا ہے ۔( حشر)
بیٹا! جب جب آپ چاہیں کے اللہ آپ سے راضی ہو ۔۔ لوگوں کی خدمت ،ان کی تکریم اور ان کی عزت کریں۔۔ نجانے خدا کس کے دل سے خوش ہو کر آپ کے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دے۔۔ بس یاد رکھنا اللہ مشقت سے زیادہ دلوں کو دیکھتا ہے کسی کی بھلائی چاہنے والا نہ دنیا میں رسوا ہو گا اور نہ آخرت میں۔۔

میں عابدہ پروین کی غزل کا شعر گنگناتے ہوئے بینچ پر اس بچے کو بیٹھا چھوڑ کر گھر روانہ ہو گیا۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

“لوکی پڑھن پنج ویلے، عاشق پڑھن ہر ویلے”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply