کپتان سے سلطان تک کا سفر۔۔ شہزاد سلیم عباسی

عمران خا ن کااصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ محنت کرنے اورمحنت جتلانے کا عادی ہے۔ عمران خان کی 22 سالہ جہدِمسلسل ہمت و جرات کا استعارہ ہے۔ کرکٹ ورلڈ کپ کی ٹرافی اٹھائے عمران خان کو دیکھ کر شاید کسی نے سوچا نہ ہوگا کہ وہ ایک دن مملکت پاکستان کی باگ دوڑ سنبھالے گا، لیکن آج 26 برس بعد عمران خان نیازی پاکستان کے 22ویں وزیراعظم ہیں۔ سیاسی اور ذاتی زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے مگر ہمت نہ ہاری۔کرکٹ کو خیر آباد کہنے کے بعد عمران خان کی بل کھاتی زندگی نے تین مراحل طے کرنے کا فیصلہ کیا۔ پہلے مرحلے میں سماجی خدمات میں طبع آزمائی کی اورشوکت خانم ہسپتال کی بنیاد رکھ ڈالی، جس میں اُس وقت کی حکومت کے وزیر اعظم نواز شریف نے بھی ان سے تعاون کیا۔ کینسر کے مریضوں کے لیے لاہور میں ایشیاء کا سب سے بڑا شوکت خانم میموریل ہسپتال بنایا۔ اِسی طرز کا ایک کینسر ہسپتال پشاور میں بھی قائم کیا گیا ہے۔

عمران خان کی زندگی کا دوسرا رُخ یعنی دوسرا مرحلہ صوفی ازم تھا۔استاد احمدبشیر سے صوفیت اور روحانیت کے ارتکازی مراحل طے  کیے، پھر دینی معاملات کی درستی کے لیے مفتی سعیدکے ربط میں رہے اورمختلف پیران ییر اور فقیروں سے عشق مجازی سیکھتے رہے۔تیسرے مرحلے میں سیاست میں قدم رکھا۔ نواز شریف، مشرف، اسٹیبلشمنٹ اورزرداری سب سے سیاست کے داؤ پیچ سیکھے۔ سیاسی پختگی اور پاکستانیت کے لئے قاضی حسین احمد سے رہنمائی لی۔ سیاست 25 اپریل 1996ء کو پاکستان تحریک انصاف قائم کرکے سیاسی میدان میں قدم رکھا۔ 2013 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں تیسری بڑی اور ووٹ لینے والی دوسری بڑی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی، جس نے خیبر پختونخوا میں حکومت بھی بنائی اور ان کی 22 سال کی جدوجہد کے بعد آج تحریک انصاف ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر اُبھری۔عمران خان نے 2013 کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاجی تحریک چلائی اور دارالحکومت اسلام آباد میں 126 دن پر مشتمل طویل ترین تاریخی دھرنا دے کر مسلم لیگ (ن) کی گزشتہ حکومت کو ٹف ٹائم دیا۔وہ اپنے سیاسی مخالفین خاص طور پر سابق وزیراعظم نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، شہباز شریف، کیپٹن (ر)صفدر، مریم نواز اور درجنوں دوسرے رہنماؤں کو پاناما لیکس کے انکشافات کے بعد بھرپور حکمت عملی کے ذریعے جیل بھجوانے میں کامیاب ہوا۔عمران خان کی جہد ِ  مسلسل سے ایک چیز عیاں ہے کہ اگر کسی چیز کو سچے دل سے کیا جائے تو پھر اللہ منزل آسان کر دیتا ہے۔ مگر جب انسانی معاشرے میں محنت اور انصاف کا فقدان ہو تو پھر معاشرے قومیں نہیں بلکہ ریوڑ اور ہجوم بنتے ہیں۔

یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جب تک ہمارے ہاں الیکٹ ایبلز کو نکیل  ڈال کر ان کی بلیک میلنگ بند نہیں کی جاتی اور صاف شفاف انتخابات کا انعقاد نہیں ہوتا اور میڈیا کو حقیقی آزادی نہیں ملتی، تب تک عمران خان یا اس جیسا کوئی بھی حکمران آ جائے وہ ان آٹا، چینی، تمباکو وغیرہ کے مافیاؤں اور کارٹیلز سے مقابلہ نہیں کر سکتا اور مقابلہ وہ کر بھی کیسے سکتا ہے کہ وہ تو آزاد پنچھی  ہےجس سے کوئی بھی پارٹی مک مکا کرنے کو تیار ہے۔ یہ بات بالکل سچ ہے کہ 30 سال کی گندگی ڈیڑھ سال میں صاف نہیں ہوسکتی مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ مہنگائی کر کے عوام کو خود کشیوں پر مجبور کیا جائے۔ حکومت کو سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کو سیاسی طور پر عدم استحکام کا شکار کیا جائے۔عمران خان کے کپتان سے سلطان بننے تک کے سفر میں سب سے بڑا مسئلہ یہ رہا کہ ”اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی ناخوش، میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا کند۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ کالم شاباشی حاصل کرنے کے لیے نہیں لکھا گیا بلکہ مطمع نظر یہ ہے کہ ہم جذبہ و لگن اور محنت و ہمت کیساتھ اپنے کام کی رفتار کو اپنے لیے، ملک کیلئے او ر قوم کے لئے ڈبل کردیں اور عمران خان کی آگے بڑھنے کی لگن کو اپنا لیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply