قومی ترقی۔۔ناصر خان ناصر

قومی ترقی کے نام پر ہمارے ہاں جو مذاق کیے جاتے ہیں، کم از کم ہمیں تو ان پر کوئی  ہنسی نہیں آتی۔

ہمارے ہاں دکھاوے، شو شا، افتتاحی تقریبات، نقاب کشائی، ربن کٹائی  ہر بات میں اتنی ہوتی ہے کہ گٹر کا ڈھکن لگانے اور درخت اُگانے تک پر ہنگامہ بپا کیا جاتا ہے۔

ہم امریکہ میں چالیس برس سے  مقیم ہیں مگر آج تک نقاب کشائی کی کوئی  تقریب نہ کبھی دیکھی نہ سنی۔ یہاں کوئی  وی آئی  پی کلچر نہیں ہے۔ امریکی صدر بھی اپنے تمام کام اپنے ہاتھوں سے خود سرانجام دیتا ہے۔ امریکی فوجیوں کو معقول معاوضہ ضرور ملتا ہے مگر مفت کے بنگلے، مفت علاج معالجے، نوکر چاکر، اردلی، گاڑیاں اور شاہانہ تنخواہیں  کسی کو نہیں ملتیں۔ ہر شخص اپنے سارے کام خود کرتا ہے۔ کسی انسان سے رنگت، مذہب، زبان، لسان، قومیت، جسامت یا کسی ہینڈی کیپ کی بنا پر تعصب کرنا قابل سزا جرم ہے۔

ہمارے غریب ملک کی طرح نہ کوئی  ڈاک بنگلے ہیں، نہ ریسٹ ہاؤس، نہ رشوت کی بالائی  آمدن، نہ خوشامدی ٹٹوؤں کے ہجوم۔۔

کوئی  بھی کہیں اپنے دربار آراستہ کرتا ہے نہ اپنے باپ کے اعلیٰ  عہدے کا رعب جھاڑتا ہے۔

ہمارے ہاں پاکستان میں اپنے ہاتھ سے کام کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے اور یہ انتہائی  غلط بات ہے۔ ہر درمیانے طبقے یا مڈل کلاس والے سفید پوش کے ہاں نوکر ہوتے ہیں۔ بالائی  طبقہ تو اٹھ کر آپ پانی پینے کا بھی روادار نہیں ہے۔ ان نوکروں کی جو مٹی دن رات پلید کی جاتی ہے اور ان سے جو غلاموں سے بھی بدتر سلوک روا رکھا جاتا ہے، وہ ایک الگ کہانی ہے۔

اگر پاکستان کو ترقی کرنا ہے تو ہر چھوٹے بڑے، عورت مرد اور تیسری جنس کو مل جل کر معیشت  کا پہیہ گردش میں لانا ہو گا۔ یہ کام اتنا کٹھن بھی نہیں ہے صرف معمولی سرمایہ کاری، ہوش مندی، تربیت اور آرگنائزیشن کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو موٹیویٹ کرنا پڑے گا۔ ہر گاؤں قصبے اور محلے میں کاٹج انڈسٹری بآسانی لگائی  جا سکتی ہے۔ کسی بھی کارآمد شے کے چھوٹے چھوٹے پرزہ جات گھروں میں بنائے جا سکتے ہیں۔ ان سب کو جمع کر کے بڑی مشنیری، کاریں، جہاز، کمپیوٹر اور دنیا بھر سے منگوائی  جانے والی ہر چیز کو اگر خود بنایا جائے تو وہ سستی بھی پڑے گی۔ بآسانی دستیاب ہو گی، لوگوں کو جاب ملے گی اور خود انحصاری سے سارے ملکی قرضے کم ہوتے چلے جائیں گے۔

پاکستانیوں کو سادگی اختیار کرنے، وی آئی  پی کلچر کو مکمل ختم کرنے اور وزیروں مشیروں سمیت تمام بڑے عہدہ داران کی نفری، تعداد اور مفت کی مراعات مکمل طور پر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے انصاف کو ارزاں، مکمل، سب کے لیے مساوی اور فوری دستیاب کیا جائے۔ پھر تعلیم و صحت کے ڈھانچے درست کیے جائیں۔ دستکاری، صنعت کاری، ہاتھ سے کام کرنے کی ٹرینگ کے ادارے کھولے جائیں۔ جہاں دو دو سال کے چھوٹے کورسز کروا کر بے روزگار پھرتے نوجوانوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کر دیا جائے۔

ایسی بے شمار تجاویز ہیں مگر جس ملک میں چھوٹے چپڑاسی سے لے کر اوپر تک گدی پر بیٹھا حکمران اور ملک کے محافظ خود چور ہوں، سارے قرضے اور وسائل چرا کر اور بندر بانٹ سے کھا جاتے ہوں وہاں کیا خاک ترقی ہو گی۔

ہمارا وی آئی  پی سسٹم بے حد انوکھا اور نرالا ہے۔ ہمارے فوجی آفیسرز، نوکر شاہی اور دیگر سرکاری حکام کو جتنی مراعات مفت ملتی ہیں، پوری دنیا میں کہیں بھی اس کا تصور تک نہیں ہے۔ ایک انتہائی  غریب ملک ہونے کے باوجود قرضے لے لے کر ہم نے وزیروں مشیروں کی فوج جمع کر رکھی ہے۔ تحصیل دار، کمشنر، ڈپٹی کمشنر، میجر، کرنل، ججز، تھانے دار۔۔۔۔ قدم قدم پر اتنی خون چوسنے والی جونکیں موجود ہوں تو معشیت کا ڈھانچہ کیونکر کھڑا رہ سکے؟

عالمی طاقت امریکہ کے لا محدود وسائل اور غریب قرضے کے بوجھ تلے دبے پاکستان کے وسائل کا موازنہ کر کے انصاف کیجیے۔ پاکستان کے سارے وسائل کو پاکستان کی فوج، بیوروکرسی، ججز، کرپٹ سیاست دان ملی بھگت سے لوٹ کر کھا رہے ہیں۔ پاکستان کا مقابلہ اس سائز کے دیگر غریب ممالک سے کر کے دیکھیں۔ پوری دنیا میں کہیں ایسی لوٹ مار نہیں مچی ہوئ کہ ان کے ریٹائرڈ جنرل جزیرے خریدتے پھر رہے ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم بھی بے شمار امریکن فوجی آفیسرز اور ویٹرنز کو زاتی طور پر جانتے ہیں۔ پاکستان کی طرح کسی کو کہیں بھی زمینوں کے مربعے اور کارنر پلاٹ الاٹ نہیں ہوتے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply