سرائیکی وسیب کے چشتی صوفی/محمد عامر حسینی

آج جسے سرائیکی وسیب کہا جاتا ہے،اس خطے میں سلسلہ چشتیہ کا پھیلاؤ 17ویں صدی عیسوی میں دہلی میں مدرسہ اور خانقاہ چلانے والے شیخ فخر الدین دہلوی متوفی 7 مئی 1785ء کے توسط سے ہوا اور ان کے خلیفہ بنے خواجہ نور محمد مہاروی متوفی 1791ء جنھوں نے بہاولپور کے قصبے مہار میں اپنی خانقاہ تعمیر کی اور اپنے سلسلے کو بہاولپور کے گرد و نواح میں پھیلایا ، خواجہ نور محمد مہاروی کے آباواجداد ہندو جاٹ قبائل سے تھے اور بعد ازاں مسلمان ہوئے ۔ ان کے خلیفہ بنے خواجہ محمد عاقل جن کے آبا و اجداد قاضی چلے آتے تھے اور انھوں نے کوٹ مٹھن میں اپنا مرکز بنایا جس میں مدرسہ اور خانقاہ کے درمیان فرق نہیں تھا یعنی ان کے ہاں خانقاہ ہی مدرسہ تھی اور مدرسہ ہی خانقاہ تھا ۔ خواجہ نور محمد مہاوری کے دوسرے ممتاز اور نامور خلیفہ حافظ جمال ملتانی تھے اور ان کے تیسرے ممتاز خلیفہ خواجہ سلیمان تونسوی تھے جنھوں نے تونسہ میں اپنا مدرسہ و خانقاہ بنائی ۔ ان تینوں چشتی صوفیاء نے آج کے سرائیکی وسیب میں شامل ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان اور خیبرپختون خوا میں شامل ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن میں چشتی سلسلے کو پھیلایا ۔

خواجہ محمد عاقل کے خاندان سے میں خواجہ فرید جیسے بڑے صوفی شاعر نے جنم لیا ۔ سرائیکی وسیب میں شیخ فخر الدین دہلوی کے توسط سے پھیلنے والے چشتیہ سلسلے کی شاخیں چشتیہ مہاروی، چشتیہ جمالی، چشتیہ تونسوی اور چشتیہ عاقلی ایک ایسے زمانے میں پھلی پھولیں جب دہلی سے شاہ اسماعیل دہلوی اور سید احمد بریلوی نے طریقہ محمدیہ کے نام سے ایک ایسے “صوفی سلسلے” کا آغاز کیا جس نے “صلح کلیت” ( یعنی مسلمان،ہندو اور سکھوں کے درمیان ہم آہنگی، محبت، بھائی چارے ) کے وحدت الوجودی اصول کو چیلنج کردیا ۔ شاہ اسماعیل دہلوی اور سید احمد بریلوی نے “نظریہ وحدت الوجود” کو من حیثیت الکل رد تو نہ کیا لیکن اس کا جو تصور وحدت الادیان تھا اور اصول صلح کلیت تھا نہ صرف اسے رد کردیا بلکہ اس نے اس وقت کے مسلمان فرقوں شیعہ اور سنی میں جو مذھبی تہذیبی اشتراک تھا اسے بھی رد کردیا ۔ طریقہ محمدیہ کی جو اصلاح پسندانہ رجحان تھا وہ حجاز کے علاقے نجد سے اٹھنے والی اصلاح عقیدہ توحید کی جو تحریک تھی جسے اس کے مخالف اس تحریک کے بانی محمد بن عبدالوہاب نجدی کی مناسبت سے “وھابی” تحریک کہتے تھے کے بنیادی نعروں اور نظریات سے ہم آہنگ تھا۔ اس تحریک کے مراکز دہلی ، اودھ ، پنجاب اور پنجاب میں شامل وہ علاقے جنھیں انگریز حکمرانوں نے بعد ازاں شمال مغربی سرحدی صوبہ اور فرنٹیئر ٹرائبل ایریاز کا نام دے کر چھے قبائلی ایجنسیوں میں تقسیم کردیا تھا میں قائم ہوئے ۔ اس تحریک کے فکری اور احیائی چیلنج کا مقابلہ سرائیکی وسیب میں شیخ نور محمد مہاروی ، خواجہ محمد عاقل ، خواجہ سلیمان تونسوی اور حافظ جمال ملتانی نے کیا ۔ خواجہ نور محمد مہاروی ہندو۔مسلم یک جہتی اور ہم آہنگی کے بہت بڑے علمبردار تھے ۔ وہ اکثر اپنے وعظ کے دوران حافظ کا یہ شعر پڑھا کرتے تھے:

اے حافظ اگر تم خدائی وحدت سے جڑنا چاہتا ہے تو عام اور خواص دونوں کے ساتھ صلح کل کا رویہ رکھ ، مسلمان سے “اللہ اللہ” کہہ اور ہندو سے “رام رام ” کہہ
خواجہ سلیمان تونسوی ، حافظ جمال ملتانی اور خواجہ محمد عاقل بھی اپنے وعظ میں اپنے مرشد خواجہ نور محمد مہاروی کا یہی مرغوب اور پسندیدہ شعر دوہرایا کرتے تھے ۔
خواجہ سلیمان تونسوی کو شاہ اسماعیل اور سید احمد بریلوی کے پیروکار علماء کی جانب سے بار بار چیلنج کیا جاتا رہا اور وہ اپنے تئیں ان کی کٹر پنتھی کا مقابلہ کرتے رہے کیونکہ وہ اپنے مرشد اور اپنے تین پیر بھائی مہاروی کے خلفاء سے کہیں زیادہ دیر تک زندہ رہے اور وہ 1850ء میں 84 سال کی عمر میں فوت ہوئے۔ یہ 1857ء کی جنگ آزادی سے 7 سال پہلے کی اور دیوبند میں شاہ اسماعیل دہلوی و سید احمد بریلوی کی وہابی اصلاح پسندانہ تحریک کے زیر اثر بننے والے والے معروف دارالعلوم دیوبند کی تشکیل (1866ء) سے 16 سال پہلے کی بات ہے ۔

خواجہ محمد سلیمان تونسوی اگرچہ وحدت الوجود کے زیر اثر صلح کلیت کے اصول کا اطلاق مسلم ۔ ہندو ہم آہنگی پر کرتے تھے لیکن وہ اس کا اطلاق مسلمانوں کے اندر شیعہ ۔ سنی ہم آہنگی پر نہیں کرے تھے اور ان کے اندر خود چشتیہ سلسلے کے اندر رائج کئی ایک صوفیانہ رسوم کے خلاف پیورٹن طرز کا تھا ۔ وہ سماع کے مخالف تھے ۔ پیر کی قدم بوسی کے بھی مخالف تھے ۔ ان کا یہ پیورٹن اور اینٹی شیعہ طرز فکر اس بات سے بھی ظاہر ہوا کہ وہ اپنے شاگردوں اور مریدین کو سختی سے شیعہ اور معتزلہ عقائد رکھنے والوں سے میل جول کرنے سے منع کرتے اور تہذیب عزا سے وابستہ وہ رسوم جو سنی مسلمانوں میں رائج تھیں ان سے بھی دور رہنے کی سختی سے تلقین کرتے ۔ وہ شیعہ ، معتزلہ کو وہابیوں کی طرح ” بد مذہب” (برے مذھب کے پیروکار) قرار دیتے تھے۔ ان کے ایک ممتاز مرید اور خلیفہ مولانا محمد علی خیرآبادی تھے جنھوں نے علوم دینیہ کی تعلیم شاہ ولی اللہ کے بیٹے اور شاہ عبدالعزیز کے بھائی شاہ عبدالقادر کی شاگردی میں حاصل کی تھی اور یہ کئی سال مکہ اور مدینہ میں بھی مقیم رہے اور ان کی اقامت کا زمانہ وہی ہے جب حجاز میں وہابی تحریک کا عروج تھا اور یہ جب واپس آئے تو انھوں نے جہاں شاہ اسماعیل دہلوی اور سید احمد بریلوی کے کئی ایک نظریات کی سختی سے مخالفت کی وہیں انھوں نے خود سلسلہ چشتیہ میں رائج کئی ایک صوفیانہ رسومات و رواج کی مخالفت کی جن میں سماع اور قدم بوسی کی مخالفت نمایاں تھی وہیں انھوں نے شیعہ مذہب کی مخالفت اور صوفی سنی مسلمانوں میں رائج کئی ایک رسوم جن میں تعزیہ داری کی رسم بھی شامل تھی کی بھی سخت مخالفت کی ۔ انھوں نے خیرباد میں اپنی خانقاہ اور مدرسہ قائم کیا اور دلچسپ بات یہ کہ ان کے سب سے نمایاں اور ممتاز شاگرد اور خلیفہ مولانا فضل حق خیر آبادی تھے ۔

مولانا فضل حق نے خیرآباد میں جو مدرسہ قائم کیا وہ مدرسہ ایک طرف تو شاہ اسماعیل دہلوی کی روایت کے خلاف مخالفت کا ایک اہم مرکز تھا ،دوسرا یہ مدرسہ شیعہ شیعی عقائد و رسوم رواج کا بھی سخت مخالف تھا اور یہ سنیوں میں تہذیب عزا میں شامل کئی ایک رسوم و رواج کے سنی مسلمانوں میں فروغ پا جانے کی سخت مخالفت کر رہا تھا ۔

خواجہ سلیمان تونسوی کے سب سے پیارے خلفاء میں سے ایک خواجہ شمس الدین سیالوی بھی تھے جو سرگودھا کے نزدیک قصبے سیال کے رہنے والے تھے اور ان سے سلسلہ چشتیہ کی شاخ چشتیہ سیالوی کہلائی اور خواجہ شمس الدین سیالوی کے خلیفہ مجاز پیر مہر علی شاہ گولڑہ والے تھے ۔ سیال کی چشتیہ شاخ کو اپنے پھیلاؤ ملتان ڈویژن کے اضلاع جو چناب اور راوی کے علاقے تھے میں سب سے بڑا چیلنج اس علاقے کے بڑے شیعہ جاگیردار و زمیندار اشراف کے زیر اثر پروان چڑھنے والی شیعی صوفی روایت سے ملا اور اسی لیے اس کا رویہ شیعیت کی طرف بہت سخت رہا کیونکہ اس علاقے میں شیعی جاگیردار اشرافیہ صرف شیعہ نہیں تھی بلکہ وہ صوفی بھی تھی ۔ جیسے خواجہ شمس الدین سیالوی کے سب سے بڑے حریف شاہ جیونہ درگاہ کے زمیندار تھے جن کے آج کل مجاز مجاور فیصل صالح حیات ہیں اور خود بیگم عابدہ حسین کا خاندان بھی شیعی پیر گھرانہ تھا اور پھر جھنگ سٹی میں چٹی کوٹھی میں رہائش پذیر شیعہ جاگیردار سیال ۔ خواجہ شمس الدین سیالوی کے فرزند اور جانشین خواجہ قمر الدین سیالوی نے تو “مذھب شیعہ” کے عنوان سے تو کتابیں بھی لکھیں ۔
لیکن پیر مہر علی شاہ کی درگاہ اور ان کے جانشینوں کا رویہ اپنے پیر کی درگاہ سے یکسر ہٹ کر تھا وہ وحدت الوجودی تھے اور اس معاملے میں اپنے پیر کی درگاہ سے کہیں زیادہ وسیع المشرب تھے۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ چشتیہ سلسلے کی وہ شاخ جس کے بانی مولانا فخرالدین دہلوی تھے اور جس کی ایک شاخ چشتیہ تونسوی شاخ تھی سے نکلنے والی چشتیہ خیرآبادی شاخ وحدت الوجود کے اصول صلح کل کا اطلاق ہندو۔مسلم تعلقات پر تو کرتی تھی لیکن سنی ۔شیعہ تعلقات پر نہیں کرتی تھی۔
مولانا فخرالدین دہلوی چشتی کے ہاں اینٹی شیعہ رجحان کی موجودگی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ دہلی میں معروف نقشبندی خانقاہ کے پیر میرزا مظہر جانجاں سے بڑا قلبی لگاؤ  رکھتے تھے جو دہلی میں سنی عوام میں رائج بہت سی رسومات اور رواج کو شیعی رسومات و رواج قرار دیتے اور شیعہ مذہب کے خلاف بہت ریڈیکل نظریات رکھتے تھے ،یہاں تک کہ ان کے خلاف جہاد بالسیف تک کے حامی تھے اور ان کا قتل بھی ایک شیعی بنیاد پرست نے کیا تھا ۔ میرزا مظہر جانجاں کی نماز جنازہ مولانا فخر الدین دہلوی چشتی نے پڑھائی تھی ۔

اگرچہ سرائیکی وسیب میں مہار، کوٹ مٹھن، ملتان اور تونسہ میں قائم ہونے والی چشتی سلسلے کی خانقاہیں وحدت الوجودی تھیں اور انھوں نے شاہ اسماعیل دہلوی تحریک کے کئی ایک اہم بنیادی اصلاح پسندانہ خیالات کو وہابی نظریات قرار دے کر رد کیا اور بعد ازاں مدرسہ دیوبند کے کئی اصلاح پسندانہ خیالات کو رد کیا لیکن ان خانقاہوں سے وابستہ بعد کے خلفاء اور علمانے اکابرین دیوبند کے خلاف مولانا احمد رضا خاں بریلوی کے فتوا کفر سے اتفاق نہ کیا اور اپنے آپ کو بریلوی کہلوانے سے بھی گریز کیا اگرچہ ان خانقاہوں سے وابستہ مدراس دینیہ نے پاکستان بننے کے بعد بریلوی مدراس کے اتحاد کی تنظیم “تنظیم المدارس” سے الحاق کیا اور وہ آج عرف عام میں بریلوی کہلاتے ہیں ۔ یہی روش بعد کے علما و مشایخ خیر آباد کی رہی ۔ مولانا فضل حق خیر آبادی کے بیٹے مولانا عبدالحق خیرآبادی نے بھی اکابرین دیوبند جن عبارات پر فتوا جاری ہوا انھیں متنازعہ فیہ اور ان سے اظہار برآت تو کیا لیکن فتوا کفر سے اتفاق نہیں کیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس تفصیل سے یہ پتا چلتا ہے کہ چشتیہ وحدت الوجودی صوفیامیں ایسے صوفیا بھی موجود تھے جو صلح کلیت کو مطلق نہیں مانتے تھے بلکہ اس کا اطلاق غیر سنی فرقوں پر نہیں کرتے تھے ۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply